Halala (2)
حلالہ (2)
تو بات ہو رہی تھی حلالے کی۔ حلالہ، اپنی اصلی اور شرعی صورت میں، عرب مُعاشرے میں شاید ایک آپشن ہو سکتا ہے کہ وہاں نکاح، طلاق، پہلی شادی، دوسری شادی وغیرہ وغیرہ ہمارے یہاں کی طرح عزّت اور غیرت کے ساتھ مُنسلک نہیں ہوتے۔ خاص طور پہ دورِ نبوی میں صحابیّات کی عُمر کے آخری حصّے تک، متعدّد شادیوں اور طلاقوں کے احوال پڑھنے کو ملتے ہیں۔ ایک بار پڑھا تھا کہ کوئی عرب خاتون بیوہ ہوگئی، اُس کے جنازے پہ دوسری خاتون اظہارِ تعزیّت کر رہی تھی اور الفاظ یہ تھے کہ اللہ پاک تُمہیں جلد مرحوم شوہر کا بہترین نعمُ البدل عطا فرمائے۔
کیا ہمارے یہاں ان الفاظ میں ایک بیوہ سے تعزیّت کی جا سکتی ہے؟ بیوہ خود ہی اُٹھ کے کہنے والے کا کچومر بنا ڈالے گی۔ ہمارے یہاں طلاق کو جس طرح stigmatize کر دیا گیا ہے، اِس صورتحال میں طبعاً کوئی خاتون نہیں چاہے گی کہ ایک گھر اُجڑ گیا تو اب دوسرا بھی اُجاڑ دے کہ ایک طلاق ہی عورت کیلئے بہت بھاری ہوتی ہے۔ کُجا یہ کہ کوئی عورت دو گھروں سے طلاق یافتہ ہو جائے۔ مُراد یہ ہے کہ حلالہ جو "ہو جاتا ہے، کیا نہیں جاتا"، اُس کے شرعی طریقے سے وقوع پذیر ہونے کے اِمکانات ہمارے یہاں بہت کم ہیں۔ ہاں زندگی اور موت کے مُعاملات بہت عجیب ہیں، اُس پہ رائے زنی نہیں کی جا سکتی۔
یہ تو تھا حلالہ کا شرعی طریقہ، اب آتے ہیں حلالہ کی دوسری صورت پہ کہ جب طلاق دینے والا مرد کسی دوسرے مرد کے ساتھ مل کے یہ منصوبہ بندی کرے کہ تُم میری سابقہ بیوی سے نکاح کرو اور ایک دو دن یا چند دِنوں بعد طلاق دے دو، تاکہ میں اِس سے دوبارہ نکاح کر سکوں۔ اِسے ہی ہمارے یہاں حلالہ سمجھا جاتا ہے۔ شرعاً اس طرح منصوبہ بندی کرکے حلالہ کرنا مکروہِ تحریمہ یعنی حرام ہے۔
مُکرر لکھوں گی کہ منصوبہ بندی کرکے "حلالہ" کروانا شریعتِ مُحمّدی کی رو سے حرام ہے اور اس طرح سے حلالہ کرنے والے مرد اور اُس مرد پہ، جو یہ حلالہ کروائے، دونوں پہ حضور نبیء اکرم ﷺ نے لعنت فرمائی ہے۔ اور لعنت سمجھتے ہیں؟ اللہ کی رحمت سے دُوری کو لعنت کہتے ہیں۔ اور یہ کوئی آسان بات ہرگز نہیں ہے۔ حلالے کی جو قسم ہمارے یہاں مستعمل ہے یا عام طور پہ حلالہ سے جو عمل مُرادلیا جاتا ہے یہ انتہاء درجے کی بےحمیّتی اور بے غیرتی ہونے کے ساتھ ساتھ اللہ اور اُس کے رسولﷺ کی لعنت کا مُستحق عمل بھی ہے۔
اب آتے ہیں"حلالہ سینٹرز" پہ، میں یہ باتیں فیس بُک پہ سُنا کرتی تھی کبھی کہ حلالہ ایک کاروبار کی شکل اختیار کر چُکا ہے تو سچّی بات ہے کہ میں بالکل یقین نہیں کرتی تھی۔ لیکن جب میں نے خود اِسی نوع کے ایک کیس کا مُشاہدہ کیا تو میں یہ دیکھ کے نہ صرف حیران رہ گئی بلکہ دُکھ کی شدّید کیفیّت سے گُزری کہ ایک نامور اور مُعتبر "عالمِ دین"، جن کی فیس بُک پروفائل اُن کی نورانی تصاویر اور بےمثال خُطبات سے بھری پڑی تھی، وہ درپردہ یہ دھندہ کر رہے تھے۔
لوگ جہالت کے مارے، اپنی چند روزہ زندگی کے معمولی سے مُفاد کیلئے روزِ حشر اور ابدی زندگی کا خسارہ مُول لے لیتے ہیں۔ اور یہ حضرت چند ہزار روپے اور شاید ایک نئی عورت کے شوق میں، لڑکیوں سے خود "نکاح" کرتے ہیں اور طے شُدہ دِنوں کے بعد اُسے طلاق دے دی جاتی ہے۔ جاہل تو شاید روزِ محشر اپنی جہالت کا عُذر پیش کر سکیں لیکن اس طرح کے "عُلماء" بروزِ حشر نبیء رحمتﷺ کا سامنا کس مُنہ سے کریں گے کہ جو چند ٹکوں کے عوض اپنا دین اور ایمان بیچ دیتے ہیں؟
اب میں آخر میں خواتین سے مُخاطب ہو رہی ہوں۔ اللہ کی بندیو! کیا مرد تُمہارا رازق ہے؟ جس شوہر نے نہ گھر بار کا سوچا، نہ تُمہاری زندگی کا اور نہ ہی اپنے بچّوں کا، تُم اُس کی خاطر اپنی عزّت اور اپنا ایمان گنوا دو گی؟ میں جانتی ہوں کہ اِس طرح کے معاملات میں عورت کی زندگی خاص طور پہ نہایت ناگُفتہ بہ ہو جاتی ہے، چاہے مُعاشی مسائل نہ بھی ہوں، تب بھی۔ لیکن اِس زندگی کی کوئی بھی تکلیف اُخروی اور ابدی زندگی کی قیمت پہ تو دور نہیں کی جاسکتی نا۔
وہ مرد جس کے ساتھ اب تُمہارا کوئی تعلّق باقی نہیں رہا، اُسے یہ حق ہر گز نہ دو کہ وہ تُمہیں ایک کٹھ پُتلی بنا کے نچائے۔ اپنے کسی بھی عمل پہ بروزِ حشر تُمہارا یہ عُذر قابلِ قبول نہیں ہوگا کہ تُمہیں مجبور کیا گیا تھا۔ اپنے ایمان کی حفاظت خود کرو اور اگر خُدانخواستہ، خاکم بدہن ایسے کسی موڑ پہ زندگی لے آئے تو اپنے ایمان کی خاطر ڈٹ جاوء۔ پھر کہوں گی کہ یہ سب عملاً بہت بہت بہت زیادہ مُشکل ہے، خاص طور پہ اگر بچّوں کا ساتھ ہو، لیکن اِسی میں دُنیا کی بھلائی بھی ہے اور عُقبٰی کی راحت بھی۔ وما علینا اِلّا البلٰغ۔