Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Raza Ali Khan
  4. Tosha Khana, Hakimo Ki Mandi Aur Sodagari Ka Muqam

Tosha Khana, Hakimo Ki Mandi Aur Sodagari Ka Muqam

توشہ خانہ، حاکموں کی منڈی اور سودا گری کا مقام

ظلمت خانہ ہے، خواہشات کے انبار کا بازار، عجب قسم کی منڈی میں نیلام عام کا لنڈا بازار، انواع و نوادرات کا ٹھکانہ، آزمودہ افراد کے اس کے بارے میں مقولہ تھے، مخالف کے لیے طرح طرح کے القابات، اکھڑ طبیعت اور غیر فطری فاضلہ کا ایک مفصل اور تفصیلی مجموعہ، توشہ خانہ حاکموں کے لیے ایک رضا طلبی ہے، ایک بشارت ہے، اور ایک نوید، سوچوں اور خواہشات کے بہتے سمندر کے متلاشیوں کی عیاشیوں کی مسکن۔

قرابت داروں سے لیکر کنبہ تک کا گوشوارہ عیاں ہو چکا، عالی جاہ تو عالی ظرف تھے۔ اس گواشورے میں، ہر ایک کی خبر گیری کرتے رہے، بے نیازی اور فراخ دلی سے فیاضانہ وار نوازتے رہے، سفر و حضر میں رفاقت یاد رکھی، سیر چشمی حسب طاقت اپنے چاہنے والوں کو نوازتے رہے، ہم چشم بھی اب انکی جدائی سے کیوں رنجیدہ غم حال ہیں۔ محفل اور رونقیں، کھابے اور خواہشیں کیوں ٹوٹ چکی ہیں یہ عیاں ہو چکا ہے۔

سیر ہو کر اس منڈی سے فیض یار ہونے والے اب پشیمان ہیں اور نہ ہی شرمندہ، سیر ہو کر آب و تاب سے اس بازار یار سے سوداگری کی، ایسے شاہکار نادر اور انمول رتن اس فہرست میں بکھرے پڑے ہیں۔ جسے منڈی نہیں توشہ خانہ کہتے ہیں، یہ حاکموں کا اعلیٰ ترین بازار ہے۔ جہاں سے من چاہی اشیاء من چاہے داموں مل سکتی ہے، یہ تو بس حاکموں کی شان بے نیازی ہے، ہم جیسے فقر و فاقہ کرنے والے کب یہاں سے مستفید ہو سکتے ہیں۔

آپ نے گزشتہ روز خبروں میں یا سرکار کی ویب سائٹ پر توشہ خانہ کی فہرست ملاحظہ کی ہوگی، یہ وہ فہرست کے جو زیادہ نہیں بس 21 سال پرانی ہے۔ اس فہرست میں پرویز مشرف سے لیکر موجودہ صدر مملکت، وزیراعظم، وزرائے حکومت، بیوروکریسی کے اعلیٰ اور صحافیوں کے نام ہیں۔ جن کو غیر ملکی دوروں کے دوران وہاں کی سرکار کی طرف سے تحفے و تحائف دئیے گئے، اس فہرست میں بحث کرنے کے لیے بے شمار نام ہیں۔

لیکن میرا ذاتی خیال ہے کہ اس پر بحث اور لکھنے کے لیے پیپلز پارٹی کے دور حکومت سے شروع کیا جائے تو زیادہ بہتر ہے حالانکہ میں ارادہ قطعاً یہ نہیں کہ فہرست پر بحث کروں میں صرف اور صرف زرائع ابلاغ کی طرف سے اٹھنے والے ناموں اور تحفے و تحائف پر بات کرونگا، آپ کو یاد ہوگا، ابھی حالیہ چند ماہ سے عمران خان کے خلاف، اس موجودہ حکومت نے گھڑی چور کا بیانیہ بنا کر عوام میں عمران خان کی مقبولیت کو کم کرنے کی کوشش کی۔

انکی خواہش تھی کہ عمران خان کو کسی طور طریقہ سے بدعنوان ثابت کر کے سیاسی کارڈ کھیلا جائے، لیکن جہاں مریم بی بی سیاست دانوں وہاں مخالف کو فوائد ہی حاصل ہوتے مریم بی بی اور انکے رفقاء کاروں نے عمران خان کے خلاف پریسرز اور اجتماعوں میں گھڑی چور کا بیانیہ تشکیل دیا، لیکن اس بیانیہ کا عوام پر کوئی اثر نہیں ہوا، الٹا عوام نے عمران خان کو سر پر چڑھا لیا اور حکومت کے تمام تر الزامات سے بری کردیا۔

