Thursday, 16 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Raza Ali Khan/
  4. Sawal o Jawab To Honge

Sawal o Jawab To Honge

سوال و جواب تو ہونگے

اعمال قلب اور قلبی اعمال "خصلت" کی پہچان ہوتے ہیں، عالم گیری کے حصول کیلئے "محکوموں" کے درمیان رہنا پڑتا ہے، رہنماؤں کے نظریات نظر انداز کر دئیے جائیں تو عقب میں"تسلی اور تشفی" کا بھی خاتمہ ہو جاتا ہے، اخلاق فاضلہ وقت پر منحصر ہوتے ہیں، یہ نہ کبھی "جودوسخا" اور نہ ہی "استغنا"، یہ عاجز و خاکسار کے لفظوں سے "آشناء" تھے لیکن محکوموں کے "خزینہ دار" تھے۔

اپنی سوانح حیات میں کیا تحریر کرنا چاہتے ہیں یہ بات ہماری یادوں کے دریچوں میں موجود ہے، فقط ایک ہی شوق ہے جمہور پر اپنی حاکمیت کو قائم و دائم رکھنا، ہر آن، ہر لمحہ یہی قلبی کیفیت طاری رہی ہے دل و دماغ پر، نشیب و فراز تو "حیات کامل" کا اہم جز ہوتے ہیں، فرماں برداروں کا ایک گروہ ہے جو مطیع اور تکمیل فرمان کیلئے "سرگرداں" ہے، اب انہی پر انحصار ہے، ایک مدت سے "منادی" ہو رہی ہے، عالی مرتبت کی تشریف آوری کی، جب بھی واپسی کی "خبر گیری" ہوتی ہے ملک و ملت کی رعایا پر سکوت اور "سناٹا"چھا جاتا ہے۔

وقت کی نوعیت تبدیل ہو رہی ہے، برس ہا برس سے جس کا انتظار تھا میرے "عالی مرتبت" حاکم ملک و ملت کی خاطر واپس آ رہے ہیں، یہ چہ مگوئیاں ہیں یا اشارے کچھ سمجھ نہیں آ رہا ہے، وہ واپس آ رہے ہیں، "بہارو پھول برساؤ میرا محبوب آ رہا ہے" یہ گانا یاد آ جاتا ہے، میرے لیے یہ لمحہ خوشخبری اور مسرتوں سے "مزین" ہوگا جب عالی مرتبت اپنے دیار غیر کو "خیر آباد" کہہ کر کے حقیقی طور پر ملک میں واپس آئیں گے، سوہنی دھرتی پر میرے عالی مرتبت حاکم قدم جمائیں گے، جوش و جذبات سے لبریز متوالے شادیانے بجا کر میرے محترم اور معزز عالی مرتبت قائد کا فقید المثال استقبال کرینگے۔

یہ بات ابھی طے ہونا باقی ہے، "چشم تصور" میں جائیں تو یہ لمحہ عجیب و غریب کیفیات کے درمیان گھمسان کی جنگ کی طرح لگتا ہے، بہرحال میرے عالی مرتبت جب بھی آئینگے سوال و جواب کی ایک بھرپور فہرست تو ہر صورت میں ہوگی، عوام کی طرف سے سوال ہونگے اور میرے عالی مرتبت ان کے جوابات دینگے، وہ کیا لمحہ ہوگا جب دل کی دھڑکنیں"دھک دھک" کر رہی ہونگی اور میرے قائد چبتے اور تلخ سوالات کے جواب دینگے۔

مجھے اچھی طرح یاد ہے جب عالی مرتبت میاں محمد نواز شریف اپنے علاج کیلئے برطانیہ گئے تھے تو میں نے ایک کالم "ڈٹ جانا کسے کہتے ہیں؟" لکھا تھا اور اللہ پاک کے فضل و کرم سے میرے اس کالم کے بیشتر الفاظ درست ثابت ہوئے۔ اب صورتحال میاں عالی مرتبت کیلئے پہلے سے بھی گھمبیر ہو چکی ہے بلاشہ میاں صاحب کے چھوٹے بھائی وقت کے حاکم ہیں وفاق کے طول و عرض میں ان کی حاکمیت قائم و دائم ہے بلاشبہ و 27 کلومیٹر کے وسیع و عریض رقبہ میں کھل کر حاکمیت جتا رہے ہیں اور جوش و جذبات سے کر بھی رہے ہیں۔

اب جب میاں صاحب میرے عالی مرتبت قائد ایک طویل مدت کے بعد جب پاکستان پہنچیں گے تو وہ پنجاب جانا پسند نہیں کرینگے، وہ کے پی کے میں بھی رہنا پسند نہیں کرینگے، یہ خود داری کی بات ہے کہ وہاں کیوں رہا جائے جہاں حزب اختلاف کی حاکمیت ہو، وہ سندھ دھرتی میں بھی نہیں جائیں گے وہ بلوچستان کی مہمان نوازی کو بھی قبول نہیں کرینگے، وہ صرف وفاق کی پرفضاء فضاء میں پہنچ کر اپنی واپسی کا دلیری سے اعلان کرینگے۔

