Qudrati Talent
قدرتی ٹیلنٹ
وینا سروانی ایک انٹرنیشنل انڈین آرٹسٹ ہیں، آپ نیٹ پر آسانی سے سرچ کر سکتے ہیں، ان کے مداح کہتے ہیں کہ وہ جب ستار بجاتی ہیں تو دل کے تار بجنے لگتے ہیں۔
ایک انٹرویو میں، وینا نے ذکر کیا کہ جب وہ چھوٹی تھی تب اس کو ان کے گھر اکثر آنے والے رشتے داروں کے بچوں کے تبصروں نے اسے بہت متاثر کیا جو ان کے گھر جاتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ یہ کیا تم کو ستار کا شوق پڑ گیا، روزانہ اپنا وقت ضائع کرتی رہتی ہو حالانکہ اس وقت وینا پڑھائی بھی کر رہی تھی اور ساتھ ساتھ اپنا تھوڑا وقت نکال کر ستار کی ریاضت بھی کرتی رہتی تھی اور لوگ اسے زبردست تنقید کیا کرتے تھے کہ وینا یہ ایک پرانے زمانے کا آلہ ہے اس نسل میں پانچ سو سال پرانا ساز بجانے والا کوئی نہیں ہے خواہ مخواہ اپنا وقت برباد کرتی رہتی ہو، لیکن اس کی مستقل مزاجی اور لگن نے سب کو غلط ثابت کر دیا۔
وینا کو اس وقت کافی مقبولیت ملی جب اس نے فیس بک پر اپنی پہلی ویڈیو پوسٹ کی۔ وینا پر اس کی مہارت نے بہت سے لوگوں کو اس کی تعریف کرنے پر مجبور کر دیا۔ روزگار کے سلسلے میں وہ نجی ٹی وی کی اینکر رہ چکی ہیں اور اس میں بھی بیسٹ اینکر ہونے کا ایوارڈ حاصل کیا۔ آخر کار اس کی شہرت ایک اینکر سے نہیں بلکہ دنیا انہیں ستار آرٹسٹ کے نام سے پہچانتی ہے، انہوں نے صرف 27 سال کی عمر میں اپنے شعبے میں بہترین ہونے کا ایوارڈ حاصل کیا۔
یہ انسان کی اپنی قدرتی مہارت کو پہچاننے کے بعد اسے پالش کرنے کی ایک عمدہ مثال تھی اب سوال یہ ہے کہ کیا ہمارا بھی کوئی پیدائشی ہنر ہوتا ہے جسے تلاش کرنے کی ضرورت ہوتی ہے تو جواب ہے جی ہاں ہوتا ہے سب سے پہلے تو اس پیدائشی ٹیلنٹ کو تلاش کرنا چاہیے، اگر ہم اپنا قدرتی ٹیلنٹ تلاش کر لیتے ہیں تو کسی صورت روزگار کی ذمہ داریوں میں الجھ کر اسے اگنور نہیں کرنا چاہیے اور اس کو کرنے کی کوشش اور ریاضت جاری رکھنی چاہیے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو ایک منفرد مہارت دے کر بھیجا ہے، اس مہارت کو تلاش کرنے سے آپ کو دلی سکون بھی ملتا ہے اور آپ ٹینشن و ڈپریشن سے بھی ہمیشہ دور رہتے ہیں۔
اور آپ کی اس ٹیلنٹ کی وجہ سے اپنی ایک منفرد پہچان بھی بن جاتی ہے۔ میں اگر مثال کے طور پر اپنے ٹیلنٹ کی بات کروں تو مجھے نئی سے نئی باتیں، کتابیں پڑھنے اور چیزیں سیکھنے کا جنون کی حد تک شوق ہے میری فیملی اس بات کے شاہد ہیں کہ لڑکپن میں عید کی شاپنگ کے پیسوں کی پانچ سے سات کتابیں خرید لاتا تھا اور گھر میں اگر کوئی پہننے لائق شرٹ پڑی ہے تو پیسے بچا کر سیل سے سستی پینٹ لے لیتا اور اگر پینٹ پڑی ہے تو شرٹ خرید لیا کرتا پر ہر مہینے نئی کتاب ضرور لاتا۔
آج بھی ان سے نئی باتیں دماغ میں اترانے کے بعد اپنی اہلیت کے مطابق جتنا ہو سکے عمل میں لاتا ہوں اور جب عمل میں وہ چیز پک جائیں تو شوق سے آگے ڈیلیور کر دیتا ہوں، تحریر، ویڈیو یا لیکچر کے ذریعے کیونکہ کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ٹیلنٹ کا تحفہ خود فائدہ اٹھانے کے بعد اس کی مخلوق کو فائدہ پہنچانے کے لیے دیا ہوتا ہے اور یہ ٹیلنٹ اس کی امانت ہوتا ہے۔ اور اسی بات کے اندر قدرت نے انسان کا دلی سکون بھی چھیا دیا ہے یعنی زیادہ سے زیادہ بانٹتا رہے تقسیم کرتا رہے۔
