Tamghon Ka Mosam
تمغوں کا موسم
پاکستان میں ہر ہوم آزادی پر پاکستانیوں کی مختلف شعبوں میں غیر معمولی کارکردگی پر ان کی صلاحیتوں کے مطابق تمغوں سے نوازا جاتا ہے۔ یہ دیکھ کر ہمارے جیسے عام عوام کے ذہنوں میں کبھی کبھی یہ خیال آتا ہے کہ آخر وہ کون لوگ ہیں جو ان انعامات کے حقدار ٹھہرتےہیں کیونکہ انعام حاصل کرنا ہم میں سے ہر ایک کی خواہش ہوتی ہے لیکن وائے قسمت کہ پوری ہونا مشکل ہوتی ہے۔ ایسے میں کچھ ایسے وسوسے بھی پیدا ہوتے ہیں کہ یہ انعامات دو وجوہات پر دیئے جاتے ہیں: غیر معمولی صلاحیت اور غیر معمولی تعلقات۔
دونوں ہی صورتوں میں صاحبان تمغہ بہر حال غیر معمولی ہی قرار پاتے ہیں اور ہم جیسے معمولی پاکستانی انہیں رشک بھری نظروں سے بس دیکھ ہی سکتے ہیں۔ ان شیطانی وسوسوں کو اکثر اس بات سے بھی تقویت ملتی ہے جب صاحب تمغہ کی تعلقات عامہ کی صلاحیت ڈنکے کی چوٹ خود عام عوام پر ظاہر ہو۔ ایسا نہیں کہ سب صاحبان تمغہ تعلقات عامہ پر انعام کے حقدار ٹھہرتے ہوں، ان میں ایک بڑی تعداد واقعی اپنی غیر معمولی صلاحیتوں کی بنیاد پر انعام پاتے ہیں اور دنیا بھر سے اس کی داد وصول کرتے ہیں۔
پچھترویں ہوم آزادی پر جن غیر معمولی اصحاب کو تمغوں سے نوازا گیا حسب سابق ہم کسی کو ذاتی حیثیت میں نہیں جانتے سوائے ایک ادیبہ کے جن کا نام محترمہ نیلم احمد بشیر صاحبہ ہے اور جو تمغے پانے والے اس گروہ سے تعلق رکھتی ہیں جہاں صلاحیت کا درجہ تعلقات سے بڑھ کر ہوتا ہے کہ انتھک محنت اور اپنے کام سے لگن کی بدولت ہی انہوں نے یہ غیر معمولی مقام حاصل کیا ہے۔
اردو اور پنجابی ادب میں ان کا نام جانا پہچانا ہےاور لوگ انہیں ایک ادیبہ کے طور خوب پہچانتے ہیں اس لئے ان کی تحریروں پر بات کرنا ادیبوں اور نقادوں پر چھوڑ دیں تو بہتر ہے۔ ہم تو ان کی ہمسائیگی کی بدولت انہیں جان سکے۔ یہاں ان کی شخصیت کے کچھ ایسے پہلوؤں پر بات ہوگی جو ان کی ہمسائیگی کی وجہ سے ہمارے علم میں آئے اور ہمیں معلوم ہوا کہ بے غرض محنت کی بدولت بھی پاکستان میں تمغہ جیتا جا سکتا ہے۔
نیلم صاحبہ پچھلے کئی برسوں سے سامنے والے گھر میں اکیلی رہتی ہیں لیکن کبھی یہ احساس نہیں ہوا کہ ایک اکیلی خاتون ہیں۔ لاہور کی شدید گرمیوں میں کچھ مہینوں کے لئے اپنے بچوں کے پاس جب امریکہ چلی جاتی ہیں تو پوری گلی ان کی کمی محسوس کرتی ہے۔ سردیوں کی نرم دھوپ میں اپنے ٹیرس پر بیٹھ کر کچھ لکھنے پڑھنے میں مشغول نظر آتیں نیلم صاحبہ گلی میں آنے جانے والوں سے سلام دعا کرنا نہیں بھولتیں۔ گلی میں آنے والے ریڑھی بان ہوں، صفائی کے لئے آنے والے خاکروب، ہم جیسے ہمسائے ہوں یا آنے جانے والے گھریلو ملازمین، سب ان کے یہاں خاص درجہ رکھتے ہیں۔