جس کی وجہ سے حکومت کو بے حد پریشانی لاحق ہوگئی، حکومت نے بالخصوص مریم بی بی نے اپنی جارحانہ طبیعت کے مطابق اس بیانیہ کو مکمل طور پر ہوا دینے کے لیے مبینہ طور پر چند نامور صحافیوں سے بھی عمران خان کے خلاف الزامات اور پروگراموں میں تسلسل سے اس بیانیہ کو جاری رکھنے کی تلقین کی اور اب تک ایسا ہی ہے، اس بیانیہ کی ہوا تو خیر بہت دیر یہ نکل چکی تھی۔

لیکن اس غبارے سے ہوا تب نکلی جب لاہور ہائیکورٹ کے حکم کے مطابق توشہ خانہ کا ریکارڈ سرکاری ویب سائٹ اور پبلک کرنے کا حکم دیا گیا، ہائیکورٹ نے قیام پاکستان سے لیکر اب تک کا تمام ریکارڈ پبلک کرنے کا حکم دیا، لیکن حکومت تو پھر حکومت ہی ہوتی ہے۔ اس نے تھوڑی بہت چالاکی سے اکیس سال پرانا ریکارڈ پبلک کر دیا، اس ریکارڈ میں ایسے ایسے رتنوں کے نام گرامی ہیں۔

جن کا ریاستی کی نمائندگی سے قطع تعلق کوئی واسطہ بنتا ہی نہیں میرا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ پاکستانی نہیں میرا سیدھا سادھا سا مطلب یہ ہے کہ ریاست کہتی ہے، ریاست کا نمائندہ وہ ہوتا ہے۔ جس کو پاکستان کی عوام اپنے نمائندگی کے بذریعہ ووٹ منتخب کرتی ہے، اب آپ اندازہ کریں فہرست میں صحافی بھائی بھی ہیں اور وہ صحافی بھائی ہیں جن کی مبینہ طور پر تنخواہ لاکھوں میں ہے۔

ایسے بیوروکریٹ بھی ہیں، جن کی ماہانہ تنخواہ ایک متوسطہ طبقہ کے فرد کی ایک سال کے برابر ہے، اس تمام فہرست میں اگر مجھے کسی ایک فرد کا نام نہیں ملا تھا، تو وہ صرف پاکستان کا ایک عام شہری تھا۔ جس کا نام اس فہرست میں شامل نہیں، عام شہری سے مراد یہ ہے، وہ شخص جو اپنے نمائندگان چنتا ہے، اگر دیکھا جائے تو توشہ خانہ کے اس بازار میں جو تحفے اور بیش بہا قیمتی تحائف وزرائے اعظم سمیت وزرائے حکومت وصول کرتے ہیں۔

وہ تو ریاست کے نمائندے ہوتے ہیں اور ریاست میں سب سے پہلا حق اس کی عوام کا ہوتا ہے، عوام جس کو چاہے منتخب کرے اور جس کو چاہے دھتکار دے یہ عوام کی مرضی ہوتی ہے۔ بہرحال توشہ خانہ کی منڈی کا یہ حساب کتاب تھا یا مال مفت کا ایک بازار جہاں دل کھول کر مال کو خریدہ گیا، ہر خاص تاجر نے اس مال سے اپنا حساب لیا، توشہ خانے کے بازار میں ایک ایک چیز نیلامی کے لیے دستیاب تھی۔

مہیا کی جا رہی تھی، ہر خاص کو ہر فرد کو جو قریب تھا اور قریب تر ایسے ایسے مہا کھلاڑی بھی اس مال سے مستفید ہوئے جو خاص تھے۔ جن سے انس و محبت کا ایک طویل رشتہ تھا، مجھے تو سمجھ نہیں آ رہی کہ یہ توشہ خانے کہاں ہوتا ہے کیا، یہ بازار مجھ جیسے ایک عام فرد کے لیے بھی ہو سکتا ہے کیا یہ بازار مجھ جیسے ایک نادان اور ناسمجھ انسان کے لیے کھل سکتا میرا خیال ہے یہ بات میں نہ ہی لکھوں اور پوچھوں تو اچھا ہے۔

