Afghanistan Ki Geedar Bhabhkian
افغانستان کی گیدڑ بھبھکیاں
افغان فورسز نے پاکستان میں بارڈر پار سے فائرنگ کی جس سے ہمارا بہت جانی نقصان ہوا اور جذباتی نقصان بھی پہنچا۔ یہ تو گزشتہ دنوں کی بات ہے بات کا آغاز تو بہت عرصہ قبل ہو چکا تھا۔ اس کالم میں ہم افغان پاکستان تعلقات کو روز اول سے آج تک دیکھیں گے اور مستقبل میں ہمیں اپنی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے کیا کرنا چاہیے وہ بھی دیکھیں گے۔
چودہ اگست 1947ء کی بات ہے کہ جب پاکستان کا قیام ہوا تھا۔ پاکستان کو تسلیم کرنے والوں میں سب سے پہلا نمبر ایران کا تھا اور افغانستان ان ممالک میں تھا جس نے پاکستان کو تسلیم نہیں کیا۔ اور اس دن سے لے کر آج دونوں ممالک کے درمیان ایک خلا رہا ہے جو دونوں کے درمیان سرد مہری پیدا کرتا رہا ہے۔ لیکن پاکستان اس خلا کو ختم کرنے کے لیے جتنی بھی کوشش کر سکتا تھا کی لیکن افغانی ہمیشہ پاکستان سے دشمنی کرتے رہے پاکستان کی کسی نیکی کا ان پر اثر نہ ہوا۔
یہاں پر میں ایک چھوٹا سا واقعہ، جو چند دن پہلے کا ہے، آپ کی نظر پیش کرتا چلوں کہ ایک سکول میں ایک دوسری تیسری جماعت کا افغانی بچہ اپنے ساتھی پاکستانی طالب علموں سے پاکستان اور پاکستان کے پرچم کے بارے میں اول فول بکتے دیکھا جوکہ پاکستان اور پاکستانی پرچم کے بارے میں ناقابلِ برداشت گفتگو کر رہا تھا۔
اس سکول کی انتظامیہ کی جانب سے اس بچے کو تو سمجھا دیا گیا لیکن یہ واقعہ سن کر آپ کو افغانیوں کے اندر کا خناس بھی اچھی طرح سمجھ آ گیا ہوگا کہ ایک بچہ جو پاکستان میں پیدا ہوا، پاکستان میں بڑا ہو رہا ہے اور پاکستان کے ایک سکول میں پڑھ رہا ہے وہ اگر ایسی بات کر سکتا ہے تو کسی اور افغانی کے بارے میں آپ سوچ سکتے ہیں۔
پہلے بات کر لیتے ہیں کہ افغانستان ایک مسلمان ملک ہے اور پاکستان کا ہمسایہ ہے لیکن پھر بھی پاکستان کے ساتھ دشمنی کو ترجیح کیوں دیتا ہے؟ پاکستان کے قیام کے فوری بعد سے ہی افغانستان کو پاکستان کا وجود نہیں بھایا اس کی ایک سب سے بڑی وجہ ڈیورنڈ لائین ہے جس کی وجہ سے افغانستان نے پاکستان کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے کسی بھی اچھے قدم کا ان پر اثر نہیں ہوتا۔
کیا افغانی واقعی ہمارے ملک کے لیے خطرہ ہیں؟ اس پر میں یہ کہوں گا کہ افغانستان پر پاکستان کی جانب سے کیے گئے احسانوں کے باوجود اگر افغانی اس قدر گھٹیا حرکت کر سکتے ہیں تو وہ ہمارے لیے خطرہ ہیں ہمیں اس میں کوئی شک نہیں ہونا چاہیے۔ ہاں لیکن ہمیں انہیں اپنے لیے خطرہ جانتے ہوئے ہر قدم اُٹھانا چاہیے بلکہ ہمیں انہیں اپنا دشمن سمجھنا چاہیے کیونکہ کوئی دوست اس طرح کا کارنامہ نہیں کرتا۔
اب اس کے بعد تو ایک ہی سوال اُٹھتا ہے کہ افغانستان کو اپنی حد میں کیسے رکھا جائے۔ اس کے لیے میں چند تجاویز دینا چاہتا ہوں۔ سب سے پہلے تو ایک آسان حل ہے کہ بارڈر مینجمنٹ کو بہتر بنایا جائے تاکہ اس طرح کی بزدلانہ حرکتوں پر قابو پایا جائے۔ بارڈر مینجمنٹ کے لیے سب سے پہلے تو اپنی باڑ کو مکمل کریں جس کے لیے درجنوں اہلکاروں نے اپنی جانیں قربان کی ہیں۔ اور پھر افغان بارڈر پہ تجارت کو مانیٹر کیا جائے تاکہ ملک کا اندرونی امن و امان بھی قائم رہے۔
