Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Raheel Moavia
  4. Tere Upar Tere Jaise Hukumat Kyun Nahi Karte

Tere Upar Tere Jaise Hukumat Kyun Nahi Karte

تیرے اوپر تیرے جیسے حکومت کیوں نہیں کرتے

اس وقت ملک عزیز پاکستان کو شدید ترین معاشی مشکلات کا سامنا ہے۔ حکومت نے پٹرولیم مصنوعات، آٹا، گھی، بجلی و دیگر اشیاء کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ کرکے ان کو سخت فیصلے قرار دے دیا ہے۔

یہ درست ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ گذشتہ حکومت نے انہی تمام شرائط پر معاہدہ کیا تھا کہ جس کو اب یہ موجودہ حکومت پورا کررہی ہے۔

23 نومبر 2021 کے تمام اخبارات کے مطابق شوکت ترین مشیر خزانہ (جنہیں بعد میں سینیٹر بنا کر وزیر خزانہ بنایا گیا) نے کہا کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ 5 شرائط پر ہوا ہے۔

1 پٹرولیم لیوی پر ماہانہ 4 روپے اضافہ ہوگا۔

2 جی ایس ٹی پر استثنی ختم ہوگا۔

3 اسٹیٹ بینک قانون میں ترمیم کی جائے گی۔

4 کورونا فنڈز کی آڈٹ رپورٹ تیار کرکے پیش کی جائے گی۔

5 بجلی کی بنیادی قیمت میں اضافہ کرنا ہوگا۔

اس معاہدے کے چند ہی روز بعد اسٹیٹ بینک کے قانون میں ترمیم کی گئی۔ ترقیاتی بجٹ میں 200 ارب روپے کی کٹوتی کی گئی۔ جی ایس ٹی کا استثنی ختم کیا۔

پھر عمران خان صاحب کو یقین ہوگیا کہ اب اسے ہٹا دیا جائے گا تو انہوں نے اس معاہدے پر عمل درآمد روک دیا اور وقتی طور پر مہنگائی کو قابو رکھنے کے لیے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں منجمند کردیں۔ کل ایک پروگرام میں شیخ رشید احمد صاحب نے بھی اس بات کی تائید کی۔

نئی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد غریب عوام پر جو زندگی تنگ ہوئی ہے اس کا مداوا بس یہ نہیں ہے کہ دن رات کہہ دیا جائے کہ یہ تو پچھلی حکومت کی بچھائی ہوئی بارودی سرنگیں ہیں۔ اگر یہی کہنا تھا تو ان سرنگوں سے انہیں ہی نمٹنے دیا جاتا آپ نے یہاں چل کر اپنی سیاسی خودکشی کرنے کا فیصلہ کیوں کیا؟ یہ کام تو گذشتہ 4 سال عمران خان آپ سے بہتر طریقے سے کررہا تھا کہ ملک کے سخت ترین حالات کی ذمہ دار گذشتہ حکومتیں ہیں۔

آپ عوام کے لیے سخت فیصلے صادر فرما کر اپنے کندھے تو اچکا چکے ہیں لیکن اپنے اردگرد نظر کیوں نہیں دھراتے کہ جو ایک مقروض قوم کے پیسوں پر بادشاہوں جیسی زندگی بسر کر کے غریب مقروض اور بدحال قوم کے خون پسینہ کی کمائی ہواؤں میں اڑا رہے ہیں۔

جب سارا دن محنت مزدوری کرنے والا ایک غریب انسان اپنے بچوں کی فیس، بجلی کا بل، اپنے گھر کا کرایہ، آنے جانے کا خرچہ، اپنی ادویات کا بوجھ سمیت سارے اخراجات اپنی معمولی سی آمدنی کے ساتھ برداشت کرسکتا ہے تو پھر لاکھوں کی تنخواہیں لینے والے یہ سارا بوجھ دوبارہ سے ملکی خزانے پر کیوں ڈال دیتے ہیں۔۔

سپر پاور کہلانے والے ملک امریکہ کے صدر کا صدارتی ہاؤس ہمارے کمشنر سرگودھا کے محل سے محض چند کنال بڑا ہے۔ ہمارے لاہور کا گورنر ہاؤس امریکی صدر کے وائٹ ہاؤس سے بھی بڑا ہے۔

برطانیہ سمیت تمام ترقی یافتہ ممالک کے وزیراعظم کو اتنی عیاشی میسر نہیں ہوتی جتنی ہمارے ایک ضلع کے ڈپٹی کمشنر یا ڈی پی او کو ہوتی ہے۔ وہاں وزیر اعظم سے لے کر چیف کمشنر تک سب دو سے چار کمروں کے فلیٹ میں رہ لیں گے لیکن یہاں 10 کنال سے کم تو کسی ضلعی افسر کا مکان نہیں ملے گا۔

کمشنر سرگودھا کا محل 104 کنال ہے اور اس کی نگہداشت کے لیے 33 ملازمین ہیں۔ ڈی سی میانوالی کی کوٹھی صرف 95 کنال پر ہے اس کے علاوہ اسی شہر میں ایس ایس پی میانوالی صرف 70 کنال میں رہتے ہیں۔ ایس ایس پی ساہیوال کی جھونپڑی محض 98 کنال پر ہے۔ ڈی سی فیصل آباد صرف 92 کنال کے گھر میں رہائش پزیر ہیں۔ ڈی آئی جی گوجرانولہ کا گھر 70 کنال پر ہے۔ ان شہنشاہوں کی سب سے چھوٹی رہائش گاہ بھی 10 کنال سے کم نہیں ملے گی۔

