Jashan e Azadi Aur Jadeed Pakistan
جشنِ آزادی اور جدید پاکستان
ہمارے عزیز وطن پاکستان کو بنے پچھتر برس ہونے کو ہیں لیکن افسوس کہ ان پچھتر سالوں میں ہمارا پیارا وطن قدیم تو ہو گیا مگر جدید نہ ہو سکا۔ بدقسمتی سے کوئی ایسا لیڈر نہ ملا جو وطنِ عزیز کو جدید بنانے کا خواب دیکھتا۔ ہاں لیکن سب نے اس ملکِ عزیز کو اپنا سمجھ کر کھانے کی بھرپور کوشش ضرور کی۔ ان ممالک نے ترقی کی جہاں لیڈرشپ نے بے لوث کام کیا اور ملکی خزانہ بھرنے کا سوچا لیکن ہمارے نااہل سیاستدانوں نے ملکی خزانہ خالی کر کے اپنے اکاونٹس بھرنے کا سوچا۔
جس ملک کی عوام روٹی، کپڑا اور مکان کے نعرے سے ہی نہ نکل سکے اسے کیا ہوش کہ جدت کیا ہوتی ہے؟ آج بنگلہ دیش کے ٹکے کی قدر پاکستانی روپے سے زیادہ ہے اس سے ہماری جدت کا اندازہ ہوتا ہے۔ چلیے مفصل تبصرہ کرتے ہیں کہ یہ ملک اب تک جدید کیوں نہ بن سکا اور اسے جدید بنانے کے لیے ہمیں کیا کرنا ہو گا؟ اس ملک کو لوٹنے والوں میں سب سے پہلے ہمارے حکمران ہیں کیونکہ پہلے حکمران اور پھر عوام۔
دنیا کے کئی ممالک ایسے ہیں کہ جو دس بیس سال کی قلیل مدت میں ترقی کی منازل طے کر گئے جیسا کہ چین اور ملائشیا لیکن پاکستان پچھہتر سال بعد بھی اُدھر ہی ہے۔ وجہ صرف مفاد کی سیاست ہے اور ہر کوئی اپنے لیے کام کرتا رہا ورنہ آپ خود سوچ لیجیے کہ کوئی ملک ایسا ہو جہاں تمام وسائل موجود ہوں وہ پچھتر سال بیتنے کے بعد بھی کیسے تیسری دنیا کا ملک ہو سکتا ہے؟ یقیناً کوئی پاکستان جیسا ملک عدم توجہ کی وجہ سے ہی اتنا ترقی پزیر ہو سکتا ہے۔
ہمارے سیاستدانوں نے آج تک اقتدار کی خاطر چھینا جھپٹی کی اور پھر دونوں ہاتھوں سے اس ملک کو لوٹا۔ اب بات کرتے ہیں ہماری اشرافیہ کی جس میں سرکاری عہدیدار، بیوروکریسی اور عدلیہ ہے۔ ہماری اشرافیہ نے بھی اس ملک کو جدید بنانے میں کوئی خاطر خواہ کردار ادا نہ کیا بلکہ حکمرانوں کے آلہ کار بن کر ہی کام کیا۔ آخر میں ہماری عام عوام آ جاتی ہے ہماری عوام نے بھی اس ملک کو جدت سے دور رکھنے میں اپنا بھرپور منفی کردار ادا کیا بلکہ میں تو یہ کہوں گا کہ سب سے زیادہ کردار ادا کیا۔
ہماری عوام ہی ان حکمرانوں کی وجہ ہے کیونکہ اگر یہ عوام ان کرپٹ حکمرانوں کو لیڈر نہ بناے تو کوئی ملک کو نہیں لوٹ سکتا۔ یہی عوام ہے جو رشوت دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس ملک میں رشوت چلتی ہے، یہی عوام ہے جو قوانین کی دھجھیاں اُڑاتے ہیں سگنل توڑتے ہیں اور یہی عوام ہے جو ان حکمرانوں کی طرح اپنے خلاف فیصلے نہیں مانتے۔ اسلام کے مطابق بھی جیسی عوام ویسے حکمران۔ سیاستدان، اشرافیہ اور عوام چاہے جیسے بھی ہوں لیکن ایک بات تو ہے کہ یہ لوگ جشنِ آزادی بڑے اہتمام کے ساتھ مناتے ہیں اسی لیے تو ہماری حکومت نے ایک ارب سے زیادہ اشتہار بازی کے لیے جاری کیا۔
