Do Qanoon Aik Riyasat
دو قانون ایک ریاست
مملکتِ خداداد پاکستان ایک نظریہ کے تحت وجود میں آیا اور وہ نظریہ اسلامی ریاست قائم کرنے کا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کا مطلب کیا لا الااللہ کا نعرہ لگایا گیا۔ لیکن آج اگر نظر ڈالی جائے تو اسلامی ریاست کے کوئی آثار نظر نہیں آتے پاکستان میں اور اِس کی وجہ یہ ہے کہ اسلامی ریاست کا سب سے اول اصول انصاف ہوتا ہے اور پاکستان میں انصاف کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں۔ پاکستان کے انصاف کو اگر پرکھا جائے تو یہاں دو قانون نظر آتے ہیں ایک بااثر اور دوسرا بے اثر کے لیے، ایک امیر اور ایک غریب کے لیے۔ یہاں پر ظالم کو مظلوم بنا کر قانون سے بری کر دیا جاتا ہے اور اِس طرح مظلوم پر اور زیادہ ظلم کیا جاتا ہے۔
یہاں وڈیرے راج کرتے ہیں اور غریب اُن کے راج تلے کچلے جاتے ہیں۔ یہاں راست کے اندر ریاستیں قائم کی جاتی ہیں۔ وڈیروں کے ڈیرے ایک سلطنت کی مانند ہوتے ہیں جہاں پر وڈیرا ایک بادشاہ وقت اور شہنشاہِ زمانہ کی طرح جو چاہے اپنے مزارعوں پر حکم صادر کر دیتا ہے۔ یہاں جرگے منعقد کیے جاتے ہیں جہاں بااثر افراد کے حکم پر اُن کی مرضی کی سزائیں سنائی جاتی ہیں اور کبھی کسی غریب مزدور کو کوڑے مارے جاتے ہیں اور کبھی منہ پر سیاہی لگا کے گدھے پر بیٹھا کر پورے گاوں میں گھمایا جاتا ہے۔ کبھی کسی غریب کی بیٹی کی کسی وڈیرے کے حکم پر اسمت دری کی جاتی ہے اور کبھی غریب کی نو دس سال کی بیٹی کو کسی اسی سال کے شخص کے ساتھ شادی کرنے کا حکم صادر کیا جاتا ہے۔
یہ تو تھی دیہاتوں کے چھوٹے وڈیروں کے ظلم جو اِس اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کیے جاتے ہیں۔ اب کچھ بات کر لیتے ہیں ملک کی بڑے چوروں کی۔ جنہوں نے بغیر کسی روک تھام کے لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ ملکِ خداداد پاکستان میں کرپشن عام ہے رشوت سے پاک یہ ملک قطعاً نہیں ہے کوئی شک نہیں کہ یہاں پر کسی دفتر میں چھوٹے کلرک سے لے کر بیوروکریسی تک سب کے سب کرپشن میں ڈوبے ہوئے ہیں لیکن اگر ایک کلرک پیسے وصول کر رہا ہے تو اُس کے پشت پر کسی افسرِ اعلیٰ کا ہاتھ ضرور ہے۔ لیکن یہاں پر دو قانون کیسے ہیں کیونکہ غریب بھی رشوت لے رہا ہے اور بااختیار بھی اب میں بتاتا ہوں کہ کیسے دو قانون ہیں۔
ایک کلرک اگر رشوت لیتا ہے تو وہ سراسر افسر کی مدد اور اُس کی مرضی سے لیتا ہے لیکن جب قانون حرکت میں آتا ہے تو صرف غریب کلرک کو اپنے پنجوں میں جکڑ لیتا ہے اور اُس غریب سے سب کچھ چھین لیا جاتا ہے جوکہ بہت ضروری ہے تاکہ کرپشن کا خاتمہ ہو سکے لیکن لمحہ فکریہ یہ ہے کہ جو اُس کی سربراہی کرنے والا ہوتا ہے اور جو کرپشن کی جڑھ ہوتی ہے یعنی افسر باآسانی بچ نکلتا ہے۔
یہی حال پاکستان کے حکمرانوں اور سیاستدانوں کا بھی ہے بڑے پیمانے پر کرپشن ہوتی ہے اور سب حکمران کرتے آئے ہیں پاکستان میں لیکن یہ حکمران باآسانی بچ نکلتے ہیں جو کروڑوں اربوں کی چوری کرتے ہیں اور ایک غریب جوکہ پانچ دس ہزار کی چوری کر لیتا ہے اُسے سالہاسال ذلیل و خوار کیا جاتا ہے اور بیچارے کی تمام جمع پونجی انہی کیسوں میں لگ جاتی ہے اور مقروض ہو جاتا ہے اِس کے برعکس ایک حکمران کروڑوں اربوں کی چوری کے باوجود بچ جاتے ہیں۔
ہمیں بطورِ مملکت اِس بات پر سوچنا ہو گا کہ اِس اسلامی جمہوریہ پاکستان میں دو قانون کیوں ہیں۔ اوپر کی گئی باتوں میں مجرم ہونے کے باوجود غریب کو مظلوم اِس لیے نہیں کہا گیا کہ اُسے جرم کی سزا دی جاتی ہے بلکہ اِس لیے کہا گیا کہ اُسے تو سزا دی جاتی ہے لیکن طاقتور کو کیوں نہیں دی جاتی اور میرا مطالبہ یہ نہیں کہ کمزور کو بھی چھوڑ دیا جائے بلکہ طاقتور کو بھی کمزور کے شانہ بشانہ قانون کے کٹہرے تک لانے کا مطالبہ ہے جوکہ ہر محب وطن پاکستانی کو یہ مطالبہ کرنا چاہیے۔