جبکہ ہمارے امراء کی یہ بات بہت اعلیٰ ظرف ہے کہ اس بازار سے خریداری کرنے کے لیے ہمارے حاکموں نے بھی کچھ قوانین ترتیب دئیے ہوئے ہیں یہ بات تو پکی پیٹھی ہے کہ یہ قوانین یقیناً اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیے ہوتے، اب اگر توشہ خانہ کے اس بازار کی طرف دیکھا جائے تو فی الوقت یہ کہا جا سکتا ہے، ہو سکتا ہے، فی الحال اس بازار میں خریداری کے کوئی سامنا میسر نہ ہو سننے میں آتا ہے کہ بیہ بازار اس وقت سکتا ہے۔

جب سرکار کے نمائندے سرکاری طور پر دیار غیر سے چکر لگا کر آتے ہیں، اب آپ اندازہ لگائیں کہ ایک تو مفت میں سیر سپاٹا بھی اور کوڈیوں کے بہاؤ میں قیمتی سامان بھی مل جاتا ہے، جس کو گھروں کی تزئین و آرائش سمیت اپنی سج دھج کے لیے لیا جا سکتا ہے، گھروں کی تزئین و آرائش اور آج دھج سے ایک بات یاد آگئی کہ پڑھنے کو ملا ہے کہ اس سامان میں سے بیڈ شیٹ، ڈنر سیٹ، گلدان، ڈیکوریشن پیس، اور کھانے پینے کے چمچے اور ڈونگے بھی حاصل کیے ہیں۔

ویسے بہت کمال کے سوداگر ہیں، ہمارے یہ حاکم مزے بھی خوب لیتے ہیں اور گھر کا سامان بھی سرکاری کھاتے میں کم ریٹ پر لے جاتے ہیں، حقیقت تو یہ ہے اصل جمہوری روایات، عوامی حقوق و فلاح اور انسانیت کی محبت اس چیز کا تو نام ہے، جس کو عوام نے منتخب کیا ہو اپنے مفادات کے لیے وہ کیوں نہ اپنے مفادات کو ترجیحات میں ترجیح دے۔ لیکن حیرانگی اور پریشانی کی سب سے بڑی بات یہ ہے۔

اس منڈی کے سوداگر بھی وہی ہیں، جو ایوانوں میں بیٹھے کر ٹھاٹھ باٹھ کر رہے ہیں۔ جن کے لیے رعایا کی صرف اتنی سی اہمیت کہ وہ ووٹ کی طاقت سے ان کو ایوانوں میں اس وجہ سے بھیجتے ہیں یہ لوگ ایوانوں میں بیٹھ کر عوام کی خدمت کا سوچیں گے عوام کے ٹھاٹھ باٹھ کو بہتر کرینگے، لیکن مجھے تو توشہ خانے کے بازار سے ہونے والی خریدوفروخت کو دیکھ کر اس بات کا خاص طور پر خیال آیا ہے کہ یہ بازار بھی ہم جیسوں سے کوسوں دور ہیں۔

مجھے یہ بات کہنے میں قطعاً کوئی حیرانی نہیں ہے کہ وطن کی مٹی میں ایسے ہیرے ہیں۔ جو محض اپنا خیال رکھتے ہیں، آپ اس بات سے اندازہ کر لیں کہ توشہ خانے کے بازار کی خریدوفروخت کرنے والے تاجروں اور سوداگروں کے نام جب سامنے آئے تو ان میں سرکار کے منظور نظر ملازم اور صحافی بھی تھے۔ اب آپ اندازہ کریں کہ صحافی بھی اور وہ صحافی جو اخلاقیات کا درس دیتے ہیں۔

عوام کو رواداری کا سبق پڑھاتے ہیں کہ عوام انکی بات سنے اب جب توشہ خانے کے بازار میں سب کا نام و نشان واضع ہوگیا ہے تو ہم کیا کر سکتے ہیں، میں تو صرف اتنا ہی کہہ سکتا ہوں کہ یہ چند سو افراد کا بازار ہے۔ جو ہر پانچ سال بعد اپنا ٹھیکہ کسی دوسرے کو دے دیتا ہے

Check Also

Akbar The Great Mogul

By Rauf Klasra