میرے عالی مرتبت میاں صاحب کی واپسی کی منادی ہو رہی ہے ڈھول بھی پیٹے جا رہے ہیں کہ وہ جنوری کے اوائل یا وسط میں واپس آ رہے ہیں، بہرحال جب بھی واپس آئیں ان کو خوش آمدید کہنا چاہیے۔ اب سوال یہ بنتا ہے کہ میاں عالی مرتبت واپس کیوں آ رہے ہیں، کیا میاں عالی مرتبت کی واپسی الیکشن سے مشروط ہے؟ ایسا نہیں ہونا چاہیے 3 سال سے میاں صاحب نے اپنی واپسی کو علاج سے مشروط رکھا ہے اور اب جب علاج مکمل نہیں ہو سکا تو واپسی کی نوعیت کیا ہے، آیا جنوری میں علاج مکمل ہو چکا ہوگا؟

میاں صاحب 22 کروڑ عوام کو کس بیانیہ پر مطمئن کرینگے، "ووٹ کو عزت دو" کا بیانیہ کیا سابقہ الیکشنوں کی طرح اس الیکشن میں بھی بولا جائے گا؟ کیا میاں صاحب اپنی واپسی پر قوم کو اعتماد میں لے سکیں گے حالانکہ وہ تو 3 سال سے برطانیہ میں علاج کیلئے موجود تھے؟ کیا میاں صاحب علاج کے دوران یورپی ممالک کی سیر و تفریح کے حوالہ سے عوام کو بتائیں گے؟ میاں کس طرح بیان کرینگے کہ واقعی ہی انکا اعلاج برطانیہ میں ہوا ہے؟

میاں صاحب اپنی تین سالہ خود ساختہ جلا وطنی کو کن وجوہات کا نام دینگے؟ میری نظر میں میاں صاحب کی واپسی پر یہ وہ سوالات ہیں جن کے جوابات میاں صاحب کو دینے ہونگے، لیکن ایسا ممکن ہوتا دکھائی نہیں دے رہا ہے کوئی ایسا بیانیہ تشکیل دیا جائے گا جس میں عمران خان کے بیانیہ کو جھوٹا بنا کر پیش کیا جائے گا لیکن عوام اب ایسے حیلے بہانوں کی عادی ہو چکی ہے وہ ان کی بات کو تسلیم نہیں کریگی۔

ہاں یہ بات ضرور ہے کہ میرے عالی مرتبت قائد یہ بات کہہ دینگے کہ وہ اپنی سیاست بچانے کیلئے پاکستان واپس آئے ہیں کیونکہ اندازہ یہی ہے کہ اس پی ڈی ایم اتحاد سے عمران خان کی مقبولیت سنبھالی نہیں جا رہی مسلم لیگ نون جو پنجاب کی سب سے بڑی پارٹی تصور کی جاتی رہی ہے اور رہی بھی ہے اب یہ چند حلقوں کی جماعت بنتی جا رہی ہے جس کا خمیازہ آئندہ مسلم لیگ کی قیادت کو بھگتنا پڑے گا۔

اس وقت حکومت کیلئے سب سے بڑا مسئلہ ہی عمران خان ہے، حکومت چاہتی ہے کہ کسی نہ کسی طرح عمران خان کی مقبولیت کو بریک لگائی جائے اور کچھ ایسے کارڈ کھیلے جائیں جس سے عمران خان کے بیانیہ کو دھچکا لگے حالانکہ یہ حکومت جو 13 اتحادیوں پر مشتمل ہے عمران خان سے نمبرآزما ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان پی ڈی ایم کی جماعتوں نے عمران کے خلاف تو ہر حربہ استعمال کیا اور یہی کوشش رہی کہ کسی نہ کسی طرح عمران خان کو یا تو گرفتار کیا جائے یا پھر ایسے کیس بنائے جائیں جس کے ذریعے عمران خان کے کرپشن کے بیانیہ کو عوام مسترد کر سکے۔

اب جب اس حکومت نے تمام حربے استعمال کر کے دیکھ لیے تو ان کو یقین ہوگیا کہ عمران خان کے خلاف جو بھی طریقہ کار استعمال کرینگے وہ ہماری ناکامی کی صورت میں سامنے آئیگا اور یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ ن اپنی ساکھ اور سیاست کو بچانے کے لیے میرے عالی مرتبت قائد کو برطانیہ سے پاکستان بلا رہی ہے، یہ وہ رسم ادا کرنے جا رہے ہیں جو شائد یہ سمجھ رہے ہیں کہ وہ اس میں کامیاب ہو جائینگے۔