افغان مہاجرین 4 دہائیوں سے ہمارے ملک میں قیام پزیر ہیں۔ ہمارے وسائل استعمال کر رہے ہیں۔ ہماری خوراک، ہمارا روزگار حتہ کہ ہماری گھاس بھی یہ لوگ کھا چکے ہیں تو کیا ان پر مزید نیکی کرنی چاہیے؟ نہیں۔
پہلی بات تو یہ کہ ان مہاجرین کو اب اپنے ملک میں واپس بھیجنا چاہیے اور اگر ایسا نہ بھی کریں تو بھی ایک صورت ہے کہ ہم افغانیوں کی یہاں رہائش اور حرکات کو کنٹرول کر سکیں اور وہ یہ ہے کہ کسی بھی ملک میں کوئی غیر ملکی اتنی آسانی سے کاروبار اور جائیداد نہیں بنا سکتا لیکن اگر افغانیوں کو دیکھا جائے تو انہوں نے پاکستان میں پاکستانیوں سے زیادہ جائیدادیں بنا رکھی ہیں۔
میں اگر اپنے ارد گرد چند افغان خاندانوں کی بات کروں جنہیں میں نے دیکھ رکھا ہے تو انہوں نے بیس بیس کنال شہری اراضی پہ اپنے مسکن بنا رکھے ہیں اور کروڑوں کے کاروبار بنا رکھے ہیں پاکستان میں جبکہ انہی کے ارد گرد کئی پاکستانیوں کو دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں۔ اور جو پاکستانی اچھا کھا پی رہے ہیں وہ چند مرلے کے مکان میں اپنا مسکن بنائے بیٹھے ہیں جسے انہوں نے اپنا پیٹ کاٹ کے بنایا ہے۔
اسی طرح میں نے ان افغانیوں کو یہاں پر کھلے عام غنڈہ گردی کرتے بھی پایا اور ان کے پیسے، جو یقیناً دو نمبریوں سے حاصل کیا ہوگا، کی وجہ سے انہیں کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔ اس کا حل کیا ہے؟
مجھے سب سے مناسب حل اس صورتِ حال کو قابو کرنے کے لیے لگتا ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان میں کاروبار قائم کرنے یا پرانے کاروبار پہ بھی افغانیوں پہ ٹیکس لگایا جائے اس سے پاکستان کے خزانے کو بھی فائدہ ملے گا اور افغان کاروبار بھی یہاں پہ کنٹرول ہو جائے گا۔ اس کے علاوہ ان پر جائیداد خریدنے کی بھی حد مقرر کی جائے اور جو یہ حد عبور کر چکے ہیں ان کی فالتو جائیداد ضبط کر کے وہاں سرکاری عمارات بنا دی جائیں۔
کیا جو میں نے بولا وہ آسانی سے ہو سکتا ہے؟ ہاں اگر ہمارا ملک واقعی ایک خودمختار ریاست ہے تو یہ سب ہو سکتا ہے۔ لیکن بات یہ ہے کہ ہمارے ملک میں ریکارڈ ہی سہی نہیں ہے۔ ہمارے لیے افغانیوں کا ڈیٹا یکجا کرنا ہی کافی دشوار ہوگا کیونکہ بہت سے افغان شہریوں نے اپنے شناختی کارڈ پر شناختی پتہ پاکستان کے کسی نہ کسی شہر کا لکھوا رکھا ہے۔ ہمیں اپنے نادرا ریکارڈ کو پہلے درست کرنا ہوگا اس کے بعد ہمیں یہ سب کرنا ہوگا۔
کیا یہ سب کرنا اب ناگزیر ہے؟ ہاں۔ کیونکہ آپ جانتے ہیں کہ افغانستان کس قدر نیچ حرکات کر رہا ہے اور اب اگر ہم نے اب ان کاروائیوں کا جواب نہ دیا تو ہمیں پچھتانا پڑئے گا۔ ویسے تو اس وقت ہمارے تعلقات ایران کے ساتھ بھی درست نہیں پر اس کے قصور وار ہم خود ہیں لیکن جب کوئی ملک اس حد تک بڑھ چکا ہو کہ وہ آپ کے ملک کے شہریوں کو کھلے عام نشانہ بنائے تو جواب لازمی ہو جاتا ہے۔ اب ہمیں سیاسی اور سفارتی جواب دینا ہوگا اگر ہم نے نہ دیا تو کل ہمیں پھر آپریشن سوفٹ ری ٹارٹ جیسا جواب دینا پڑ سکتا ہے اور پھر بات اُس سے بھی آگے بڑھ سکتی ہے اس لیے بہتر ہے کہ ہم ابھی سے ہی سمجھ جائیں۔
افغانستان کو پاکستان نے ہمیشہ ایک اچھے ہمسائے کے طور پہ برتاؤ کیا لیکن افغانستان نے ہمیشہ اس کا جواب منفی دیا جسے اب پاکستان کو بھی سمجھنا ہوگا اگر اپنی سلامتی چاہتے ہیں تو افغانیوں کو غیر ملکی تصور کیا جائے اور ان کی حرکات و سکنات کو ایک غیر ملکی کی طرح محدود کیا جائے۔