Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Raheel Moavia
  4. Nazariyat Nahi Bas Mafadat

Nazariyat Nahi Bas Mafadat

نظریات نہیں بس مفادات

پاکستان کی معاشی حالت انتہائی تشویش ناک ہے۔ پاکستان ڈیفالٹ رسک کی لسٹ میں چوتھے نمبر پر موجود ہے۔ ڈیفالٹ کر جانے کے خطرات سروں پر منڈلا رہے ہیں۔ ڈالر کی اونچی اڑان نے اپنی رفتار پہلے سے بھی زیادہ تیز کرلی ہے۔ روپیہ دن بدن گراوٹ کا شکار ہے۔ ڈالر کی قیمت میں جتنا مہینے بعد اضافہ ہوتا تھا، اتنا اب روزانہ ہو رہا ہے۔ یہ صرف روپیہ نہیں گر رہا میرا ملک گر رہا ہے۔ ملک میں مہنگائی تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔

حکومت کے بقول اس وقت زہر تک کھانے کے لیے پیسے نہیں ہیں۔ لیکن بیوروکریسی کی بنیادی تنخواہوں اور مراعات میں بجٹ کے اندر شاندار اضافے کے باوجود پرسوں وفاقی بیوروکریسی کے افسران کی بنیادی تنخواہوں میں الاوئنس کے نام پر مزید 150 فیصد اضافہ کرکے لٹانے کے لیے خزانہ موجود ہے۔ غریب لوگوں کے دو وقت کی روٹی میں بچے چند نوالے اور تن سے کپڑے تک چھیننے کو سخت فیصلے قرار دینے والے اشرافیہ۔

اور بیوروکریسی کے لیے خزانے کا منہ کھولتے وقت حاتم طائی بنے ہوئے ہیں۔ جس اشرافیہ نے پہلے ملک کے تمام وسائل پر قبضہ جما رکھا ہے۔ ان کے منہ سے بچ کر نکل آنے والے چند قطرے بھی عوام سے چھین کر دوبارہ واپس انہی کے منہ میں ڈالنے کا یہ حکومت نہایت تابعداری سے فریضہ سرانجام دے رہی ہے۔ حالیہ ضمنی انتخابات میں عوام نے مسلم لیگ ن کی تضادات سے بھری سیاست کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔

نواز شریف کو اقتدار سے نکالے جانے کے بعد مسلم لیگ ن نے"ووٹ کو عزت دو" اور "مجھے کیوں نکالا" کے نام پر ملک بھر کے لوگوں کو تاثر دیا گیا کہ مسلم لیگ ن نے ماضی کی تمام غلطیوں سے سبق سیکھ لیا ہے، اور اب یہ نا تو کسی غیر جمہوری قوت کے ہاتھوں استعمال ہو گی۔ نا لوٹوں کی سیاست کرے گی۔ نا چور دروازوں سے آنے کی کوشش کرے گی۔ نا عوام کے فیصلے بند کمروں میں بیٹھ کر کرنے کی حمایت کرے گی۔

اور نا جمہوری روایات کے خلاف کوئی کام کرے گی۔ آئین کی بالادستی کے لیے ہی سیاست ہو گی، چاہے دس سال اقتدار نا ملے۔ کیوں کہ اب وہ سیاست پاکستان کی اگلی نسل کے لیے کر رہے ہیں اقتدار کے لیے نہیں کیونکہ اقتدار تو انہوں نے کئی دفعہ دیکھ لیا ہے۔ لوٹوں کے متعلق یہ پالیسی دی گئی کہ لوٹوں کو کسی صورت قبول نہیں کریں گے۔ کیونکہ اب ہم نے ملکی سیاست سے تمام گندگیوں کا خاتمہ کرنا ہے۔

لیکن محض ڈیڈھ سال کے اقتدار کے لیے تمام اصول، تمام ظابطے اور تمام نظریے بھلا کر لوٹوں کو قبول کر لیا گیا۔ مزید لوٹے بھی بنا لیے گئے۔ بند کمروں میں عوام کے فیصلے بھی کر لیے گئے اور ایسے تمام نظریات سے مسلم لیگ ن نے انحراف کرلیا۔ جب اپنے ہی بنائے گئے سارے ضابطے توڑ کر اقتدار لے لیا۔ عوام کو بتایا کہ مہنگائی کے درد نے ہمیں رات کو سونے نہیں دیا۔

اس لیے ہم نے مجبوراً اس حکومت کو مدت پوری کیے بغیر ہی گھر بھیج دیا ہے اور پھر خود مہنگائی کی وہ مار ماری کے غریب کی کمر لال و لال کر دی۔ انقلابی اور جمہوریت پسند ہونے کا دعوے کر کے راستہ خود بھی وہی چنا جس پر عمران خان نے اقتدار حاصل کیا تھا۔ تو پھر عوام نے بھی ضمنی انتخابات میں وہ کر دیا کہ جس کا خود عمران خان سمیت کسی کو بھی یقین نہیں تھا۔