یہ ساری باتیں خود پسندی سے ہٹ کر تحریک کو مدنظر رکھتے ہوئے آپ سے شیئر کر رہا ہوں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ انٹرنیٹ پر وینا سروانی کی ویڈیو کو دیکھنے کے بعد جو کہ بظاہر ایک عام سی ویڈیو ہے پین اور پیڈ پکڑ لیا، مجھے کچھ دن سے چلنے والی کسی پریشانی کی وجہ سے بخار تھا میں آفس میں بیٹھ کر کام کر رہا تھا لیکن پھر تھک کر لیپ ٹاپ پر انٹرٹینمنٹ کی دنیا کو آن کیا تو ٹیلنٹ کے عروج کو دیکھ کر داد دیے بغیر نہ رہ سکا اور اسی ٹاپک پہ قلم کشائی کا ارادہ کر لیا تحریر لکھنے کے بعد طبیعت میں قدرے بہتری آئی کیوں؟
کیونکہ میری ڈپریشن میں خاطر خواہ کمی واقع ہوگئی۔ میں نے اپنے دل کی باتیں دل سے آپ کے ساتھ شیئر کی اور مجھے کبھی تنقید کا ڈر نہیں لگا میں یہ باتیں صرف اپنے خاندان میں ہی شئیر نہیں کرتا بلکہ یہ پوری فون بک کو شیئر ہوتی ہے مجھے ان کے کمنٹ بھی آتے ہیں اور نئے سرے سے ہمارے تعلقات بھی ریفریش ہو جاتے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ آپ کی عمر جتنی بھی ہے اس سے صرفہ نظر کرتے ہوئے سوچیے گا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو کونسی مہارت کا تحفہ دے کر بھیجا ہے؟
اور ہاں اللہ تعالیٰ بے انصاف نہیں ہیں کہ کسی کو دے اور کسی کو نہ دے بے شک وہ تمام بنی نوع انسانوں کے ساتھ برابری برتتا ہے۔
کئی لوگوں کو اس بات کی بہت مشکل پیش آتی ہے کہ اپنے ٹیلنٹ کو کس طرح پہچانا جائے، میرے خیال میں اس کی تین سے چار نشانیاں ہیں اگر آپ ان نشانیوں کو اپنے اوپر آزمائیں تو آپ کو اس کا جواب بڑی آسانی سے مل سکتا ہے مثلاً نمبر ایک انسان کا وہ قدرتی ٹیلنٹ ہوتا ہے جس کی بچپن سے سب لوگ اس کی تعریف کرتے ہوں چاہے وہ اچھا گانا ہو، اچھا لکھنا ہو، اچھا پینٹ کرنا ہو یا آپ میتھ میں اچھے ہوں، چھوٹی عمر میں کمپیوٹر دوسروں سے زیادہ اچھا چلانا سیکھ لیا ہو، غرض کہ بچپن میں مکینیکل چیزوں کے ایشو دور کرنے کی عادت ہو، اس کے لئے جب آپ اپنی زندگی میں گہرائی سے ماضی کو سوچیں گے تو آپ کو اس کا جواب ضرور ملے گا۔
دوسری نشانی یہ ہے کہ اپنے گھر والوں کے علاوہ باہر کے لوگ بھی آپ کی اس کام کے لیے تعریف کرنے پر مجبور ہو جائیں، تیسری نشانی یہ ہے کہ آپ کی لگن اس لیول کی ہو کہ وہ کام کو کرتے ہوئے آپ کو کبھی بھی تھکاوٹ محسوس نہ ہو اور ٹائم گزرنے کا احساس تک نہ ہو اور چوتھی اور آخری چیز یہ ہے کہ آپ کے شوق کا یہ عالم ہو کہ آپ وہ کام بلا معاوضہ کرنے کے لئے تیار ہو جائیں۔ آپ کو اگر اس کام کے پیسے نہ بھی ملیں تب بھی آپ وہ کام دلی شوق سے کرنے کا جذبہ رکھتے ہوں۔
آپ ان نشانیوں اور اصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی زندگی میں کاموں کی ایک فہرست بنا کر اس میں سے آسانی سے وہ کام تلاش کر سکتے ہیں جس کے لیے قدرت نے آپ کو ایک سپیشل پرسن بنا کر بھیجا ہے اور وہ ہی آپ کا قدرتی ٹیلنٹ ہوتا ہے۔