واقعی انسانوں کی قدر اور ان کا احترام ہی کسی کو اعلیٰ مقام سے نوازتا ہے اور اس انسان دوستی کی واضح جھلک ان کی کہانیوں اور نظموں میں نظر آتی ہے۔ ان کے ادب کا خاصہ سادہ انداز بیان ہے اور یہی سادگی ان کی شخصیت کا نمایاں حصہ ہے جس نے بہت سوں کو بشمول ناچیز کےبہت متاثر کیا ہے اور یہ ثابت ہوا کہ تمغے حاصل کرنے کے لئے کارکردگی کی جھلک شخصیت میں نظر آنا بہت ضروری ہے اور انہوں نے یہ مقامان دونوں کے امتزاج سے ہی حاصل کیا ہے جس کے لئے وہ اور باقی تمام صاحبان تمغہ مبارکباد کے مستحق ہیں۔
دنیا میں ایوارڈ یا تمغے دینے کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنا انسان۔ غیر معمولی صلاحیتوں کے حامل افراد کو مختلف قسم کے تمغوں اور انعامات سے نوازا جاتا رہا ہے۔ زمانہ قدیم میں یونانی جب کھیلوں کے مقابلے منعقد کرتےتو جیتنے والوں کو زیتون کے پتوں سے بنا تاج پہنایا جاتا۔ اس سادہ سے انعام کی مالیت سے زیادہ معاشرتی حیثیت ہوتی اور لینے والے کی عزت میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا۔ وقت گزرنے کے ساتھ تمغوں اور انعامات کی شکل اور حیثیت تبدیل ہوتی رہی اور آج بھی یہ انسانی معاشرے کا اہم حصہ ہے اور دنیا کے ہر آزاد ملک میں سرکاری سطح پر انعامات دینے کی روایت موجود ہے۔
پاکستان میں سرکاری انعامات کی روایت 1957 میں شروع ہوئی جس کے بعد سے یہ سلسلہ جاری وساری ہے۔ 1973 کے دستور میں ایک شق رکھی گئی جس کی رو سے عسکری اور سول اداروں میں غیر معمولی افراد کو ان کی کارکردگی کی بنیاد پر یوم آزادی پرتمغوں سے نوازا جاتا ہے۔ یہ انعامات اپنی حیثیت کے مطابق تمغہ، ستارہ، ہلال اور نشان کہلاتے ہیں۔ ان چار کے علاوہ صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی بھی ہے۔ ویسے ہم تو بچپن سے یہی پڑھتے آئے کہ عسکری اداروں میں بھرتی شدہ ہر شخص ہی غیر معمولی ہوتا ہے اور ان اداروں میں میں آتے ہی وہ شخص ایک عام پاکستانی سے بہت خاص بن جاتا ہے اور اسی بنا پر بڑے سے بڑے تمغے کا حقدار ٹھہرتا ہے۔ سول اداروں میں بہر حال ایسے نگینے ڈھونڈنے کے لئے سرکار کو سال بھر مشقت کرنی پڑتی ہے اور ایک کمیٹی کے ذریعے ایسے لوگوں کو ڈھونڈا جاتا ہے۔
دستور کی رو سے انعامات کی تمام تفصیلات پاکستان گزٹ میں درج ہیں۔ ان تفصیلات کے مطابق حقداروں کو تلاش کرنے کا کام کیبنٹ ڈویژن کرتا ہے۔ دیئے جانے والے تمغوں کی شکل اور ڈیزائن کیسا ہوگا، یہ بھی گزٹ میں درج ہے جس میں ربن کا رنگ، تمغے پر بنائی گئی اشکال اور درج عبارت سب کچھ تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔
اس یوم آزادی پر انعامات پانے والے تمام پاکستانیوں کو بہت مبارک ہو کہ اتنے مراحل سے گزرنے کے بعد انہیں ان کی خدمات کا صلہ ملا۔ عام پاکستانیوں کے لئے یہ مشورہ ہے کہ اپنی کارکردگی بڑھائیں اور دوسروں کے تمغوں پر نظر نہ رکھیں۔ شائد کبھی وہ بھی کیبنٹ ڈویژن کے راڈار پر آ جائیں۔