Maryam Nawaz Aur Punjab Ka Mahaaz
مریم نواز اور پنجاب کا محاذ
واویلا اور "ادھم" مچانے سے کیا حاصل وصول ہوگا، سیاست میں"رواداری" اور اخلاقیات کا درس سمایا ہوتا ہے، جمہوریت میں تصور اور "اہلیت" عوام کی خواہشات کا "متن" ہوتا، ضمیروں کے بہکاوے اور ذہنوں کی "خلیج" کو ختم کرنا چاہیے، حق و سچ کے "سخن" کو اپنانا ہوگا، قول وعمل سے عوام اور مخالفین کی مخالفتوں کو رام کرنا ہوگا، اقتدارِ اعلیٰ ہر فائز ہونا کے لیے طویل ترین "جہد مسلسل" کی ہے تو اس پر "جہد" میں" سیاست کے رہنماء "اصولوں" کو اپنی "آغوش" میں"سمانا"کے لیے اپنا کردار، کمال اور بصیرت میں"جابرانہ" سوچ کو اختتام کی جانب گامزن کرنا ہی رواداری کی اعلیٰ مثال ہے، سیاست کے اس "طلسماتی" کھیل میں میں جمہوری رویے کو پروان چڑھا کر ہی آپ اقتدار کی "مسند" پر بیٹھے ہوئے جچتے ہیں۔
موجودہ دو سال کی سیاست میں جو دیکھا ہے وہ عجب قسم کی سیاست ہے، پنجاب اسمبلی اجلاس میں جو ہوا وہ دو سال قبل کی تصویر کشی تھی، جس میں ایک کہرام مچا ہوا تھا، نفرت اور حقارت کا اظہار کیا جا رہا تھا، نعرے بازی اور ہلڑ بازی ہو رہی تھی، خیر قوم کے شعور کی داد بھی دینی چاہیے جو جمہوریت کو زندہ رکھنے کے لیے اپنا حق بخوبی ادا کر رہی ہے، یہی اصل جمہوریت ہے جہاں جمہور کی خواہشات کا احترام کیا جائے اور جمہور کی منشاء ہر سر تسلیم خم کیا جائے۔
بات یہاں پر اگر اختتام پذیر ہوتی تو کر دی جاتی مگر یہاں صورتحال ہر گزرتے دن کے ساتھ گھمبیر ہوتی چلی جا رہی ہے، سیاست میں اختلاف رائے اس قدر بڑھ چکا ہے کہ مخالفین میں چاہے کوئی حزب اقتدار میں ہو یا حزب اختلاف میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت کا اظہار کر رہے ہیں، ان میں سیاسی سکت اور ذہانت کا انتقال ہوتا ہوا محسوس ہو رہا ہے۔ سیاسی شعور مکمل طور ختم ہو چکا ہے، آپ اندازہ کریں کہ پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں جس طرح کا غل غپاڑہ ہوا کیا اس کو سیاست کہا جا سکتا اگر ان چیزوں پر سیاست کو استوار کرنا ہے تو پھر مسلم لیگ نون اور سنی اتحاد کونسل کے اراکین کو میدان جنگ میں ہونا چاہیے۔
یہ وہ لوگ ہیں جو عوامی مینڈیٹ لیکر اقتدار میں آئے ہیں حالانکہ مجھ سمیت ہر کسی کو اس بات پر شدید اعتراض ہے کہ تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدواران کو ایک بڑی دھاندلی کے ذریعے اقتدار سے دور رکھا گیا لیکن اس کے الگ سے فورم موجود ہیں جو ان چیزوں کا فیصلہ کر سکتے ہیں اور ان فورم کو جلد از جلد فیصلہ کرنا بھی چاہیے۔ اس سے قطع نظر دوسری طرف یہ دونوں سیاسی قوتیں نفرتوں میں عوام کے دلوں میں زہر گول رہی ہیں، ہمیں اس بات کا ادراک نہیں ہے کہ اس وقت ملک کو شدید ترین بحرانوں کا سامنا ہے۔
افواج پاکستان کے فوجی جوان دہشت گردوں کا مقابلہ کر رہے ہیں، معیشت کی حالت تباہ کن ہوتی جا رہی ہے، ملک کو ڈیفالٹ کا خطرہ ایک شیش ناگ کی طرح پھن پھیلائے سروں پر کھڑا ہے، ہمیں اس وقت فکر ہے تو صرف اور صرف اپنی سیاست کی، ہم سیاست میں رواداری کا قتل عام کر رہے ہیں، جو کہ نہیں ہونا چاہیے عوامی کی خواہشات اور انکی ترقی کا سوچنا چاہیے کیونکہ جب تک ہمارا غریب اور متوسط طبقہ اس صف میں کھڑا نہیں ہوگا جہاں ہماری خواہشات ہیں تو ہمارا ملک ترقی نہیں کر سکتا، لیکن ہم نفرتوں کی سیاست کو ختم ہی نہیں کر رہے ہے۔
اس وقت سب سے پہلے پہل مسلم لیگ نون کے قائد میاں نواز شریف اور میاں محمد شہباز شریف کو کرنی چاہیے اور ساتھ میں مریم نواز صاحبہ کو اپنے روئیے سے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ ملک کی بقاء اور قوم کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کرینگی، میری نظر میں اس وقت مریم نواز صاحبہ جو وزیر اعلی پنجاب بن چکی ہیں انکو اپنی مخالف جماعت سنی اتحاد کونسل کے حوالہ سے نرم رویہ اختیار کرنا چاہیے۔ پکڑ دھکڑ کی سیاست کرنے کی بجائے ان سب کو ایوان میں اکھٹا کرکے سیاست میں رواداری کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھنا ہوگا، بلاشبہ نو مئی کا واقعی قابل مذمت کی میں اس میں ملوث ہر کردار قوم کے لیے باعث شرم بھی ہے، اس کے باوجود رانا آفتاب اقبال جو اس وقت مریم نواز کے مدمقابل امیدوار وزیراعلی پنجاب کے امیدوار تھے انکو اسمبلی فلور میں بٹھا کر سیاست کریں اور اپنے مخالف کو اپنا دشمن خیال نہ کریں وہ اس وقت پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کی چیف ایگزیکٹو کی حیثیت سے منتخب ہوئی ہیں۔
