Tuesday, 22 October 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Raza Ali Khan
  4. Hatak e Izzat Ke Baad PECA Act Tarmimi Bill

Hatak e Izzat Ke Baad PECA Act Tarmimi Bill

ہتک عزت کے بعد پیکا ایکٹ ترامیمی بل

طویل مسافت طے کرنے باوجود بھی ہم پیچھے اور دائیں بائیں دیکھ رہے ہیں، اقدار کی روایات کے دعویدار ہیں، سیاست میں ہماری ترجیحات کمزور ہوتی جا رہی ہیں، خواہشات کا انبار اپنے ذہنوں میں اکھٹا کر چکے ہیں طلاطم خیز موجوں کی مانند ہم ہر طوفان سے ٹکر لے کر اپنی طاقت کا اظہار کرنا چاہتے ہیں، حاکمین وقت کے پہلو میں بیٹھنے والے آج ماتم کنائی کا راگ الاپ رہے ہیں، انکی خواہشات اور تمناؤں کی اسیری میں جھکڑے ہوئے محبوب آج فقط خاموش اور چپ سادھ کر وہ دیکھ رہے ہیں جس پر ماضی میں واویلا برپا کر رکھا تھا۔

جھوٹی اور من گھڑت خبروں اور تجزیوں کو کنٹرول کے لیے موثر انداز میں اقدامات کیے جا سکتے ہیں، قانون سازی سے فقط زبان بندی ہو سکتی ہے، بلاشبہ ہمارے معاشرے میں اس وقت جھوٹی اور من گھڑت خبروں کا انبار لگا ہوا ہے لیکن ان کو روکنا کے لیے ایسی قانون سازی لمحہ فکریہ ہے۔ آپ اندازہ کریں یہ کیسی حاکمیت اور حاکمین ملت ہیں جنہوں نے ہمیشہ اقتدار پر بیٹھ کر وہ عوامل کیے جو ماضی میں انتہائی برے تھے، جن پر یہ توبہ تائب کرتے تھے اور اس وقت کے حاکم پر تنقید کے نشتر چلا کر اچھا ہونے کا ثبوت دیتے تھے۔

آپ اندازہ کریں یہ سب اس وقت بھی ایک ڈھونگ تھا اور اب بھی ایک ڈھونگ رچا کر پھر سے یہ لوگ اچھا ہونے کا ثبوت دینا چاہتے ہیں، آپ نے یہ کبھی سوچا ہے کہ جو اس وقت غلط تھا تو ان کی طرف سے وہی اقدام ان کی نظر میں اب اچھا کس طرح ہو سکتا ہے۔ ان چہروں کے پیچھے کیا چھپا ہے ہم آج تک وہاں تک نہیں پہنچ سکے سیاستدان ہمیشہ سے ہی سیاست کرتے ہیں، یہ ہر موقع پر اپنی سیاست کو چمکاتے ہیں انہوں نے اچھے کام پر بھی سیاست کی اور برے فعل پر تو یہ لوگ بھرپور انداز میں سیاست کرتے ہیں۔

آپ اندازہ کریں پنجاب حکومت کی طرف سے ہتک عزت کے قانون میں چاہے درجنوں سقم اور خامیاں ہوں لیکن وہ قانون اسمبلی نے منظور کر لیا۔ ان کی نظر میں اچھا صحافی وہی ہوگا جو اس قانون کو اچھا کہے گا اور بولنے والا تو کبھی بھی اس قطار میں کھڑا ہی نہیں ہو سکتا۔

