Mari Maa
میری ماں
میری ماں، میری جنّت، ایک ایسا مدار، جس کے گرد ہم سات نفوس گردش کرتے آئے ہیں۔ ہم جو ایک متوسّط طبقے سے تعلّق رکھتے تھے، ایک سٹرگلنگ مڈل کلاس فیملی۔ بہت بچپن میں بہت ہی عیش و آرام کے دن دیکھے اور زرا سے بڑے ہوئے، تو گھر کی تعمیر کے دوران بہت سخت وقت سے گزرے۔ لیکن جانے ہمارے ماں باپ کی تربیّت کیسی تھی کہ نہ کبھی فراوانی میں کلمہء شُکر سے ناطہ ٹوٹا اور نہ ہی تنگی میں کبھی بے صبر ہوئے۔
مُجھے یاد ہے، میں یونیورسٹی میں تھی، پریویس میں دو طرح کی سکالرشپس کااعلان ہوا، ایک ضرورت مند بچّوں کیلئے needy scholarship اور دوسری میرٹ پہ ٹاپ پوزیشن رکھنے والے طلبہ کیلئے سکالر شپ۔ میرا میرٹ پہ آٹھواں نمبر تھا کلاس میں، لیکن یہ یقینی نہیں تھا کہ پہلے پانچ بچّوں کو میرٹ سکالر شپ ملے گی یا پہلے دس کو، میرے بہت سے ہم جماعت طلبہ و طالبات نے needy سکالر شپ کیلئے درخواست دی۔
اُن میں بہت سے ایسے بھی تھے، جو حقیقتاً ضرورت مند ہر گز نہیں تھے۔ مُجھے بھی کئی کلاس فیلوز نے کہا کہ تم بھی فارم بھر کے دے دو۔ لیکن میں نے دوٹوک انکار کر دیا کہ الحمدللّٰہ میں اپنے آپ کو needy نہیں سمجھتی۔ حالانکہ ایک چودہویں سکیل کا سرکاری ملازم، جس کا ایک بیٹا انجینئیرنگ یونیورسٹی کا طالبعلم ہو، بڑی بیٹی یونیورسٹی کی طالبہ اور پانچ چھوٹے بچّے مختلف مدارج میں زیرِ تعلیم ہوں۔
اور گھر کی تعمیر کا مشکل ترین مرحلہ درپیش ہو، جس کی مشکلات کا اختتام ابھی بہت دور ہو، اُس سے زیادہ needy کون ہوگا، لیکن الحمدللّٰہ ہمارے والدین نے تنگی، تُرشی، جیسا بھی وقت دیکھا، ہمیں کبھی احساسِ کمتری کا شکار نہیں ہونے دیا۔ اور الحمدللّٰہ امّی جی کی دُعاؤں کے طفیل مجھے میرٹ سکالر شپ مل گیا۔ میری امّی جی کے ساتھ زیادہ قُربت اور دوستی والا رشتہ میری شادی کے بعد پروان چڑھا۔
اُس سے پہلے اُن کی تربیّت کی خاطر کی جانیوالی ہماری ماؤں کی روایتی سختی مُجھے بھی روایتی اولاد کی طرح آزردہ رکھتی تھی۔ لیکن جب میں اُن سے دور ہوئی، تب مُجھے احساس ہوا کہ اُس سختی میں۔ میرے لئے کیسی کیسی رحمتیں پنہاں تھیں اور جس طرح اُنہوں نے اپنا تن، من، دھن ہم بچّوں پہ وارا، یہ صرف ایک ماں ہی کر سکتی ہے۔
ہم سب بہن بھائیوں نے یونیورسٹیز تک تعلیم حاصل کی، مُجھے نہیں یاد پڑتا کہ ہم کبھی بھی گھر سے بغیر ناشتے کے نکلے ہوں، چاہے ہماری یونیورسٹی کی بس فجر کے ساتھ ہی نکل جاتی ہو۔ میں بیاہ کے بھی میکے سے کافی قریب تھی تو میری زندگی کی ہر اونچ، نیچ میں، ہر مشکل وقت میں، میری ماں ہمیشہ میرے ساتھ کھڑی رہیں۔
میرے ابّو جی نے ایک بہت فعّال، نہایت سرگرم اور یوں سمجھیں کہ رولر کوسٹر رائیڈ جیسی زندگی گزاری اور امّی جی کو میں نے ہمیشہ، ہر طرح کے حالات میں ابّو جی کا بازو بن کے کھڑا ہوتے دیکھا ہے، اب جبکہ ابّو جی اپنی زندگی کے مشکل ترین فیز میں ہیں، امّی جی آج بھی ایک ایک لمحہ اُن کیلئے ہر طرح سے دستیاب ہوتی ہیں۔
ابّو جی کیلئے تہجُد اور فجر کے درمیان اٹھائیس بار سورہ رحمٰن پڑھ کے دم کرنے کا وظیفہ، پورے اکتالیس دن امّی جی اور وجیہہ نے کیا، کہنے کو بہت آسان لگتا ہے، لیکن سارا دن شدّید علیل شوہر کی تیمارداری، ہر روز عیادت کیلئے آنیوالے بیسیوں مہمانوں کی خاطر تواضع کرنے اور شدّید ذہنی پریشانی کے ساتھ یہ وظیفہ مکمّل کرناصرف امّی جی کا ہی کام تھا۔
میں یہ سمجھتی ہوں کہ محدود ترین وسائل کے ساتھ اور بہت سی مشکلات کا سامنا کرنے کے باوجود اگر آج ہم سب بہن بھائی الحمدللّٰہ اپنی اپنی زندگیوں میں خوش و خُرّم اور کامیاب ہیں، الحمدللّٰہ تو اس کاسارے کا سارا کریڈٹ، اللّٰہ پاک کی خاص الخاص رحمت کے بعد، صرف اور صرف ہمارے امّی جی اور ابّو جی کی محنّتِ شاقّہ کو جاتا ہے۔
ہم سب میں اگر کوئی بھی خوبی ہے تو بلاشُبہ ہمارے ماں باپ کی بدولت ہے، اورجو کوئی بھی خامی، کمی یا کوتاہی ہے، وہ صرف ہماری اپنی ذات کی بدولت ہے۔ ایک ماں کی تربیّت کااس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو گا کہ اُس کی اپنی اولاد اُس کی کسی بھی لغزش پہ نہایت احسن انداز میں اپنی ماں کو اُن کی غلطی کا احساس دلا سکے، کہ دُنیا کے ہر معاملے کیلئے بہرحال، ہر شخص نے بروزِ حشر اللّٰہ کی بارگاہ میں جوابدہ ہونا ہے۔
میری ماں، میرا سب کُچھ ہیں، اللّٰہ پاک یہ شفیق اور محبّتوں بھرا سایہ ہمارے سروں پہ تادیر صحت، تندرستی اور ایمان کی دولت کے ساتھ سلامت رکھّے، آمین ثم آمین۔
پسِ نوشت۔ یہ آخری دُعا میری ماں جی اور تائی امّاں، (ساس امّی)، دونوں کیلئے کیجئیے گا کہ اُن کی بھی بہت سی نیکیاں ہیں میری زندگی میں۔