چار ماہ پہلے تک عمران خان کی مقبولیت پہلے سے بھی بہت کم ہوچکی تھی۔ بیگانے تو بیگانے اپنے بھی مہنگائی اور دیگر مسائل کی وجہ سے عمران حکومت کا دفاع کرنے سے قاصر تھے اور سخت مایوس ہوچکے تھے۔ عمران خان آئی ایم ایف سے قسط لینے کے بعد ان کے ساتھ ہونے والے معاہدے کی کھل کر اور مکمل خلاف ورزی کرچکا تھا۔ اگلے چند ماہ کے بعد ملک چلانے کے لیے پیسے نہیں تھے اور عمران خان کو آئی ایم ایف سے مزید کوئی قرض ملنے کی امید نہیں تھی۔

سیاسی طور پر 70 فیصد مرجھایا ہوا درخت اب لانے والوں کے کسی کام کا نہیں تھا۔ اب کوئی تو ایسا درکار تھا، جو آئی ایم ایف سے مذاکرات کرکے کسی نا کسی طرح قرض حاصل کرلیتا۔ مسلم لیگ ن ذاتی کیسز اور چند تقرریوں کے خوف اور اقتدار کی ہوس کا شکار ہوگئی اور چند ماہ کا اقتدار حاصل کرکے اپنی سیاسی تباہی کا اپنے ہاتھوں سے انتظام کرلیا۔

آج لاکھ کہیں کہ یہ ملک کے تباہ ہو جانے کے خوف نے ہمیں مجبور کیا ہے کہ ہم اقتدار سنبھالیں، لیکن اب اتنا سادہ کون ہے کہ ایسی باتوں میں آجائے؟ اگر ملک کی تباہی کا اتنا ہی احساس ہوتا تو اپنی آنکھوں کے سامنے مسلسل تین سال ملک کو تباہ ہوتے کیسے دیکھتے؟ اس کو تب بچانے کا انتظام کرتے جب تباہ ہونے سے کسی نا کسی حد تک روکا جاسکتا تھا۔

پنجاب میں حکومت سازی کے لیے تحریک انصاف اور ق لیگ کے پاس بظاہر سادہ اکثریت موجود ہے۔ لیکن اب ان کا شکوہ ہے کہ ہمارے اراکین کو خریدا جا رہا ہے اور اقلیت والی پارٹی اکثریت والوں کے مینڈیٹ کا احترام نہیں کررہی۔ لیکن ابھی کچھ سال پہلے 33 ارکین والوں نے 65 اراکین والوں کا چئیرمین سینیٹ نہیں بننے دیا تھا اور تب یہ عظیم کارنامہ زرداری صاحب نے عمران خان صاحب کے ساتھ مل کر سرانجام دیا تھا۔

جب بلوچستان میں مسلم لیگ ن کی حکومت کو گراکر نئی حکومت بنا دی گئی تھی، تب بھی زرداری صاحب نے عمران خان صاحب کے ساتھ مل کر یہ کارنامہ سرانجام دیا تھا۔ عمران خان صاحب کے ساتھ مل کر اقلیت کو اکثریت میں بدلنے والے زرداری صاحب کل مسلم لیگ ن کے خلاف یہ کارنامے سرانجام دے رہے تھے، تو آج مسلم لیگ ن کے ساتھ مل کر عمران خان کے خلاف سرانجام دے رہے ہیں۔

مسلم لیگ ن کل متاثر ہو رہی تھی تو اقلیت کو اکثریت میں بدلنے والے اس عمل کو غیر جمہوری اور گھٹیا قرار دینے کے ساتھ ساتھ زرداری اور عمران کا گٹھ جوڑ قرار دیتی تھی، لیکن عمران خان خوشی سے محفوظ ہوتے تھے۔ جبکہ عمران خان آج اس سے متاثر ہو رہے ہیں تو آج ماضی میں اپنائے جانے والے اپنے ہی طریقوں پر چیخ اور چلا رہے ہیں۔ لیکن مسلم لیگ ن محفوظ ہو رہی ہے۔

یہی عالم دھاندلی والے مسئلہ پر ہے۔ جب اقتدار میں آجاتے ہیں تو شفاف الیکشن اور بااصول سیاست کے مستقل حل کے لیے کسی صورت نہیں مانتے، لیکن جب اقتدار سے باہر ہو جاتے ہیں تو پھر دنیا جہاں کی جمہوری روایات، اصول، ضابطے اور دیانت داری کے گیت گاتے نظر آتے ہیں۔ ہمارے سیاست دان ہاتھی کے وہ دانت ہیں۔ جو کھانے کے اور دکھانے کے اور ہوتے ہیں۔

وزیراعلیٰ کی تنخواہ تو محض تین لاکھ 50 ہزار روپے ہے، پھر اس عہدے کے لیے کروڑوں روپے کیوں لگائے جاتے ہیں؟ یہ پیسے پورے کہاں سے کیے جاتے ہیں؟ تمام جماعتوں کے بقول کرپشن کے تو وہ پاس سے بھی نہیں گزرتیں، تو پھر یہ پیسے آتے کہاں سے ہیں؟

بقول شاعر

لگی ہے پھر صدا ایک بار کہ سردار بدلے گا

فرعونی سلطنت کا بس اک کردار بدلیگا

جس قوم کو خود پر جبر سہنے کی عادت ہو

وہاں کب کچھ بدلا ہے جو اس بار بدلے گا

Check Also

Kitabon Ka Safar

By Farnood Alam