Hum Kis Gali Ja Rahe Hain
ہم کس گلی جا رہے ہیں
کہتے ہیں لاہور پاکستان کا دل ہےاور دل کو دھڑکتے رہنا چاہئے، لیکن کیا کیجئے کہ سیر لاہور کرتے ہوئے اکثر اپنے دل کی دھڑکنیں ہی قابو سے باہر ہو جاتی ہیں۔ کبھی بے ہنگم ٹریفک کی وجہ سے اور کھبی ایسے مناظر کی وجہ سے جو حیران و پریشان کر دیں۔ راجوں اور بادشاہوں نے اس شہر کی بصری خوبصورتی میں جو اضافہ کیا مملکت خداداد کے باسیوں نے اپنے عوامی انداز میں اسکا بصری تشخص ہی بدل ڈالا۔ کبھی اپنے باسیوں کے فن و ہنر کی وجہ سے جانا جانے والا یہ شہر اج کے فنونی اور جنونی مناظر کی وجہ سے ششدر ہے۔
کہاں خوبصورتی کے وہ معیار جو بادشاہی مسجد، وزیر خاں مسجد و باغات اور دیگر بے شمار عمارات کی شکل میں زندہ ہیں جو دیکھنے والوں کی جمالیاتی تسکین کا باعث ہوں اور کہاں آج کا لاہور جو بصری جمال سے تقریباً محروم ہو چکا ہے۔ لاہور میں گھومتے ہوئے یہ احساس ہواکہ ستر برس میں جو ان دیکھی تبدیلیاں پاکستان میں آئیں وہ اب ماشاءاللہ کھل کھلا کر دکھنی شروع ہو گئی ہیں۔ ان میں سے بعض تو ایسی ہیں جو سمجھنے کی نہ سمجھانے کی۔
مثال کے طور پر اگر آ پ کا ارادہ چڑیا گھر دیکھنے کا ہے اور آپ لارنس روڈ سے ہوتے ہوئے عقبی دروازے سے آ رہے ہیں توچڑیا گھر کی دیوار پر بہت سے جانور اور پرندوں کی تصاویر بنی نظر آ تی ہیں۔ مصوری کے یہ شاہکار دیکھ کر یقین جانئے آ نکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں۔ بہت غور کرنے کے بعد بھی ان چرند و پرند کی نسل کا اندازہ نہیں ہو پاتا۔ اب اگر ان تصاویر کا مقصد تعلیمی ہے تو یہ ہائبرڈ نسلیں دنیا میں کہیں نہیں پائی جاتیں لہذٰا دیکھتی آ نکھیں غوروفکر کرتے دکھنا شروع ہو جاتی ہیں۔ اوراگر ان کا مقصد پاکستانی مصوروں کی صلاحیتوں کا اعتراف کرنا ہے تو پیغام یہ جا رہا ہے کہ اب ہمارے مصور تصویر کشی کی صلاحیتوں سے محروم ہو چکے۔ ایسی اعلیٰ مصوری شہر میں جابجا وال پینٹنگ کے نام پر بکھری نظر آ تی ہے۔
میٹرو ٹریک کے نیچے ستونوں پر، سکول عمارات کے باہر، یا شہر کی بڑی شاہراہوں پر، سب فن کے نادر نمونوں سے مزئن نظر آ تی ہیں۔ ماڈل ٹاؤن جیسے خوبصورت علاقے میں دیواروں پر بنے شخصیات مقدسہ و غیر مقدسہ کی کارٹون نما تصاویر بنانے کا مقصد یا تو ان کے درجات تبدیل کرنا ہو سکتا ہے اور یا پھر مصوروں کی کارٹون بنانے کی صلاحیت اجاگر کرنا۔ تیسری کوئی وجہ ہمیں تو سمجھ نہیں آ رہی۔
