Falasteen Israel Tanaza (1)
فلسطین اسرائیل تنازعہ (1)
آج سے تقریباََ ایک سال پہلے، اسرائیل کے ناجائز قبضے اور معصوم فلسطینوں کو شہید کرنے کے ردِ عمل میں، 7 اکتوبر 2023 بروز ہفتہ فلسطینی مزاحمت کاروں کی تنظیم حماس نے "طوفان الاقصیٰ کے نام سے اسرائیل پر غزہ کی پٹی کی طرف سے حملہ کیا۔ اس حملے میں گاڑیاں، موٹرسائیکلیں، پیراگلائیڈر اور کشتیوں کا استعمال کیا گیا۔ یہ حملہ فلسطینی عوام کے غصے کا اظہار کرتا ہے جو کئی دہائیوں سے ناجائز اسرائیلی قبضے کا ردعمل میں وقتاََ فوقتاََ نظر آتا رہا ہے۔ اس حملے میں کم و بیش 1400 اسرائیلی واصلِ جہنم ہوئے اور تقریباََ 200 فوجیوں کو یرخمال بنایا گیا۔
اس حملے کے بعد امریکہ نے اسرائیل کی پشت پناہی کی اور اسرائیل نے غزہ پر حملہ کر دیا جس میں 3700 سے زائد معصوم شہری شہید ہو گئے۔ خلافتِ عثمانیہ کے دور میں فلسطین کا علاقہ سلطنتِ عثمانیہ کے زیرِ حکومت رہا ہے۔ فلسطین کا مسئلہ دو ہزار سال پرانا ہے جس کی جڑیں بہت گہری ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ مزید پچیدہ ہوتی جا رہی ہیں۔ مسئلہِ فلسطین کا تنازع ایک پٹی سے شروع ہوا جس میں باہر کی طاقتیں ملوث رہیں۔
بظاہر اسرائیل کو بنے 75سال ہی گزرے ہیں مگر اس کو وجود دینے کی کوششیں 200 سال پرانی ہیں۔ آسٹریا، ہنگری کے صحافی Dr. Theodor Herzl کی کتاب "The Jewish State" میں بیسویں صدی کی آمد کے ساتھ ایک یہودی ملک کے قیام کا تصور پیش کیا۔ تاریخی طور پر فرانس کے فوجی آمر نیپولین بونا پارٹ نے 1799 میں یہودیوں کو پہلی بار ایک صیہونی ریاست بنانے کی پیش کش کی تھی اس غرض سے اس نے سلطنت عثمانیہ کے خلاف جنگ کی جس میں اسے شکست ہوئی۔
اس کے بعد مشرقِ وسطیٰ میں یورپی گٹھ جوڑ مضبوط ہوتا گیا اور 1840 میں برطانوی وزیرِ خارجہ لارڈ پالمرسٹن نے سفیر کو خط لکھا کہ وہ سلطان پردباؤ ڈالے کہ مصر کے گورنر محمد علی کی طاقت کم کرنے کے لیے فلسطین کو یہودی تارکین وطن کے لیے کھول دے۔ اس وقت فلسطین میں صرف 3000 یہودی آباد تھے مگر فرانسیسی اشرافیہ Beran اور Rothschild جیسے امیر خاندانوں نے یہودی بستیاں قائم کرنے میں مدد کی۔
آج سے لگ بھگ ڈیرھ صدی پہلے سن 1882 میں فلسطینی سرزمین پر پہلی یہودی بستی "Rishon LeTsiyon" قائم کی گئی جس کے لیے دینا کے مختلف ممالک سے یہودیوں کو لاکر آباد کیا گیا۔ The Jewish State کتاب کو پمفلٹ کی شکل میں تقسیم کیا گیا جس کے بعد Herzlنے Birbanum اور Nordu سے مل کر پہلی صہیونی کانفرس (World Congress of Zionists)کا انعقاد 1897 میں Basel اور Switzerlandمیں کیا گیا۔ اس کانفرس میں Theodor Herzlکو World Zionist Organization کا صدر منتخب کیا گیا۔
1907 میں حکومتِ برطانیہ نے سلطنتِ عثمانیہ میں مسلمان عربوں کی آبادی بارے ایک پلان مرتب کیا۔ رپورٹ اس وقت کے برطانوی وزیراعظم Henry Cambell-Bannerman کو پیش کی گئی کہ فلسطین میں ایک Buffer State بنائی جائے۔ یہ سٹیٹ یورپ کے لیے فائدہ مند اور ہمسائیوں کے خلاف کام کرے گی جس سے مشرقِ وسطیٰ تقسیم ہو جائے گا اور برطانیہ کا غلبہ مضبوط ہوگا۔ اسی سال ایک کیماء دان Chaim Weizmann جو کہ ذائنسٹ سوسائٹی کا رہنما تھا نے پہلی بار فلسطین کا دورہ کیا اور Jaffa کے مقام پر ایک ایکڑ زمین پر کمپنی بنائی جس کی وجہ سے 60 ہزار مقامی کسانوں کویہودیوں کے لیے جگہ چھوڑنی پڑی۔
