Kainat Ki Cycle Ke Do Pahiye
کائنات کی سائیکل کے دو پہیے
میں نے ڈور بیل بجائی، مسکراتے چہرے کے ساتھ اُس نے خوش آمدید کہا اور ہم ڈرائنگ روم میں بیٹھ گئے، میں دیکھا رہا تھا اُس نے بڑی محبت اور شوق سے گھر بنایا تھا اور میں اِسی گھر کی مبارکباد دینے کے لیے پہنچ گیا، ابھی ہمیں باتیں کرتے صرف دس منٹ گزرے تھے کہ اندر سے شور کی آوازیں آنے لگیں غالباً بچوں سے کوئی کام خراب ہو گیا تھا اور ساتھ ہی بھابھی کی ڈانٹ ڈپٹ کی آواز شروع ہوگئی، میرے دوست نے مجھے سے معذرت کی اور تیز تیز قدموں سے اندر چلا گیا، میں نے اُن کے معاملے سے لا تعلقی کا اظہار کرنے کے لیے فوراً ائیر پاڈز کانوں میں ٹھونس لیے، کافی دیر بعد جب وہ واپس آیا تو بولا یار باہر چلتے ہیں، میں نے فوراً ہاں کردی۔
اُس نے گاڑی نکالی اور کچھ دیر بعد ہم ایک آئسکریم پالر میں بیھٹے تھے، اُس کے چہرے پر گھر کی ساری داستان لکھی تھی پر اُس کو بتانے اور مجھے پوچھنے کی ہمت نہ تھی، میں نے اُس کا دھیان کھینچے کے لیے اُس کی سرکاری نوکری کے بارے میں سوالات داغنا شروع کر دیے لیکن صاف لگ رہا تھا کہ اُنہیں جواب دینے میں دلچسپی نہیں تو میں نے خاموش رہنے میں ہی آفیت سمجھی، پھر کچھ دیر بعد وہ خاموشی کا سکوت توڑتے ہوئے بولا، یار راشد یہ عورت ذات اِس دنیا میں جتنی مردوں کی ڈپریشن کا باعث ہیں اِتنی ٹینشن تو ہمارے کاموں کے پریشر سے بھی نہیں آتی تو اصل دُکھ اور غم کا منبع یہ عورت ہی ہوئی نہ؟
وہ بولتا رہا اور میں کافی دیر تک خاموشی سے اُس کی باتوں کو سنتا رہا، جب وہ بھڑاس نکالنے اور آئسکریم کھانے کے بعد قدرے ٹھنڈا ہوا تو میں نے عرض کی کہ یار اگر ہمارے غم کا سارا منبع یہ ہے تو جب ہم کام سے تھک ٹوٹ کر گھر واپس آتے ہیں تو ہمارے سکون کا باعث بھی تو یہ ہی ہوتی ہے؟ اب اُس کی دلائل کی توپیں ٹھنڈی ہوچکی تھیں، میں دوبارہ گویا ہوا کہ قدرت نے مرد اور عورت کے ذریعے کارخانہِ قدرت رواں رکھے ہوئے ہیں اور گہرائی سے دیکھا جائے تو ایک ہی جسم کی تخلیق ہونے کے باوجود دونوں ایک دوسرے سے مکمل طور پر مزاج سوچ، شکل و عقل کے لحاظ سے مختلف ہیں، جیسے کہ مرد میں اگر صبر ہے تو عورت جلد باز ہے، عورت میں محبت ہے تو مرد میں رُعب ہے، مرد فطرتاً راز دان ہے پر عورت سب کچھ شئیر کرنا چاہتی ہے، مرد اپنے کندھوں پر ذمے داریوں کا بوجھ اُٹھاتا ہے تو عورت اُس کے رہنے کی جگہ کو پُرسکون بنانے کی ذمہ داری اُٹھاتی ہے، ہم کسی ایک خوبی یا کردار سے نظامِ دُنیا کیسے چلائیں گے؟
اب اِن سب خوبیوں اور خامیوں کے کبینشن سے گھروں کے نظام میں توازن برقرار ہے، اب یار ہزاروں سالوں سے چلتے اتنے خوبصورت سسٹم کی کچھ نہ کچھ قیمت تو ادا کرنا پڑے گی نہ۔۔ وہ بولا کیسی قیمت؟
