Monday, 25 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Rabiah Fatima Bukhari
  4. Saas Sasur Se Ehsaas Ka Rishta Qaim Rakhein

Saas Sasur Se Ehsaas Ka Rishta Qaim Rakhein

ساس سسر سےاحساس کا رشتہ قائم رکھّیں

رات میں نے ایک تحریر شئیر کی، جو ایک پیاری دوست کے مطابق میری وال پہ شئیر نہیں ہونی چاہیئے تھی۔ میں نے اس تحریر کو درحقیقت ایک "حل" ہرگز نہیں سمجھا۔ میں نے نہ تو آج تک کسی مرد کو اپنی بیوی کو اس لئے طلاق دیتے دیکھا ہے کہ یہ میری ماں کی خدمت نہیں کر رہی۔ نہ ہی یہ دین کا تقاضا ہے اور نہ ہی معاشرتی مسائل کا حل اس میں مضمر ہے، بالکل بجا۔

میں نے اس تحریر کو ایک آئینہ سمجھا کہ ہم میں سے ہر ایک میٹھا میٹھا ہپ اور کڑوا کڑوا تھو کے مترادف دین سے اپنی پسند کا حکم چن لیتا ہے۔ جس طرح ہمارے یہاں مرد حضرات کو سننِ مقدّسہ میں سے صرف ایک سنّت اور قرآنِ کریم کی چھ ہزار چھ سو چھیاسٹھ (کم و بیش) آیات میں سے صرف ایک آیت، بغیر سیاق و سباق کے ازبر یاد ہے۔ بعینہ اسی طرح ہماری خواتین نے گزرے چند سالوں میں شریعت کا ایک اصول سمجھ لیا ہے، جو آج ہر بچّی کی زبان پہ جاری ہے کہ ساس سسر کی خدمت میرا فرض نہیں۔

میں مانتی ہوں کہ ابھی عملاً ہمارے زیادہ تر گھروں میں بہوئیں ہی ساس سسر کے معاملات دیکھتی ہیں لیکن اس فقرے کی گونج جس تواتر سے سوشل میڈیا پہ سننے کو ملتی ہے۔ وہ وقت دور نہیں کہ ہمیں عملی زندگی میں بھی اس کے مظاہرے بہت زیادہ دیکھنے کو ملیں گے۔ ایک گروپ میں میں نے ایک پوسٹ دیکھی، چھوٹی بہن نے لکھّا تھا کہ میں اور میری بیوہ ماں اپنے بھائی بھابھی کے ساتھ رہ رہے ہیں، وہ کوئی پھل لاتے ہیں یا کوئی اور اچھّی چیز تو کبھی ہم تک نہیں پہنچتی۔

نیچے کمنٹس سیکشن میں تقریباً ساٹھ فیصد عورتوں کے تبصرے کچھ یوں تھے "انہیں جینے دیں، پورے ٹبّر کو پالنا، انہیں پھل کھلانا اس کی ذمّہ داری نہیں" یعنی ایک بیوہ ماں، جس نے اللہ جانے کتنے جتنوں سے اولاد کو پالا ہوگا، گھر میں بہو کے آتے ہی "ٹبّر" بن گئی۔ اور یہ رویّہ سوشل میڈیا پہ خواتین کے گروپس میں اس قدر عام ہے کہ دل دکھتا ہے کہ ہماری اگلی نسل سے محبّت، حسنِ اخلاق، احساس، مروّت اور صلہ رحمی جیسے جذبات کیوں ختم ہوتے جا رہے ہیں۔

ایک بات بہت تواتر سے پڑھنے کو ملتی ہے کہ بہو کیوں ساس سسر کو دیکھے، بیٹا اور بیٹیاں کیوں نہ ماں باپ کو سنبھالیں۔ میں یہ پوچھتی ہوں کہ میں اپنے گھر میں بیٹھ کے میلوں دور اپنے والدین کو سنبھالنے کی فکر میں ہلکان رہوں اور میری بھابھی میرے میکے میں اپنی ماں کی فکر میں ہلکان رہے، عملاً نہ میں اپنی ماں کیلئے کچھ کر پاؤں نہ وہ اپنی ماں کیلئے، کیا اس سے بہتر یہ نہیں ہے کہ ہم اپنے اپنے گھر میں موجود ماؤں کی ہی حتی المقدور خدمت کر لیں۔

یہی سوچ کے ان سے ہمدردی اور احساس کا رشتہ قائم رکھّیں کہ میری زندگی میں جتنی خوشیاں ہیں، میرے شوہر کے دم سے ہیں اور میرا شوہر ان کی ساری امیدوں کا مرکز ہے۔ ان سے محبّت نہیں کر سکتیں، نہ کریں۔ (کیونکہ میں جانتی ہوں اور مانتی بھی ہوں کہ ہمارے گھروں میں والدین کے رویّے اکثر ہی بہت تکلیف دہ ہوتے ہیں) کم از کم ان کیلئے احساس اور مروّت دل میں زندہ رکھیں۔

مرد حضرات تعدد ازدواج کے علاوہ بیوی سے حسنِ سلوک والی سنّتیں پیشِ نظر رکھیں، والدین بہو کی خدمت کو اپنا حق سمجھ کے وصول کرنے کی بجائے دلی طور پہ اس کیلئے دعا گو رہیں اور اس کیلئے آسانیاں پیدا کرنے کی کوشش کریں۔ اور بہو شوہر کے ماں باپ کو بوجھ سمجھنے کی بجائے ان کی خدمت کو سعادت سمجھے تو خانگی زندگی سکون اور محبّت کا گہوارا بن سکتی ہے۔ اپنے اپنے حق کیلئے لڑنے کی بجائے ہر کوئی اپنے فرائض کی ادائیگی کی کوشش کرے تو معاشرہ ایک بہتر صورت اختیار کر سکتا ہے۔

Check Also

Roos, Nuclear Doctrine Aur Teesri Aalmi Jang

By Muhammad Aamir Iqbal