میاں صاحب یہ کمال بھی کر کے دیکھ لیں میاں صاحب کو سب سے پہلے تو اپنی وضاحت عوام کو دینا ہوگی اور کیا میاں صاحب یہ بات عوام کو سمجھا سکیں گے اور قائل کر سکیں گے کہ وہ واقعی ہی بیمار تھے، شائد اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ مسلم لیگ ن پاکستان کی عوام کو بھولا بھالا تصور کرتی ہے اس کا خیال ہے کہ اس بھولی بھالی عوام کو جو بیان کر دیا جائے وہ یہ حق مان لیتی ہے۔

لیکن شائد اب صورتحال بہت گھمبیر یعنی بہت ہی گھمبیر بن چکی ہے کہ میاں صاحب کی واپسی کو الیکشن سے تشبیہ تو کیا جا رہا ہے لیکن یہ بات آپ ذہن نشین کر لیں کہ پاکستان کی عوام اب جھانسوں سے نکل چکی ہے وہ اب اس بات کی قائل ہو چکی ہے کہ جو ہمارے درمیان موجود رہے گا وہی ہمارا لیڈر اور رہنماء ہوگا جبکہ برعکس اس کے میاں صاحب بیماری کے بہانے تین سال تک برطانیہ میں غیر ضروری طور پر مقیم رہے۔

اگر وہ عدالتی کارروائی اور احکامات کا پاس رکھتے اور واپس آ جاتے تو آج مسلم لیگ ن کی پوزیشن بہت حد تک کلیر ہو چکی ہوتی لیکن میاں صاحب نے بیرون ملک میں بیٹھ کر گیم پلان کا حصہ بننا پسند کیا لیکن آج صورتحال گیم پلان سے باہر ہو چکی ہے، میاں صاحب جگ جگ واپس آئیں ہمارے نعرے بھی لگائیں گے اور شادیانے بھی بجائیں گے۔

میاں صاحب ضرور واپس آئیں لیکن میاں صاحب یہ امید اور سوچ رکھ کر واپس نہ آئیں کہ میاں عالی مرتبت سے اس دفعہ کوئی سوال و جواب نہیں ہوگا بلکہ پاکستان کی عوام اپنے تین دفعہ کے سابقہ وزیراعظم سے یہ سوال پوچھنا چاہتی ہے کہ وہ اس قوم کو بتائیں کہ وہ کیوں اور کس غرض سے برطانیہ میں اتنا عرصہ مقیم رہے حالانکہ اب تو وفاق میں گزشتہ 8 ماہ سے ان کے بھائی کی حکومت ہے، سندھ اور بلوچستان میں ان شراکت داروں کی حکومت ہے آخر کیا وجہ تھی کہ وہ ان حالیہ مہینوں میں بھی پاکستان نہیں آ سکے۔

میرے عالی مرتبت میاں صاحب سے یہ سوال بھی پوچھا جائے گا کہ کیا آپ نے تمام تر حربے اور بہانے اپنی سیاست کو بچانے کیلئے کیے، آیا کیا آپ نے اس ملک و ملت کی 22 کروڑ عوام سے جھوٹ بولا میاں صاحب کے قول و فعل میں اگر تضاد ہے اور تھا تو انہوں نے اس معصوم کو تین سال تک کس بات پر بیوقوف بنائے رکھا، اگر وہ واقعی ہی بیمار تھے تو ان کا علاج کہاں ہوا، کون سے ہسپتال میں میاں صاحب داخل ہوئے۔

میاں صاحب یہ تلخ سوالات تو ضرور ہیں لیکن اس کے جوابات تو آپ کو دینے ہونگے چاہے وہ آپ برطانیہ میں بیٹھ کر دیں یا پاکستان میں واپس آ کر، کیونکہ پاکستان تو آپ کا دوسرا گھر ہے آپ اپنے گھر تشریف لائیں ہم آپ کی مشکل میں آپ کے ساتھ تھے تو جب پاکستان کی عوام کو مشکل پیش تھی تو آپ اپنی سیاست کو بچانے کے لیے آ رہے ہیں۔

آخر میں آپ کو ایک بات بتاتا چلوں، میاں صاحب کی واپسی محض ایک سیاسی موضوع ہوگی کیونکہ اس وقت عمران خان نے جو سیاست ان 13 جماعتوں کو سکھا دی ہے اس کا سبق ان جماعتوں کو یاد نہیں ہو رہا ہے اور یہی وجہ ہے کہ عمران خان کو زیر کرنا اب ان کے لیے ناممکن بنتا جا رہا ہے، میاں صاحب کی واپسی کی صورت میں اگر مسلم لیگ ن یہ سمجھ رہی ہے کہ وہ میاں صاحب کی واپسی کے ساتھ بڑی آسانی سے عمران خان کو زیر کر لیں گے اور اس کے بیانیہ کو ٹھیس پہنچائیں گے تو یہ ایک سوہنا خواب تو ہو سکتا ہے لیکن مستقبل کی نوید نہیں۔

Check Also

Heera Mandi

By Sanober Nazir