1.  Home/
  2. Blog/
  3. Raja Mutaal Chauhan/
  4. Hamari Siyasi Tehzeeb

Hamari Siyasi Tehzeeb

ہماری سیاسی تہذیب

سیاست نہایت معتبر شعبہ ہے۔ دنیا بھر میں ہمیشہ سے قوموں کی تقدیر سیاستدانوں کے ہاتھ ہوتی ہے۔ سیاستدانوں کا کام اپنی سیاست کے فن سے عوام کو قائل کر کے اپنے اقتدار کی نشست کو پکا کرنا ہوتا ہے جو بعض لوگ عوامی خدمت کے لیے کرتے ہیں اور بعض لوگ ذاتی خدمت کے لیے ہی کرتے ہیں اور حقیقتاً جو لوگ ذاتی خدمت کرتے ہیں سیاست کی مدد سے وہی لوگ سیاسی دہشتگرد ہیں اور یہ وہ دہشتگردی ہے جو قوموں کو تباہ کر دیتی ہے۔

پاکستان میں درحقیقت سیاسی دہشتگردی عام ہے یہی وجہ ہے کہ ہمارا ملک آگے کی جانب بڑھنے کی بجائے پیچھے کی طرف جا رہا ہے۔ پاکستان میں ہمیں جو آج سیاسی طور پہ نظر آ رہا ہے اصل میں یہ پچھتر سالہ تاریخ ہے یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں ہر اُبھرنے والے سیاستدان کو انگنت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ملک تب ترقی کرتے ہیں جب ملک میں نئے تعلیم یافتہ سیاستدان سیاست کے میدان میں آتے ہیں اور خالص ملک کی ترقی کے لیے کوشاں ہوتے ہیں۔

آئیے یاد کرتے ہیں ملکی سیاست میں رونما ہونے والے کچھ تاریخی واقعات کی پھر موجودہ سیاست پہ بھی بات کریں گے۔ ملک میں سیاسی عدم استحکام معمولی بات ہے۔ پاکستان میں شاہد ہی کوئی دن سیاسی استحکام کا دیکھا ہو ہم نے۔ ہاں یہ بات ٹھیک ہے کہ سیاسی پارٹیاں بنتی ہی ایک دوسرے سے اختلاف کی غرض سے ہیں لیکن ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچ کے سیاست میں کامیاب ہونا اور اپنے مخالف کو اقتدار میں ایک دن کے لیے بھی برداشت نہ کرنا کسی مہذب معاشرے میں نہیں ہوتا۔

پاکستان بننے کے بعد سے بات کا آغاز کرتے ہیں۔ پاکستان کے قیام سے چند سال بعد ہی ملک کے ایک عظیم لیڈر لیاقت علی خان کو شہید کر دیا گیا۔ اسی طرح ہمارے ملک میں بہت سے سیاسی جھٹکے آتے رہے ہیں جن میں بیشتر مارشل لاء، ذوالفقار علی بھٹو کی شہادت، جنرل ضیاءالحق کا پلین کریش، سانحہ کارساز اور پھر بےنظیر بھٹو کی شہادت۔ اسی مڈھ بھیڑ میں ملکِ پاکستان ترقی نہیں کر سکا۔

اب موجودہ حالات کی بات کرتے ہیں۔ موجودہ سیاست میں ایک منفرد سیاسی صورتحال بن چکی ہے۔ آج تک اس ملک میں بڑی سیاسی جماعتیں دو ہی تھیں جو کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ تھی جو ایک دوسرے کو گھسیٹنے کی باتیں کرتے تھے لیکن اب ان کے خلاف بھرپور عوامی طاقت کے ساتھ ایک تیسری جماعت تحریکِ انصاف آ چکی ہے جس کے خلاف سب متحد ہو گئے ہیں اور اسے پسپا کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔

ملک میں اس وقت ایک جنگ کا سماں ہے ظاہری طور پہ نہ سہی لیکن اندرونی طور پہ خانہ جنگی کی سی فضا ہے چونکہ حکومتی اتحاد اور تحریکِ انصاف دونوں کے ہی حمایتی کثیر تعداد میں موجود ہیں۔ اب بات کرتے ہیں کہ یہ لفظی خانہ جنگی کہاں سے شروع ہوئی۔ پانچ برس پہلے عمران خان نے حکومت بنائی تھی جو کہ آرام و سکون سے چل رہی تھی۔

