Eidi Aur Eid Card
عیدی اور عید کارڈ
عید کا موقع ہو اور عیدی اور عید کارڈ کی بات نا ہو، ممکن نہیں۔ عید مسلمانوں کا مذہبی تہوار ہے اور عیدی، عید کارڈ اور خاص پکوان اس کے لازمی جز ہیں۔ اہالیان پاکستان عید کو تو مزہبی تہوار سمجھتے ہی ہیں، باقی لوازمات کو بھی دینی فرض جان کر ادا کرتے ہیں۔ رمضان کے بعد منائی جانے والی عیدالفطر کا اہل ایمان کو سال بھر انتظار رہتا ہے اور ہر ملک اس تہوار کو اپنے انداز سے مناتا ہے۔
مسلم دنیا میں اس تہوار سے جڑی کئی روایات ہیں جو وہاں کی ثقافت کی آئینہ دار ہوتی ہیں۔ پاکستان کی بات ہو تو یہاں معاشرے کے مختلف طبقات اپنے انداز میں عید منانا پسند کرتے ہیں لیکن کچھ روایات سب میں مشترک ہوتی ہیں۔ ان میں عیدی کا لین دین، عیدی پیغامات اور مختلف پکوان ہر طبقے میں بقدر حیثیت رسومات عید کے طور پر منائی جاتی ہیں۔ عید کے موقع پرخواتین عموماً اسے باورچی خانے میں گزارتی ہیں اور مرد حضرات سونے کے مشغلے میں۔
بچے عیدی کے انتظار میں گزارتے ہیں اور سیاستدان عوام سے عید مل کر۔ یہ تو ہوا ایک روایتی منظر نامہ جو اکیسویں صدی میں اہل ایمان نے کافی حد تک تبدیل کر دیا ہے اور اس تبدیلی کی ایک وجہ انٹرنیٹ کا عوامی زندگی میں بے حد دخل ہے۔ جہاں بہت سے کام اب گھر بیٹھے موبائل فون پر ہو جاتے ہیں وہیں ایک طبقہ اپنے موبائل کے ہمراہ عید کی چھٹیوں میں مری کا رخ کرتا ہے یہ جانتے ہوئے کہ وہاں پہنچانے والی سڑکیں سیاحوں کا بے تحاشہ بوجھ اٹھانے سے قاصر ہیں۔ بلکہ اب تو یہ خبر بھی چل رہی ہے کہ سیاحتی بوجھ کی وجہ سے یہ مسکین پہاڑ اب تیزی سے زمین میں دھنس رہا ہے۔
اس خبر کو البتہ سیاحوں نے یوں سمجھا ہے کہ یہ خبر انہیں ڈرانے کو سرکار نے اڑائی ہے اور الحمدللہ پاکستانی ایسی کسی بات سے ڈرنے والے نہیں ہیں اور آخری خبریں آنے تک، اپنے تئیں وہ سرکار سے اپنے حصے کی سیاحتی عیدی وصول کرنے جانب مری رواں دواں ہیں۔ ان لوگوں کی اکثریت رش کی وجہ سے سڑک پر ہی عید مناتی ہے اور موبائل سے کھینچی گئی تصاویر اپنی فیسبک دیواروں پر لگا کر واپس آ جاتی ہے۔
عید کے بنیادی ارکان میں عیدی کا پہلا نمبر ہے کہ اس کے بغیر عید، عید نہیں لگتی۔ عیدی کی کئی اقسام ہیں جن میں تین قابل توجہ ہیں یعنی سرکاری، غیر سرکاری اور ڈیجیٹل۔ سرکاری عیدی وہ تنخواہ ہے جو سرکار اپنے ملازمین کو عید سے پہلے ادا کرتی ہے اور بیچارے ملازمین اسے ہی عیدی سمجھ کر خوش ہو جاتے ہیں۔ ان میں محکمہ تعلیم کے معصوم اساتذہ پہلے نمبر پر ہیں کیونکہ یہ وہ مخلوق ہے جو عموماً صرف اپنی تنخواہ پر ہی انحصار کرتیہے۔
وہ محکمے البتہ اس فہرست سے باہر ہیں جن پر تنخواہ کے علاوہ بھی اللّٰہ کا کافی فضل رہتا ہے۔ غیر سرکاری عیدی لینے والوں میں دکاندار، گداگر، ذاتی ملازمین، بچے اور خواتین شامل ہیں۔ ان سب کو عیدی دینے میں گھر کے سربراہ کا کچومر نکل جاتا ہے اور وہ بیچارہ اپنے بچپن کے دن یاد کرتا پایا جاتا ہے جب وہ بھی عیدی لینے والوں میں شامل ہوتا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ عیدی کا ریٹ بھی پیٹرول کے ریٹ کی طرح کئی گنا بڑھ چکا ہے اور یہ بات عیدی لینے والوں کو اچھی طرح معلوم ہے۔
اس مشکل صورتحال میں پچھلے کچھ سالوں سے ڈیجیٹل عیدی انسانیت پر ایک احسان تصور کی جارہی ہے۔ اس کی برکات کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کہیں جائے بغیر مومنین کی بڑی تعداد اس سے مستفید ہو جاتی ہے۔ عیدی کی یہ قسم فیسبک، واٹس ایپ اور ٹویٹر پر بہت مقبولیت حاصل کرچکی ہے۔
عید والے دن عیدی کے پیغامات بمہ نوٹوں کی تصاویر کے بستر پر لیٹے لیٹے بھیج دیئے جاتے ہیں اور اس فریضے سےفراغت کے بعد بھیجنے والا غیر مذہبی جوش وخروش سے عید مناتا ہے یعنی سو جاتا ہے۔ عیدی دینے کا یہ سائینسی طریقہ کار جہاں عیدی دینے والوں میں مقبول ہورہا ہے وہیں عیدی لینے والوں نے اس پر احتجاج کرنا شروع کر دیا ہے۔
عام طور سے عید کی چھٹیوں میں کاروبار اورسیاست کو کچھ دنوں کے لئے روک دیا جاتا ہے۔ اس برس یہ روایت البتہ تبدیلی کی نظر ہو گئی اور بڑھ چڑھ کر سیاست کی گئی۔ اس برس ڈیجیٹل فورمز پر محبت بھرے عید کے پیغامات کی بجائے سیاسی پیغامات چھائے رہے اور فیسبک کی دیوار پرانصافیوں، نونیوں اور جیالوں کے سیاسی پیغامات کی بھرمار رہی۔ ٹویٹر کے میدان میں بھی خوب گھمسان کا رن پڑا جو آخری خبریں آ نے تک ویسے ہی جاری ہے اور کوئی فریق ہار ماننے کو تیار نہیں۔
برسوں سے جاری عید کارڈ کی روایت بھی ڈیجیٹل شکل اپنا چکی ہے۔ احباب ایک دوسرے کی دیوار سے اٹھائے کارڈ بڑے دھڑلے سے بھجتے ہیں اور بستر پر لیٹے لیٹے یہ اہم فریضہ سر انجام دینے کے بعد مزید آرام کرتے ہیں۔ سو کارڈ سے منسوب رومانیت اب ماضی کا قصہ بن چکا۔ اس برس عید کے موقع پر ایک بات واضع ہو گئی کہ عید سے جڑے ہر مسئلے کاحل ایک اچھے کیمرے والا موبائل فون ہے جو اگر عیدی میں مل جائے تو کیا ہی بات ہو۔