2606 کنال پر صرف ان بابو صاحبان کی جھونپڑیاں ہیں جن کی نگہداشت کے لیے صرف 30 ہزار ملازمین ہیں۔ ان بابو صاحبان کے اتنے بڑے بڑے محلات کو بجلی، گیس، سکیورٹی اور روشن پانی کی فراہمی کا بوجھ اس کے علاوہ ہے اور ان کے لیے ہر سال نئی گاڑیوں کا انتظام بھی اسی مقروض قوم کے پیسوں سے ہوتا ہے۔

صرف ان محلات کی دیکھ بھال اور تزئین و آرائش پر 80 کروڑ روپے خرچ ہوتے ہیں۔ یہ لاہور کے تین بڑے ہسپتالوں کے بجٹ کے برابر ہے جہاں پر سارا پنجاب علاج کروانے کے لیے آتا ہے۔ صرف محکمہ بجلی کے ملازمین کو سالانہ 39 کروڑ 10 لاکھ یونٹس کی بجلی مفت فراہم کی جاتی ہے۔ یہ صرف ایک محکمے کا حال ہے باقی آپ خود اندازہ کرلیں۔

سوال یہ ہے کہ جہاں اس ملک کو اپنے خون پسینے سے چلانے والا مزدور اپنی بنیادی انسانی ضروریات کو ترستے ترستے زندگی گزار دیتا ہے وہاں اس مزدور کے آئینی اور قانونی لحاظ سے نوکروں کو یہ زیب دیتا ہے کہ وہ اس کی کمائی سے یوں بادشاہوں والی زندگیاں گزاریں اور عیاشیاں کریں؟

پٹرول کی قیمتیں بڑھا بڑھا کر سخت فیصلوں کے بوجھ تلے اسی بیچارے کو دھنسایا جارہا ہے لیکن کسی میں ہمت ہے کہ یہ بتا سکے کہ کتنے سرکاری افسران کی بیویاں، بچے اور ان کے ماتحت ملازمین سرکاری گاڑیوں پر قبضہ جمائے بیٹھے ہیں کہ جس میں تیل نہیں اس ملک کے غریب کا خون جلتا ہے۔

آپ کسی بڑے سکول کالج اور یونیورسٹی کے باہر کھڑے ہوجائیں، وہاں سرکاری عہدوں پر براجمان لوگوں کے بچوں کو پک اینڈ ڈراپ کی سہولیات سبز نمبر پلیٹ والی گاڑیاں دیتی نظر آئیں گی۔ ان کے گھروں میں سبزیاں لانے اور کوڑا پھینکنے کے لیے بھی ریاستی مشنری کھڑی نظر آئے گی۔

برطانیہ نے جب برصغیر سے اپنی بیوروکریسی کو واپس بلایا تو انہوں نے ان افسران کو اپنے ملک میں دوبارہ عوامی عہدوں پر تعینات کرنے کے قابل نہیں سمجھا کیوں کہ ان کے مزاج میں ایک غلام قوم پر حکم چلا چلا کر رعونت آچکی تھی۔ ہمارا حوصلہ ہے کہ ہم نے ایک غلام قوم کے لیے بنائے گئے انہی کے نظام کو آج تک سینے سے لگا رکھا ہے۔

1956 میں ہم نے آئین تو بنا لیا لیکن قوانین وہی رائج رکھے جو انگریز نے 1856 کی جنگ آزادی کی ناکامی کے بعد ایک باغی قوم کو تابع رکھنے کے لیے بنائے تھے۔ ہمارے ہاں آج تک بیوروکریسی کے کام کرنے کا وہی نظام رائج ہے۔

ہم نے 1973 میں دوسرا آئین بھی بنایا لیکن قوانین اس میں بھی وہی پرانے نافذ کیے۔ آج بھی ہمارے ہاں 1861 کا پولیس ایکٹ جبکہ 1860 کا فوجداری ایکٹ نافذ ہے۔

زیادہ تر قوانین کی عمر 200 سال سے پرانی ہورہی ہے اور ہم قانون سازی کے لیے بنائی گئی اسمبلی کا اجلاس بلاکر قوم کا ایک دن میں 4 کروڑ روپیہ لگا دیتے ہیں (چاہے وہ اجلاس کورم پورا نا ہونے یا کچھ لوگوں کی طبع نازک پر کچھ گراں گزرنے کی وجہ سے ملتوی ہی کرنا پڑے) اور اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہوجاتے ہیں۔

اے میرے دیس کے لوگو! شکایت کیوں نہیں کرتے

تم اتنے ظلم سہتے ہو، بغاوت کیوں نہیں کرتے

یہ جاگیروں کے مالک، لٹیرے کیوں چنے تم نے

تیرے اوپر تیرے جیسے، حکومت کیوں نہیں کرتے

یہ بھوک، افلاس، تنگدستی، تمھارا ہی مقدر کیوں

مقدر کو بدلنے کی جسارت کیوں نہیں کرتے

میرے منصف تمھارے فیصلوں سے مجھے کیا حاصل

جو میرا کیس ہے تم اس کی سماعت کیوں نہیں کرتے

اگر تسلیم کرتے ہو، میری باتیں مدلل ہیں

تو پھر تم میرے موقف کی حمایت کیوں نہیں کرتے

Check Also

Khadim Hussain Rizvi

By Muhammad Zeashan Butt