Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Raza Ali Khan
  4. Jamhuriat Ik Raah e Rasam

Jamhuriat Ik Raah e Rasam

جمہوریت اک راہ رسم

اخلاقیات اور اقدار کا دور دورہ ایوانوں کی سرزمینوں میں ہلچل برپا کر رہا ہے، یہاں کے مقیم تدبیریں اور تعبیریں بیان کر رہے ہیں، محفل میں اقدار اور شیریں زبانی نے ایوان کو زعفران بنا دیا گیا ہے، اس رونق افروز محفل کا آجکل رنگ ہی نرالا ہے، ایوان کا تقدس جمہوریت اور جمہور کی منشاء خیال کرکے عجیب راہ رسم بیان ہو رہی ہے، حاکم حاکمیت کے زلف کے اسیر بن کر یک سطری میں جمہوریت، اخلاقیات اور اقدار کا اظہار کچھ ایسے انداز میں بیان کر رہے ہیں جیسے اقدار کے تحفظ اور اخلاقیات کے میدان میں یہ رستم ہیں اور جمہوریت کے پاسبانوں میں یہ لوگ غازی ہیں۔

بس درس و تدریس کا عمل ایوانوں کے زینے پر چنچل اور شوخ میں اچھل کود کر رہا ہے، ایوانوں کی زریں محل میں بیٹھے ہوئے تخت و تاج کے حاکم عوام کو سکھا رہے ہیں، ایوانوں کی محفل میں ایسا سرور چھلک رہا ہے کہ اقدار کی پاسداری کا پرچم تھرتھر لہرا رہا ہے، اقتدار کے محافظ دور حاضر کے سقراط بن کر اخلاقیات کو اپنا محور بنانے کے لیے ببانگ دہل اس کا محاصرہ کر رہے، ایک سے بڑھ کر ایک ایوان کے رہنماء، ایوان کے اصولوں اور قاعدوں اور نظریات کا پرچار کرکے عوام کے سینے چھلنی کرنا چاہتے ہیں، اخلاقیات کا علم انکے لہجوں میں جھلکتی ہوئی ترش زبانی سے ملاحظہ ہوتا ہے، لہجوں کی تھرتھراہٹ اور تھراتھرتے ہوئے عوام بےحسی اور بے زباں قطعاً نہیں ہیں، انکی اخلاقیات اور جمہوریت کی سبق آموز اور دل فریب آدائیں دلفریب حسیناؤں کی چالیں ہیں، جو عاشق کا جنازہ خود نکال کر عاشق کو اپنی زلف کا آسیر بنانا چاہتی ہے۔

مجھے ایوان میں ہونی والی آجکل کی تقریروں پر کچھ زیادہ ہی حیرت ہو رہی ہے۔ حیرت کا عالم یہ ہے کہ میں خود حیران ہوں کہ یہ ایک طرف جمہوریت کی دلہن کو سج پر بیٹھا کر اس کے دلفریب حسن سے اپنی محتاجی اور عاشقی سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور دوسری طرف اس جمہوریت کو زندہ درگور بھی کر دیتے ہیں۔ ویسے یہ جمہوریت بھی کمال کی چیز ہے، ہمارے ہاں اس جمہوریت پر ایک مفصل اور الف لیلوی داستان لکھی جا سکتی ہے جو نہ ختم ہو اور نہ ہماری جمہوریت کے کھیل کا یہ میدان سنسان ہو۔

آپ اندازہ کریں اور آپ کو تعجب بھی محسوس ہوگا کہ ہماری سیاست کے پردہ میں کیا ہو رہا ہے۔ اسکو چاک کریں تو نفرت اور حقارت سمیت جمہوریت کے قصیدے اور ایوان میں بیٹھے ہوئے حاکمین وقت ایک دوسرے کو نصیحتیں کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ طرز سیاست اپنایا گیا ہے جو کسی وقت میں محترمہ بےنظیر بھٹو کی اپوزیشن کے لیے تھا۔ ہمیں سمجھنے اور سوچنے کی ضرورت نہیں ہم سب کو چاہیے کہ وہ وقت اور حالات دیکھ لیں ماضی کے سیاہ کارنامے ہمارے سامنے سر تسلیم خم کرکے کھڑے ہو جائیں گے۔

بعض اوقات ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہم کسی عجیب سیارے کی مخلوق ہیں اور ہم ایسے لوگوں کے گرداب میں پھنس چکے ہیں، جہاں سے ہم خود ہی نکل سکتے ہیں کوئی دوسرا ہمیں ان سے نکالنے کی کوشش نہیں کرئے گا۔ ابھی حالیہ دنوں کی ایوان بالا اور زریں میں جو اشرف المخلوقات موجود ہیں انکی تقاریر سن کر کانوں کو ہاتھ غیر دانستگی میں پہنچ جاتے ہیں۔

آپ اندازہ کریں جمہوریت کے روح رواں بلاول بھٹو زرداری جن کے نانا شہید اور والدہ محترمہ بینظیر بھٹو شہید نے جمہوریت کی آبیاری اور اسکی بحالی کے لیے اپنی جانوں کی قربانی دے دی انکے نام اور نشان پر ووٹ مانگے گے اور حکومتیں قائم کی گئیں۔ آجکل انکے نواسے اور فرزند ارجمند بلاول بھٹو زرداری کا طرز عمل ایوان کے اندر جس طرح کا ہو رہا ہے وہ حیرت انگیز ہے، مجھے سب سے زیادہ حیرت انگیز بات یہ لگی ہے کہ محترم بلاول بھٹو زرداری کی وکلاء کی ٹیم سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں کے حصول کے لیے الیکشن کمیشن پہنچ گے۔

