Apna Ghar Magar Kaise
اپنا گھر مگر کیسے
دن بہ دن پراپرٹی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے ایک لوئر مڈل کلاس سے لے کر محنت کش طبقے تک اپنا گھر بنانے کا خواب مشکل سے مشکل تر بنا دیا ہے اور میری ریسرچ کے مطابق سینکڑوں ایسے لوگ جو اپنا یہ خواب بھلا کر مایوس ہو کر کرایے کے گھروں میں باقی پوری زندگی رہنے کو ترجیح دے بیٹھے ہیں۔
میری اُن تمام بہن بھائیوں سے گزارش ہے کہ مایوسی گناہ ہے مایوس نہ ہوں ربّ کی رحمت پر بھروسہ رکھیں جس نے آپ سے پہلے لوگوں کو چھت عطا فرمائی وہ آپ کو بھی دے گا۔
دراصل ہمارے معاشرے کا ایک سب سے بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ اگر کوئی کامیاب ہو جائے تو وہ اپنی کامیابی کو دوسروں سے چھپتا پھرتا ہے، ہمارے ہاں دوسروں کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کا تصور ناپید ہو چکا ہے، ہر دوسرا شخص کچھ حاصل ہونے کے بعد اپنی خود غرض زندگی میں مگن ہو جاتا ہے، اپنے اردگرد لوگوں کو بھول جاتا ہے اور وہ لوگ جو اُن جیسا بننا چاہتے ہیں لیکن وہ ملکی حالات اور مہنگائی کی وجہ سے اپنے خوابوں کو ہاتھوں سے نکلتا ہوا دیکھ کر نااُمید ہوکر حسد کے گڑھے میں جا گرتے ہیں۔
میں سمجھتا ہوں کہ اِن کی نااُمیدی کا باعث بہت سے ایسے لوگ ہیں جن کو اللہ ربّ العزت نے باقیوں کی نسبت زیادہ عطا فرمایا ہے، اُن کو چاہیے کہ وہ اپنے سے محروم طبقے کا خیال کریں چاہے وہ دولت کی صورت میں ہو یا صحیح علم و مشورے کی صورت میں جس پر عمل کر کے وہ بھی کامیابی کے سفر پر گامزن ہوں، لیکن وہ بُخیلی سے کام لیتے ہوئے اِن لوگوں سے ہمیشہ کنارہ کش رہتے ہیں۔
یہی بات ایک دن میں نے کسی محفل میں کر دی تو مجھے سامنے سے جواب ملا کہ خواہ مخواہ خود کو اتنی تکلیف میں ڈالنے کی کیا ضرورت ہے انٹرنیٹ پر ایسے موزوں بھرے پڑے ہیں، میں نے عرض کی کہ آپ بجا فرما رہے ہیں، کامیابی کی ٹاک اور موٹیویشنل ڈیٹا سے انٹرنیٹ بھرا پڑا ہے، ایسے مواد کا کیا فائدہ ہمارے اردگرد اور فون بک میں ہمارے درجنوں ایسے رشتے ہیں جن کو ہم ذاتی طور پر جانتے ہیں اور کافی حد تک اُن کی تلخ زندگیوں سے بھی واقف ہیں لیکن ہم نے کبھی اُن کے ساتھ ایک کپ چائے پی کر اُن کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی اگر اُن کا مسئلہ سمجھ لیا ہو تو خود سامنے نہ آتے ہوئے دوسرے یا تیسرے رفرنس سے اُن کو درکار معلومات یا مدد پہنچانے کی بھی کوشش نہیں کی جس کے وہ ضرورت مند ہیں، اہلِ ثروت اپنے دل پر خود ہی ہاتھ رکھ کر اِس کا جواب دے سکتے ہیں۔
بہ حیثیت انسان ہم اللہ تعالیٰ کے نائب ہیں اور نائب ہمیشہ اپنے آقا کا فرمانبردار رہتا ہے اُس کے تمام کاموں کو اپنا فرض سمجھ کر پایا تکمیل تک پہنچاتا ہے تو ذرہ سوچیے کہ اللہ تعالیٰ کے کیا کیا کام ہیں؟
جب سے دنیا بنی وہ بادشاہ ہمارے غم و خوشیوں کو سمجھتا ہے، ہماری زندگیوں کو آسان بنانے اور ضرورتِ حیات کو ہم تک پہنچانے میں لگا ہے، ہمارا احساس کرتا ہے، ہم سے پیار کرتا ہے، ہمارے درد کو بیان کرنے سے پہلے راحت میں بدل دیتا ہے، ہماری جھولیاں نعمتوں اور رحمتوں سے بھرے رکھتا ہے۔