ہتک عزت کے اس قانون کو اسمبلی میں پیش کرنے سے قبل ہی تنقید کا نشانہ بنانا شروع کر دیا گیا تھا، اور صحافتی تنظیموں کی طرف سے اس قانون کے حوالہ سے مختلف جگہوں پر تحفظات اور خدشات ظاہر کیے جا رہے تھے۔ آپ نے کبھی یہ سوچا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ہر حکومت اقتدار میں آنے کے بعد میڈیا اور زبان بندی کی طرف ہی جاکر قانون سازی کیوں کرتی ہے، بلاشبہ جھوٹی اور من گھڑت خبروں کی روک تھام کے لیے ایک منظم قانون اور طریقہ کار ہونا چاہیے لیکن کیا یہ بھی ممکن ہے کہ آپ ان خبروں کی روک تھام کے لیے آزادی اظہار رائے کی زبان ہی بند کر دیں، یہ بات مجھے ہضم نہیں ہو رہی کیونکہ قانون سازی ہمیشہ عوامی مفادات کے لیے کی جاتی ہے لیکن یہ حاکمین مملکت سب سے پہلے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے قانون سازی کرنا شروع کر دیتے ہیں، 2016ء میں جب پیکا ایکٹ کا قانون آزادی صحافت کو کنٹرول کے لیے بنایا گیا تو اس وقت اس قانون پر اس وقت کی اپوزیشن کی بڑی جماعتوں پاکستان پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف نے ایک واویلا شروع کر دیا جبکہ مسلم لیگ نون کی طرف سے یہ قانون پارلیمنٹ سے منظور کرکے نافذ العمل بھی کر دیا گیا لیکن جب پاکستان تحریک انصاف اقتدار میں آئی تو اس نے بھی پیکا ایکٹ میں نئی ترامیم کرنا شروع کر دی اور صحافت کو کنٹرول کرنے کے لیے اپنی حکمت عملی بنانا شروع کر دی حالانکہ 2016ء میں یہی تحریک انصاف تھی جس نے اس قانون کو کالے قانون کا نام دیا اور آزاد صحافت کے حوالہ سے اپنے خدشات کا اظہار بھی کیا لیکن جب عمران خان اقتدار کی سیج پر سج دھج کر براجمان ہوئے تو عمران خان کو یہ قانون بھلا لگا اور انہوں نے اس میں مزید سیکشن اور سزائیں شامل کر دی اور پیکا ایکٹ میں قانون سازی کے ذریعے پاکستان کے اندر وہ اقدام کیا گیا جو کسی بھی مہذب اور تعلیم یافتہ معاشرے میں نہیں کیا جا سکتا ہے، تحریک انصاف کی حکومت نے اس ایکٹ میں ترامیم کرکے ایف آئی اے کو وہ اختیارات دینے کی کوشش کی گئی جو عوامی مفادات کے تحفظ کے حوالے سے کبھی سوچے بھی نہیں جا سکتے، اس وقت پیکا ایکٹ کے ہر سیکشن میں الگ الگ سزائیں ہیں اس کے باوجود پیکا ایکٹ کے تحت پاکستان پینل کوڈ کی دفعات بھی لگائی جا رہی ہیں اب پیکا ایکٹ کے ہر سیکشن سے ہٹ کر پاکستان پینل کوڈ کی دفعات بھی لگا کر ایف آئی آر اور مقدمات درج ہو رہے ہیں۔ جس سے پیکا ایکٹ کے حوالہ سے جو خدشات موجود تھے وہ پہلے سے زیادہ نقصان دے ہو چکے ہیں۔

اس ایکٹ میں مزید ترامیم کے لیے رانا ثناء اللہ خان کی قیادت میں ایک سیاسی کمیٹی بھی تشکیل جا چکی ہے جس کا مقصد اس ایکٹ میں ترامیم کے لیے تمام سیاسی جماعتوں سے مشاورت کرنا ہے، اس ایکٹ میں مزید کیا کچھ نیا ہونے جا رہا ہے یقیناً وہ پہلے سے زیادہ ہوشربا ہوگا، یہ بل ابھی تک فی الحال سامنے نہیں آسکا لیکن جو بازگشت اس حوالہ سے سنائی دے رہی ہیں وہ عوام کے لیے بھی مبینہ طور پر ایسے اثرات مرتب کرئے گی۔ جس میں سمجھنے کے لیے عوام کے لیے کچھ نہیں ہوگا۔

حکومت کی طرف عوام کے اندر سوشل میڈیا اور میڈیا کو کنٹرول کرنے کے حوالہ کوئی قابل ذکر اقدام نہیں کیا جا رہا، عوام کو آگاہی مہم کے ذریعہ کسی بھی قسم کے خطرے سے آگاہ نہیں کیا جا رہا اگر عوام کے اندر آگاہی مہم کے ذریعہ قابل ذکر اقدام کیا جائے تو پیکا ایکٹ میں ترامیم کی قطعاً کوئی ضرورت نہیں ہے۔

اب ایک طرف مسلم لیگ نون کی پنجاب حکومت جو ماضی میں میڈیا پالیسی کے حوالہ سے پاکستان تحریک انصاف کو ہدف تنقید بناتی رہی ہے اب یہی سیاسی جماعت اور وزیراعلی محترمہ مریم نواز میڈیا کی زبان بندی کی کوششوں میں مصروف عمل ہیں۔

دوسری طرف پاکستان پیپلز پارٹی جو اسوقت وفاق میں اس حکومت کو مکمل طور سہارا دئیے ہوئے ہے اس قانون سازی کے حوالہ سے قائم کی گئی کمیٹی میں ان کے ساتھ شامل ہے، اس نئی قانون سازی میں کیا کچھ سامنے آتا ہے یہ تو اس وقت تک آشکار نہیں ہو سکتا جب تک بل پارلیمنٹ میں پیش نہیں کر دیا جاتا اور ایف آئی اے نے پیکا ایکٹ میں جو کارنامے سرانجام دئیے ہیں اللہ پاک خیر رکھے نئی ایجنسی اور نئی قانون سازی میں وہ کمالات شامل نہ ہوں یہی صحافت اور اس معاشرے کے لیے بہتر ہوگا۔

Check Also

Aur Aeeni Tarameem Pass Ho Gayi

By Syed Mehdi Bukhari