ایک زمانہ تھا کہ قائد آعظم ہوں یا علامہ اقبال، ان کی تصاویر عوامی مقامات پر بہت سوچ سمجھ کر لگائی جاتی تھیں۔ قابل مصوروں کو انکی تصویر کشی کا کام دیا جاتا تھا جس کے لئے اچھی خاصی ریسرچ کی جاتی تھی۔ کیونکہ تصویر کا پیغام بہت دور تک جاتا ہے اور انسانی ذہن میں تادیر زندہ بھی رہتا ہے۔ آج یہ حال ہے کہ بچگانہ انداز میں بنائی گئی تصاویر اور مجسمے شہر میں بہت مقامات پر نظر آتے ہیں۔
اگر دلیل یہ دی جائے کہ آرٹ کے یہ نمونے بچوں نے بنائے ہیں تو اس نیک کام کے لئے عمارات کی اندرونی دیواریں استعمال ہو سکتی ہیں نہ کہ بیرونی دیواریں جو ہر دیکھنے والے کو ایک منفی پیغام بھی دیتی ہیں اور شہر کے بصری مناظر کو آ لودہ بھی کرتی ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ دیواروں پر تصویریں بنانا بچوں کے لئے ایک کارامد سرگرمی ہے لیکن اسے کرنے کے بہت سے طریقے ہو سکتے ہیں۔
سچ ہے پاکستانی کسی چیز کے پیچھے پڑ جائیں تو اس کا جوس اور جلوس دونوں نکال دیتے ہیں۔ تخلیقی زوال کی وجہ سے ہمارے شہروں میں سڑکوں کے نام ہوں یا مشاہیر کی تصاویر، سب میں محدودیت، تکرار اور تخلیقی کمی نظر آ تی ہے۔ آجکل ہاؤسنگ سوسائٹیوں کا بھی رواج چل نکلا ہےاور انکے مالکان تو ماشاءاللہ یہ کہ کر زمین بیچ رہے ہیں کہ وہ دنیا کے فلاں شہر کی مشہور عمارات کی نقل بنائیں گے۔ کیا پاکستانی ذہنوں میں نقالی کے علاوہ کوئی اور خیال نہیں آ رہا؟ اب تو یہ حال ہے کہ ایک ہی شہر میں ایک نام کی کئی سڑکیں موجود ہیں خاص طور سے چھاؤنی کے علاقوں میں۔
تخلیقی زوال کا یہ حال ہے کہ اگر چوراہوں پر آ پ کو چار گھوڑوں کے مجسمے، ایک مینار پاکستان کا واجبی سا ماڈل نظر آ ئےتو سمجھ جائیے کہ آ پ کا گزر کسی چھاؤنی کے رہائشی علاقے سے ہو رہا ہے لہذٰا ادب ملحوظِ خاطر رکھیں۔ اور تو اورجب ہم ایمان اور اتحاد کے انڈر پاس سے گزرے تو یقین کیجئے کہ جذبہ ایمانی عروج پر پہنچ گیااور جنت بالکل صاف نظر آ نے لگی۔
حقیقت تو یہ ہے کہ دنیا بھر میں عوامی مقامات کو دلچسپ اور خوبصورت بنانے کے لئے تصاویر اور مجسموں کو استعمال کیا جاتا ہے۔ شہر میں کیا لگانا ہے اور کیسا لگانا ہے؛ اس بات کا تعین اس کام کے لئے متعین لوگ ہی کرتے ہیں کیونکہ شہروں میں مقامی اور غیر ملکی سیاح موجود ہو تے ہیں جو اس شہر کا بصری تاثر اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔
کہتے ہیں کہ ہمارے یہاں بھی ایسا کچھ موجود ہے۔ لیکن کہاں ہے اور کن مشاغل میں مصروف ہے معلوم نہیں ہو سکا۔ وقت آ گیا ہے کہ شہروں کی جمالیاتی پالیسی آ رٹ کے اساتذہ سے بنوائی جائے تاکہ ہمارے شہر بھی خوبصورتی میں دنیا کے دیگر شہروں کا اصل میں مقابلہ کر سکیں اور ہمیں یہ نہ کہنا پڑے کہ "ہم کس گلی جا رہے ہیں "۔