اب وقت کچھ خیالی دنیا میں جانے کا ہوا چاہتا ہے یعنی ہم اب جدید پاکستان کو بنانے کے لیے کچھ خیالی پلاؤ بناتے ہیں اور اُمید کرتے ہیں کہ یہ حقیقت ہو جائے۔ اگر ہم اس ملکِ عزیز میں جدت کو پروان چڑھتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں تو قبل ازیں ہمیں اپنی سمت کو درست کرنا ہو گا۔ درست سمت یہ ہے کہ ہمیں سب سے پہلے انصاف قائم کرنا ہو گا، اس کے بعد گوڈ گورننس کو لاگو کرنا ہو گا۔
اور گوڈ گورننس قائم کرنے کے لیے پہلا ستون ہماری عوام ہے جو کرپٹ حکمرانوں کو گھر بھیج سکتی ہے اور پھر عدلیہ ہے جو کرپشن کرنے والوں کو سزائیں دے سکتی ہے۔ قانون کو ملک میں لاگو کر سکتی ہے۔ جدت کا دوسرا ستون قانون کی حکمرانی ہے جس ملک کا حاکم کوئی ایک شخص نہیں بلکہ قانون ہو وہ ملک جدت کی منازل طے کرتا ہے۔ اور جدت کا تیسرا ستون عوام جس پر باقی دونوں ستون کھڑے ہیں۔
تینوں ستون جب کھڑے ہو جائیں تو پھر جدت کی عمارت کھڑی کرنے کا کام شروع ہوتا ہے اور اس عمارت کی پہلی اینٹ ملک کے ادارے ہیں۔ اور ملکی اداروں ہی سے جدت کا آغاز ہوتا ہے۔ اگر قانون لاگو کرنا ہے تو پولیس اپنا کام کرے تو قانون لاگو ہو گا۔ لیکن قانون، عوام، گورننس یہ سب بنیادیں ہیں لیکن اگر عمارت کی بات کرنی ہے تو ہمیں اپنے تعلیمی نظام کو ایک نظر دیکھنا ہو گا۔
پاکستان کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے لیکن نظامِ تعلیم فنڈز کھانے کی خاطر بلوم ٹیکسانومی کے گرد گھومتی ہے جہاں استاد کی کوئی عزت نہیں اور جو ملک ہمیں فنڈز دے ہم اسی کے کہنے پہ چلتے ہیں۔ ہمیں اپنے تعلیمی نظام میں اسلامی تعلیم کو شامل کرنا ہو گا تاکہ حقیقی ریاست مدینہ بنے۔ اسی طرح ہمیں صنعتی نظام کو فعال بنانے کے لیے تیکنیکی ڈگریوں سے لیس ماہر سٹاف چاہیے جو ہماری مشینری بنا بھی سکے اور چلا بھی سکے اس کے لیے تعلیمی نظام میں تیکنیکی تعلیم کو بھی شامل کرنا ہو گا۔ اور اسی طرح تمام جدید انداز سے چلانے ہوں گے۔
اگر ہم واقعتاً جدت چاہتے ہیں تو ہمیں سب سے پہلے سیاسی جدت، جس میں حقیقی جمہوریت ہو، اپنانا ہو گی۔ اس کے بعد تعلیمی جدت کو اپنانا ہو گا تاکہ ہم جدید دنیا کا جدت کے ساتھ مقابلہ کر پائیں۔ آخری بات یہ کہ عوامی شعور جدید سیاست کا آغاز ہو گا اور جدید سیاست جدید تعلیم کا آغاز کرے گی اسی طرح بلآخر پاکستان جدید ہو گا۔