پاکستان کی ساٹھ فیصد آبادی والے صوبے کی چیف ایگزیکٹو ہیں تو انکا سیاسی رویہ بھی شائستہ اور تحمل والا ہونا چاہیے حزب اختلاف کی کڑوی باتوں کو سر آنکھوں پر اٹھانا ہوگا اور اپنے ارد گرد ایسے لوگوں کو رکھنا ہوگا جو مفاہمت کا بیانیہ اپنا سکیں۔ اس وقت صورتحال بہت ہی مختلف ہے کیونکہ پنجاب میں ایک سخت گیر بیانیے والی سیاسی جماعت ان کے مدمقابل اپوزیشن کا کردار ادا کر رہی ہوگی اور اگر مسلم لیگ نون بالخصوص مریم نواز اپنا جارحانہ سیاسی اور سخت رویہ اپنائے رکھیں گی تو انکو پنجاب میں شدید مشکلات درپیش ہو سکتی ہیں۔
جس طرح حلف برادری اور وزیراعلیٰ کے انتخاب کے روز بھاری بھرکم پولیس کو اسمبلی کے باہر تعینات کیا گیا تھا اگر یہ صورتحال رہی تو مسلم لیگ نون اپنی سیاسی ساکھ کو داؤ پر لگا لے گی اور انکے ارد گرد موجود لوگ بجائے آگ کو ٹھنڈا کریں وہ اس کو ہوا دینگے جس سے عوام کے اندر مسلم لیگ نون کے حوالہ سے خدشات مزید بڑھ جائیں گے۔
اس کے علاوہ اس وقت مسلم لیگ نون کو حالیہ الیکشن جو دھچکا لگا ہے۔ وہ مسلم لیگ نون کی عوام میں کم نہیں بلکہ گرتی ہوئی مقبولیت ہے لاہور جیسے ایک بڑے شہر میں جو کسی دور میں مسلم لیگ نون کا گڑھ ہوتا اس شہر میں مسلم لیگ نون کو اپنی مقبولیت قائم رکھنے میں جان جوکھوں میں ڈالنا پڑی میاں محمد نواز شریف، شہباز شریف، مریم نواز اور حمزہ شہباز سمیت بہت سے بڑے نام چند ہزار ووٹوں کے فرق سے کامیابی حاصل کر سکے، اس لیے اس وقت میری نظر میں مریم نواز کو مسلم لیگ نون کی کھوئی ہوئی مقبولیت کو بحال کرنا ہوگا۔
مریم نواز کی یہ سیاسی انگیز بلاشبہ انکی پہلی سیاسی اننگز ہے جس میں انکو بے شمار مسائل کا سامنا ہے، مریم نواز کو بحیثیت وزیراعلیٰ پنجاب اپنے سابقہ رویہ میں نظر ثانی کرنا ہوگی وہ لوگوں کے دلوں میں جگہ بنانے کے لیے کمال خوبصورتی اور سیاسی بصیرت سے رواداری کی سیاست کو قائم کرنا ہوگا، اگر وہ پنجاب پولیس کو سیاسی مقاصد اور پکڑ دھکڑ کے لیے استعمال کرینگی تو صورتحال آنے والے وقتوں میں انکے لیے بھیانک نتائج کی منتظر ہوگی۔ اس لیے مریم نواز کو سوچنا ہوگا کہ وہ اس وقت جس سیاسی صورتحال کے درمیان گھڑی ہوئی ہیں اس میں وہ وقت نہیں ہے جو وقت میاں شہباز شریف کو میاں محمد نواز شریف کی وجہ سے مہیا تھا۔ کیونکہ وفاق جہاں انکے بڑے بھائی میاں محمد نواز شریف واضع مینڈیٹ کے ساتھ اقتدار میں موجود تھے لیکن اس وقت سیاسی صورتحال یکسر مختلف ہے۔
اس موجودہ سیاسی دور میں وفاق میں میاں محمد شہباز شریف اتحادیوں کے گھن چکر میں پھنسے ہونگے اور انکی فرمائشوں اور ملک میں جاری ملکی معیشت کی بحالی سمیت مہنگائی جیسے بڑے طوفان کو تھامنے کی کوششوں میں مصروف ہونگے، اس لیے حالات کا تقاضہ یہی ہے کہ مریم نواز سیاسی بصیرت اور مدبرانہ سیاسی سوچ کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے سیاست میں حصہ لیں۔
بلاشبہ مجھے اس بات سے شدید ترین اختلاف ہے کہ مسلم لیگ نون کے کرتا دھرتا اپنے خاندان سے باہر نہیں نکل رہے اور اپنے اردگرد موجود لوگوں کو بڑے عہدے دینے سے قاصر ہیں لیکن اس کے باوجود میں اس بات کو خوش آئند تصور کرتا ہوں کہ پاکستان کی ساٹھ فیصد آبادی والے صوبے کی چیف ایگزیکٹو اس وقت ایک خاتون ہے اور اس سیاسی خاتون کو اپنی سابقہ سیاست کو ایک بریک لگا کر ایک میچور اور باصلاحیت خاتون ثابت کرنے کے لیے اپنے اندر رواداری کی سیاست کو قائم کرنا ہوگا۔