جب آقا اپنے وعدے کے مطابق کاموں کو کر رہا ہے تو کیا اُس کا نائب اِن کاموں سے کیسے کام چوری کر سکتا ہے؟ حالانکہ جس کے لیے اُسے مامور کیا گیا تھا کہ وہ اپنی حیثیت کے مطابق اِن کاموں کو اُس کی مخلوق کے لیے کرتا رہے، اللہ تعالیٰ نے ایسے ہی نائب کو بہت پسند فرمایا ہے جو اُسکے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ کا نائب ہونے کے ناطے ہمارا فرض ہے کہ ہم دینا سیکھیں، اپنے عمل سے دوسروں کی زندگی میں کوئی ایک ایسا کام کریں جس سے اُن کی زندگی میں کچھ تو آسانی آئے چاہے وہ اچھا مشورہ ہی کیوں نہ ہو۔
بات چلی تھی پراپرٹی کے بڑھتے ہوئے ریٹ سے تو میں نے پچھلی تحریر میں بھی عرض کیا تھا کہ گھر بنانا کوئی راکٹ سائنس نہیں یا ناممکن چیز نہیں، یہ بات بھی سچ ہے کہ مہنگائی ہونے کی وجہ سے جو 3 مرلے کا گھر آج سے تین سال پہلے 65 لاکھ میں مل جاتا تھا اب اُس کی قیمت ایک کروڑ بیس لاکھ روپے ہو چکی ہے اِس حساب سے آج 3 مرلے گھر کا مالک بھی کروڑ پتی کہلاتا ہے لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ اِس کروڑ کا سفر بھی آج سے پانچ یا چھے سال پہلے تین لاکھ روپے سے شروع ہوا تھا۔
میرے ایک دوست جو گاؤں سے لاہور کام کے سلسلے میں آئے فقط چار لاکھ روپے کی انویسٹمنٹ کی اور اپنے روزگار سے اُس کی اقساط ادا کرتے رہے ٹھیک چھے سال بعد ایک کروڑ پچیس لاکھ روپے بنا کر لندن روزگار کے سلسلے میں شفٹ ہو گئے۔
میرے ایک عزیز ہیں جو بنک میں جاب کرتے ہیں کرایے پر رہتے تھے اُنہوں نے آج سے سات سال پہلے پانچ لاکھ سے دو پلاٹ بک کروائے اور اپنی سیلری سے اقساط ادا کرتے رہے پچھلے دنوں کال آئی کہ راشد بھائی آپ اِن کو سیل کروا کر گھر لے دیں جب وہ فیملی نیا گھر دیکھنے آئی تو اُن کے چہرے پر چمک اور خوشی نمایاں تھی خاص طور پر اُن کے بچے بہت جوش اور خوشی میں تھے جیسے اُن کے ہاتھ معلوم نہیں کونسا خزانہ لگ گیا ہو اُن کی خوشی دیکھنے لائق تھی، میں نے دل ہی دل میں سوچا کرایے کے گھر سے اپنے نئے گھر شفٹ ہونا واقع زندگی کی بہت بڑی خوشیوں میں سے ایک ہے۔
یہ صرف دو کہانیاں ہیں میرے پاس ایسے درجن بھر لوگوں کی مثالیں موجود ہیں جن کا موٹرسائیکل سے گاڑی اور کرایے سے اپنے گھر کا سفر مجھے ازبر ہے۔ اِس کی ایک خاص وجہ یہ بھی ہے کہ میں رئیل اسٹیٹ کو بزنس نہیں بلکہ ایک طالبِ علم کے طور پر لیتا ہوں تو روزانہ کچھ نیا سیکھنے کو ملتا ہے نئے تعلقات بنتے ہیں کچھ نئے راز آشکار ہوتے ہیں۔
یہ تحریر خاص طور پر اُن بہن بھائیوں کے لیے لکھی ہے جو اپنا گھر بنانے کی چاہ رکھتے ہیں اُن سے درخواست ہے کہ منفی لوگوں اور سوچوں سے خود کو محفوظ رکھیں اور اِن چیزوں اور باتوں کے مطلق بھروسے مند لوگوں سے مسلسل سیکھتے رہیں کہ کرایے یا گروی کے گھر سے کیسے جان چھوٹ سکتی ہے۔
بات ہر جگہ صرف پیسوں کی نہیں ہوتی بات ہوتی ہے صحیح علم اور مشورے کی جو ہمارے عمل کو آسان کر دے ورنہ سینکڑوں افراد کی زندگی میں کہیں نہ کہیں سے لاکھوں روپے آتے ہیں ساتھ خرچ بھی ہو جاتے ہیں اور رہن سہن وہی کرایے کے گھر میں ہی ہوتا ہے کیونکہ معلوم نہیں تھا اُس بارے میں یا کوئی بھروسہ مند بتانے والا نہیں تھا کہ چند لاکھ روپے سے بھی اپنے گھر کا سفر شروع ہو سکتا ہے۔