اب سیاسی اخلاقیات کا یہ تقاضہ تھا کہ انہیں اپنے پانچ برس مکمل کرنے دیتے اور اگر عوام اس سے مایوس ہوتی تو عوام کو قائل کرتے اور اگلی حکومت اپنی بنا لیتے لیکن وہی پاکستان کی سیاست کہ کیوں دیکھیں ہم کسی کو اقتدار میں ایک تو ہو گئی یہ بات۔ اب دوسری صورت دیکھتے ہیں کہ پاکستان کو ان حالات سے بچانے کے لیے کون کیا کر سکتا تھا اگر عدم اعتماد کامیاب ہو گئی اور عمران حکومت کو جانا پڑا، اب بہتر یہ ہوتا کہ اپنی سیاسی سرگرمیوں کو جاری رکھتے ہوئے انہیں اگلے الیکشن میں ہرانے کی تیاری کرتے اور اگلے الیکشن کا انتظار کرتے۔

اور ایک اور ان دنوں میں ہونے والے انتہائی کام کی جانب اشارہ کرتا چلوں کہ یہ بات بالکل درست ہے کہ سیاستدان قانون سے بالاتر نہیں ہونا چاہیے اور قانون کی مکمل گرفت سیاستدان پہ بھی ہونی چاہیے۔ لیکن پی ڈی ایم کی حکومت آنے کے بعد کارکردگی دکھانے کی بجائے جس طرح سے سیاستدانوں کو اُٹھایا گیا اور انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا وہ بھی سراسر انتشار کی دعوت ہو سکتا ہے لیکن سوچے سمجھے بغیر یہ سب کیا گیا۔

گزشتہ دنوں عمران خان پہ قاتلانہ حملہ ہوا جس کے نتیجے میں چودہ افراد زخمی ہو گئے اور ایک بے چارہ تین بچوں کا باپ شہید ہو گیا۔ اور اس طرح اس سیاسی کشمکش کا عوام کو انتہائی نقصان ہو رہا ہے۔ اب دو مین سوالات ہماری عوام کے ذہنوں میں گردش کر رہے ہیں کہ کیا یہ حملہ سچا تھا یا جھوٹا؟ ان سوالات کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے سیاستدان مظلومیت کا وؤٹ بھی لیتے اور مخالفین کو مروانے کا بھی رواج ہے ہمارے ملک میں۔

اب دیکھتے ہیں کہ اگر یہ حملہ حقیقی ہے تو کرنے والا کون ہو سکتا ہے؟ یہ حملہ پارٹی کے باہر سے بھی ہو سکتا ہے اور پارٹی کے اندر سے بھی اور تیسری صورت یہ ہے کہ یہ حملہ ملک دشمن عناصر کی جانب سے ملک میں انتشار پھیلانے کے لیے بھی کر سکتے ہیں۔ اب یہ تو صرف اور صرف شفاف تحقیقات سے ہی واضح ہو سکتا ہے جو کہ ہونا اس ملک میں تقریباً ناممکن ہے۔

ہمیں ملک میں سیاست کو ایڈوانس کرنے کی ضرورت ہے جس کے لیے ہمیں بہت سی چیزوں کو تبدیل کرنا ہو گا تاکہ ہمارے سیاستدان ملک کے لیے کچھ نیا کریں کیونکہ سیاست وہ پیشہ ہے جو ملک کی ترقی، ملک کی عزت اور ملک کی بقاء سب کا ضامن ہے۔ اس نیک کام کے لیے ہمیں سب سے پہلے تو ضرورت اپنے مخالفین کو سیاست اور اقتدار میں برداشت کرنے کی ہے کیونکہ ہم مخالفین کو اقتدار اور طاقت میں برداشت نہیں کر پاتے اور ملک میں انتشار پھیلانے اور مخالفین کو دبانے کے بہانے ڈھونڈنے لگتے ہیں۔ اگر ہمارے ملک میں نئے سیاستدان پیدا ہوں گے تو ہمارا ملک ترقی کرے گا۔

دوسرا کام احتساب کا ہے جو ہمیں بہتر کرنا ہے۔ ہمارے بہت سے سیاستدان کرپشن کرتے ہیں، ملک کو نقصان پہنچاتے ہیں اور پھر مظلومیت کارڈ کھلتے ہیں اور خود پر قوم کا ظلم ظاہر کرتے ہوئے قید کو اپنا کارنامہ اور قربانی ظاہر کرتے ہیں۔ ہمیں اپنے احتساب کے نظام کو بھی مضبوط کرنا ہو گا جس میں پراسیکیوشن ڈیپارٹمنٹ اور عدلیہ کا نظام آتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ہمیں کرپشن پکڑنے کے لیے ایجنسیوں کو بھی بروے کار لانا چاہیے تاکہ کوئی بے قصور ذلیل نہ ہو اور کوئی مجرم بچ نہ سکے۔

ہمیں اپنی سیاست کو اب درست کرنا ہی پڑے گا اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا ملک بھی اب ترقی کرے اور اگر ہم اسی ڈگر پہ چلتے رہے تو یہ نہ ہو کہ ہم ان سیاسی لڑائیوں میں اپنا عظیم ملک کھو دیں۔

Check Also

Muhabbat Aur Biyah (1)

By Mojahid Mirza