Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Rashid Ali
  4. Mujhe Apna Ghar Banana Hai

Mujhe Apna Ghar Banana Hai

مجھے اپنا گھر بنانا ہے

وہ KFC کا برگر کھاتے ہوئے ہلکے سے زور سے میز پر مکا مار کر بولا۔ اب مجھے اپنا گھر بنانا ہے۔

میں نے اس کے ارادے کی تعریف کی اور عرض کی کہ یار انکل نے جتنا بڑا گھر بنایا ہوا ہے اُس میں سے اگر تین کمرے بھی اپنے لیے مخصوص کر لو تب بھی ضرورت سے زائد پڑیں گے، پھر الگ اپنا گھر کیوں؟ لیکن وہ باضد تھا کہ مجھے شادی سے پہلے اپنا گھر بنانا ہے، اُس کی six ڈیجٹ اِنکم بتا رہی تھی کہ اب وہ بڑا ہو گیا ہے اور اپنے فیصلے خود کر سکتا ہے، وہ تو چلا گیا پر میں اِس محاورے کو کافی دیر سوچتا رہا "مجھے اپنا گھر بنانا ہے"۔

جبکہ آج سے تقریباً تیس یا چالیس سال پہلے یہ کانسیپٹ نہیں تھا، اس کی دو وجوہات ہیں ایک اچھی اور دوسری بُری، لیکن وہ میں آگے آپ سے شیئر کروں گا۔ انسان نے جب سے تہذیب کی پٹٹری پر چلنا شروع کیا ہے، گھر اِس کی بنیادی ضروریات میں سے ایک ہے، تاریخ بتاتی ہے انسان 30 سال بعد اپنا ٹھکانہ یعنی مکان یا تو بدل لیتے ہیں یا نیا بنا لیتے ہیں۔ آپ آج سے مشاہدہ شروع کر دیں 30 سال سے زیادہ شاید ہی کوئی ایک چھت کے نیچے رہا ہو؟

اگر کوئی رہ رہا ہے تو وہ موقع ملنے پر سو فیصد نئ جگہ پر شفٹ ہونا چاہے گا، ٹیکنیکلی تیس سال بعد انسان کی ایک پوری نسل جوان ہو کر اگلی نئی نسل کو پیدا کر چکی ہوتی ہے، اِس لیے سب کو اچھے رہن سہن کیلئے زیادہ جگہ اور زیادہ کمرے درکار ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ہر فرد عمر کے درمیانی حصہ تک نقل مکانی کرنا لازمی سمجھتا ہے اس لیے ہر چھوٹے بڑے طبقے والے کا خواب ہوتا ہے کہ میرا اپنا گھر ہو۔

اب اس کی پہلے بُری وجہ کی بات کریں تو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمارے خطے میں افرادی اخلاقیات میں واضح کمی آئی، چاہے آپ اِس کی وجہ علم سے دوری یا تربیت میں کمی سمجھیں۔ بہرحال یہ حقیقت ہے کہ ہم مجموعی طور پر اخلاقی گراوٹ کا شکار ہیں، پہلے زمانے میں بڑوں کا لحاظ، ادب اور دل میں رعب و دبدبا ہوتا تھا، پر آج بڑوں کی عزت اور ادب ناپید ہو چکا ہے، پہلے کسی بات یا واقع پر برداشت اور صبر کا اعلیٰ مظاہرہ کیا جاتا تھا، پر اب تو نہ ہی بات، رائے یا کسی کا نظریہ برداشت کرنا تو دور کی بات ہم دوسروں کو سننے کو تیار نہیں۔

کردار کی کمی کی وجہ سے گھر کے زیادہ تر افراد کو اپنی الگ پرائیویٹ سپیس چاہئے جس میں کسی کا عمل دخل نہ ہو اور بد قسمتی سے یہ ہی رویہ فردِ واحد سے رفتہ رفتہ اجتماعی روجھان اختیار کر رہا ہے، ہم کو الگ کمرے کے بعد اب الگ گھر بھی چاہیے۔ اِس بات پر اکثر میرے پیر و مُرشد میرے سر کے تاج میرے بابا جان بہت ہی خوبصورت قول فرماتے ہیں کہ ہو آدم کا بچہ اور اکھٹے مِل جُل کر رہ لے، یہ کیسے ممکن ہے؟

دوسری اور اچھی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں 1995 کے بعد خوشحالی نے آہستہ آہستہ ہر دروازے کی دستک دی ہے اور ہم سب نے دل سے خوش آمدید بھی کہا، جب ہماری زندگیوں کا معیار بلند ہوا، ہماری کمانے اور خرچ کرنے کی صلاحیت میں اضافہ ہوا تو اب سب کو اِس خوشحالی کو اپنی اپنی مرضی سے انجوئے بھی کرنا ہے، جہاں کمبائنڈ فیملی کی روک ٹوک نہ ہو، لحاظہ ہمارا بلند میعارِ زندگی بھی اِس بات کی ڈیمانڈ کرتا ہے کہ ہمیں اپنا اپنا خوبصورت گھر بنانا چاہیے۔

میں اپنے کاروباری نظرِیے سے دیکھتا ہوں تو یہ ایک صحت مندانہ سرگرمی ہے لیکن اخلاقیات کی روح سے سوچتا ہوں تو لگتا ہے اِس معاملے میں ہماری سپیڈ اتنی تیز رفتار ہے کہ ہمارے اپنے ہم سے بہت پیچھے رہ گئے ہیں۔

Check Also

Peshawarana Taleem Aur Larkiyan

By Mubashir Aziz