میں نے عرض کی کہ مثال کے طور پر مرد اپنی خواہشات دبا کر عورت کی تمام ضروریات کو پورا کرنا چاہتا ہے پر عورت ضرورتوں میں توازن برقرار رکھنے سے قاصر ہے بلکہ اُلٹا کوئی ایک ضرورت کم ہونے پر ناراضگی کا اظہار واجب سمجھتی ہے۔
مرد موسم کی سختیاں اور جسم کی بیماریوں کو خاطر میں لائے بغیر کمانے نکل جاتا ہے تو عورت بچوں سمیت اپنے تمام مسائل بنا آرام دہ یا خوشگوار ماحول کا خیال رکھے بغیر ایک لوڈر ٹرک کی طرح سب کچھ مرد پر اُنڈیل دیتی ہے۔ کیا یہ صبر کی شکل میں قیمت نہیں ہے نظام کو چلائے رکھنے کی؟
اُس نے اثبات میں ہلایا، میں نے عرض کی اسی طرح عورت بھی قیمت ادا کرتی رہتی ہے کہ جب عورت گھر کی ذمہ داریوں میں اُلجھ کر اپنا آپ بھول جاتی ہے تو مرد کے مَن کو وہ عورتیں بھانے لگتیں ہیں جو پریکٹیکل لائف میں گھر کے کاموں اور ضرورتوں سے بری ذمہ ہوتی ہیں۔
عورت اگر ہر وقت بچوں کو گندگی سے بچاتے ہوئے صاف ستھرا رکھتی ہے تو مرد گھر آتے ہی کھیلتے اور مہکتے بچوں کو اُٹھا کر چوم کر باپ ہونے کا حق ادا کرنے کا نعرہ لگا دیتا ہے اور مزے کی بات بچے بھی پارٹی بدلتے دیر نہیں لگاتے۔ اُس نے قہقہہ لگایا اور بولا یار اے گل ٹھیک کیتی۔
میں بات جاری رکھتے ہوئے بولا میرے خیال میں دنیا کے نظام کو چلانے کے لیے کچھ باتوں میں مخالف مزاج اور حیثیت فائدہ مند ثابت ہوئی ہے، جیساکہ یہ بات خوبصورت بھی ہے کہ عورت فطرتاً راز دان نہیں ہے اگر زار دان ہوتی اور ہر بات چُھپانے والی ہوتی تو ذرہ تصور کریں کہ اِس معاشرے کی حالت کتنی اَبتر ہوتی، کچھ حضرات گلہ کرتے نہیں تھکتے کہ عورت ذیادہ تر باتیں راز نہیں رکھ پاتی تو میری اُن سے عرض ہے کہ جناب عورت کا پیٹ اللّٰہ تعالیٰ نے انسان رکھنے کے لیے ڈیزائن کیا ہے، راز رکھنے کے لیے نہیں، ہاں البتہ مرد کے پیٹ اللّٰہ تعالیٰ نے انسان رکھنے کے لیے نہیں بلکہ خالصتاً بڑے بڑے راز رکھنے کیلئے بنایا ہے۔
تو اس طرح مرد اور عورت کائنات کی سائیکل کے دو پہیے ہیں اور جگر کے گوشے بچے اِس سائیکل کے پیڈل اور چین ہیں جن سے یہ کارواں رواں دواں رہتا ہے، اب اِن حالات میں کوئی ایک پہیہ دوسرے پہیے کی اہمیت سے انکاری ہو جائے اور اُسے بُرا بھلا کہنے لگ جائے تو یار یہ بڑی زیادتی والی بات ہے۔
وہ ہنستے اور مسکراتے ہوئے میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولا، چلو یار باتیں تو ہوتی رہیں گی ایک چھوٹا سا کام ہے اس کے بعد گھر چلتے ہیں آپ کی بھابھی فروٹ شیک بہت اعلیٰ بناتی ہیں، جانے سے پہلے وہ پی کر جانا ہے آپ نے، اُس موڈ تو مجھے ٹھیک لگ رہا تھا پر اُن کے گھر کا سُن کر میرا موڈ آف ہو گیا۔