مجھے اس بات کا تعجب اور حیرت نہیں کہ انکے ساتھ مسلم لیگ نون، ایم کیو ایم اور ق لیگ بھی شامل تھی، کیونکہ ان سیاسی قوتوں کا جیسا طرز سیاست ہے وہ میرے جیسا کم عقل برس ہا برس سے دیکھ رہا ہے، مجھے تعجب صرف پیپلز پارٹی پر ہے۔ جس طرح انکی سیاسی جماعت نے جمہوری روایات کے بر خلاف جاکر وہ سیٹیں مانگی جو اخلاقی طور انکا حق ہی نہیں تھا۔ انکی اس سیاسی غلطی کو پاکستان کی عوام ہمیشہ یاد رکھے گی دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ اگر یہ الیکشن کمیشن نہ جاتے تو اچھا تھا، کیونکہ انہوں نے جاکر خود ان سیٹوں کا تقاضہ کیا تھا اور الیکشن کمیشن سے مانگی تھی جبکہ دوسری طرف دیکھا جائے تو یہ سیٹیں انکو خود بخود الیکشن کمیشن نے تقسیم کر دینی تھی، کیونکہ آجکل الیکشن کمیشن انکے مکمل تابعدار ہے۔

اگر ان سیٹوں کے حوالہ سی قانونی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو وہ سیٹیں اخلاقی، جمہوری روایات اور سوچ کے مطابق یہ تمام سیٹیں کسی دوسری جماعت کا حق ہی نہیں تھا۔ بہرحال ان کے پاس حکومت ہے وہ چاہتے تو پہلی قانون سازی اس بات پر کرکے یہ سیٹیں حاصل کر سکتے تھے۔ لیکن انہوں نے جمہوریت اور سیاسی مفادات کے حصول کا تعین کرنا تھا اور جمہوریت اور اخلاقیات کی جگہ پر مفادات کو ترجیح دینا تھا۔

آپ یقین کریں میں پیپلز پارٹی کو پاکستان کی سب سے بہترین سیاسی قوت اس لیے خیال کرتا تھا کہ یہ جماعت جمہوریت اور اخلاقیات کی پاسبان جماعت ہے۔ جس نے ہمیشہ جمہوریت کے رہنماء اصولوں کو اپنایا اور اس پر عمل بھی کیا اور اپنے سیاسی اور جمہوری بیانیہ پر ہمیشہ فخر کیا ہے لیکن موجود سیاسی غلطی سے انکے کردار پر کچھ چھینٹے لگ گے ہیں جن کو اتارنا یا صاف کرنا اب بلاول کے لیے بے سود اور بے ثمر ہوگا، اس کے ساتھ یہ بات بھی آپ دیکھ لیں کہ بلاول بھٹو زرداری اور ایوان میں موجود انکے ہمنوا جمہوریت کے لیے لب کشی اس انداز سے کرتے ہیں جیسے جمہوریت انکے بغیر ادھوری اور سیاست انکے بغیر مایوس ہے۔

جمہوریت میں بلاشبہ اپوزیشن کو رام کرنا پڑتا ہے انکے ترش اور تیکھے سوالات کو صبر و تحمل سے برداشت کرنا پڑتا ہیں لیکن ایوان میں ایک طرف بلاول اپوزیشن کو تڑیاں لگا رہے جبکہ دوسری خواجہ آصف اپوزیشن کے حوالہ سے غیر ضروری باتیں کر رہے ہیں، یہ بات بھی یہاں قابل تحریر ہے کہ مجھے خواجہ آصف کی تقریر پر بھی اچنبہ نہیں ہوا وہ تقریر کا فن اور ہنر جانتے ہیں وہ اپوزیشن کی زبان کا جواب بخوبی دیتے ہیں انکی تقاریر پر کوئی خاص توجہ نہیں دیتا لیکن پیپلز پارٹی کی طرف سے جس طرح جمہوریت پر لیکچر دیا جاتا ہے تو دوسری طرف اس انداز کے برعکس جمہوریت کے رہنماء اصولوں کے خلاف جاکر سنی اتحاد کونسل کی خواتین کی نشستوں پر اپنی خواتین کو منتخب کیا جاتا ہے۔

ایسی جمہوریت اور اخلاقیات سے پاکستان کے عوام کو کیا فوائد حاصل ہونگے اور ان اخلاقی صفات اور اقدار کو کس طرح پاکستان کے عوام تسلیم کرینگے کہ ایوان میں بیٹھی ہوئی سیاسی قوتیں حقیقت میں اخلاقی روایات کی پاسداری کر رہی ہیں۔ مجھے تو ایسا نہیں لگتا مجھے تو جمہوریت سیاسی قوتوں کی اک ایسی رسم لگتی ہے۔

Check Also

Phone Hamare Janaze Nigal Gaye

By Azhar Hussain Bhatti