جنوری 1915 میں لبرل پارٹی کے رکن ہربرٹ سیموئیل نے ایک خفیہ دستاویز "فلسطین کا مستقبل" تیار کیا جس میں ایک خودمختار یہودی ریاست بنانے کی تجاویز دی گئیں اور پھر کابینہ سے اس کی مکمل حمایت لے لی گئی۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران Rohschild، Simiyol، Sikiss اور Wismann لندن میں 2 نومبر 1917کو بلفور ڈکلریشن کے تحت ایک یہودی ریاست کے قیام کا اعلان کیا جس کے بعد یہ اجتماع جشن میں بدل گیا۔ اسی کے تحت جنرل ایڈمنڈ ایلنبائی نے بیت المقدس پر قبضہ کر لیا۔
پہلی جنگ عظیم میں شکست کے بعد سلطنتِ عثمانیہ کے حصے بخرے کر دیے گئے اور مشرقِ وسطیٰ میں اس کے علاقوں کو Leaguage of Nation کے تحت اتحادیوں (برطانیہ اور فرانس) نے اپنے قبضے میں لے کر فلسطین کو یہودیوں کے لیے کھول دیا۔ اس قبضے کے خلاف 1936 میں فلسطینیوں نے شدید مزاحمت کی مگر برطانیہ نے اس مزاحمت کو طاقت کے ذریعے کچل دیا۔ گزشتہ 3 دہائیوں میں اسرائیل نے غربِ اردن اور مقبوضہ بیت المقدس میں بستیاں تعمیر کرکے یہودیوں کو آباد کیا ہے۔ اسی وجہ سے 1920 سے 1939کے دوران یہودیوں کی آبادی 3 ہزار سے بڑھ کر 3 لاکھ 20 ہزار کے لگ بھگ ہوگئی جو کہ فلسطینی آبادی کا 30% بنتی ہے اس طرح اب تک سات لاکھ غیر قانونی لوگ آباد کر دیے ہیں۔
باقاعدہ طور پر اسرائیلی ریاست مئی 1948 میں بنی جب David Ben Gurion نے اس کے قیام کا اعلان کیا۔ اگر ہم غزہ کی پٹی کی بات کریں تو یہ علاقہ دینا کا گنجان ترین مقام ہے جہاں صرف 41 کلومیڑ لمبے اور 10کلومیڑ چوڑے علاقے میں 20 لاکھ سے زیادہ لوگ آباد ہیں۔ اسرائیلی ریاست کے قیام کا عمل مختلف ممالک اور اداروں کے تعاون سے عمل میں لایا گیا جس میں اقوام متحدہ، امریکہ، برطانیہ، روس، فرانس وغیرہ ممالک نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ فلسطین و اسرائیل کشیدگی کو ختم کرنے کے لیے کئی دہائیوں سے مذاکرات جاری رہے مگر امریکہ اسرائیل گٹھ جوڑ کی وجہ سے ہمیشہ ناکام ہوئے حتی کہ دو ریاستی حل تجویز کیا گیا مگر اس پر کبھی بھی عمل نہ ہو پایا۔
امریکہ، بھارت، یورپی یونین اور مغربی ممالک اسرائیل کی کھل کر حمایت کرتے ہیں اور اربوں ڈالر کی فوجی، دفاعی اور اقتصادی حمایت کررہے ہیں۔ اسرائیل کی ظالمانہ پالیسیاں، نسلی امتیاز اور جبر کے اقدامات سے اختیار کرکے نسل کشی کرنے پر اتر آیا ہے جو کہ انسانیت کے خلاف جرائم ہیں جن کا عالمی برادری کو کھل کر بولنا چاہیے اور اسرائیل کو ایسے اقدامات سے روکنا ہوگا۔ عالمی قوانین کے مطابق یہ غیر انسانی اقدامات ناقابلِ برداشت اور قوانین کی کھلم کھلی خلاف ورزی ہے۔
فلسطینیوں پر یہ ظلم اس لیے کئے جا رہے ہیں کہ وہ مسلمان ہیں، اسرائیل یہودیوں کی آباد کاری اور ان کا تسلط برقرار کھنے کے فلسطینیوں کے ساتھ امتیازی سلوک اپنائے ہوئے ہے۔ ہنود و یہود کا گٹھ جوڑ مسلمانوں اور خاص کر فلسطینیوں کو صفحہِ ہستی سے مٹانے مذموم منصوبے بنا رہے ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ میں اسرائیل اور فلسطین کے درمیان خونی تنازع کو کئی دہائیاں گزر چکی ہیں مگر اس کا ابھی تک کوئی مستقل حل نظر نہیں آ رہا۔
جاری ہے۔۔