Halala (1)
حلالہ (1)
اسلام دینِ فطرت ہے۔ یہ جہاں ایک گھر کو بجا طور پہ نظامِ ہستی کا مرکز گردانتا ہے اور اس گھر کے ماحول کو ہر مُمکن طریقے سے خوشگوار بنانے کیلئے جا بجا مرد اور عورت، ہر دو اصناف کو قرآن و حدیث میں واضح احکامات دیتا ہے۔ وہیں خُدانخواستہ کسی ناقابلِ برداشت یا abusive صورتحال سے نکلنے کیلئے طلاق کا رستہ، جو اگرچہ ربِّ کائنات کی طرف سے جائز قرار دئیے گئے افعال میں سے ناپسندیدہ ترین فعل ہے، لیکن اس انتخاب کا حق فریقین کے پاس بہرحال موجود ہے۔
یہ عمل بظاہر جتنا آسان دِکھائی دیتا ہے، اپنے نتائج و عواقب کے اعتبار سے اِس کی نوعیّت ایک آگ کے بھڑکتے ہوئے الاوء سے کم نہیں ہوتی۔ اس پچھتاوے کی آگ میں فریقین خود تو بھسم ہوتے ہی ہیں، اُن دونوں سے بھی زیادہ جو فریق مُتاثر ہوتا ہے، وہ اُس جوڑے کی اولاد ہوتی ہے۔ جن کیلئے ماں اور باپ میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ایک اذیّت کے لامتناہی سلسلوں کی بُنیاد بن جاتا ہے۔
اب ہوتا یہ ہے (میرے مُشاہدے کے مُطابق) کہ اکثر مرد حضرات غُصّے اور جذبات میں آکے اپنا حق استعمال کر تو لیتے ہیں، لیکن بہت جلد اُنہیں احساس ہوتا ہے کہ اُن سے کس قدر فاش غلطی سرزد ہوگئی ہے۔ جب بچّے نہ تو باپ کے بغیر رہ پاتے ہیں اور نہ ہی ماں کو چھوڑنےپہ آمادہ ہوتے ہیں۔ یہ اپنے پاس زبردستی روک بھی لیں بچّوں کو تو یہ بچّے سنبھالیں گے، گھر یا مُلازمت؟ اب یہاں سے ایک نیا سلسلہ شروع ہوتا ہے، جس پہ میں بہت عرصے سے لکھنا چاہ رہی تھی اور وہ ہے حلالہ۔۔!
حلالہ سے پہلے میں طلاق کے شرعی طریقہء کار پہ تھوڑا مزید لکھنا چاہوں گی۔ پھر حلالہ کو سمجھیں گے اور بعد ازاں آج "حلالہ سینٹرز" کے نام پہ دین فروشوں نے جو بے حمیّتی کے اڈّے کھول رکھّے ہیں، اُن پہ بات کروں گی، اِن شاءاللہ۔ سب سے پہلے طلاق پہ بات کرتے ہیں۔ شریعت کے مُطابق طلاقیں تین ہوتی ہیں۔ اگر ایک وقت میں مرد ایک طلاق دے تو اِسے طلاقِ رجعی کہا جاتا ہے، اس عمل کے بعد عورت پہ تین ماہ (menstrual cycles) کی عدّت واجب ہو جاتی ہے۔
اِس عرصے کے دوران اگر وہ جوڑا ایک دوسرے سے بطور شوہر اور بیوی رُجوع کر لیتا ہے تو یہ رجوع بغیر نکاح کے ہوگا۔ شرعاً عدّت کے عرصے میں عورت کو شوہر کا گھر چھوڑ کے نہیں جانا چاہیئے، کہ ایک چھت کے نیچے رہیں گے تو ہی رجوع کی صورت بھی بن پائے گی۔ ہمارے یہاں اُلٹی گنگا بہتی ہے۔ اوّلاً تو مرد تین طلاق سے کم پہ راضی نہیں ہوتے اور اگر بالفرض کوئی ایک طلاق دے ہی دے تو عورت کو فوراً اُس کے ورثاء اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔ رُجوع کیا خاک ہوگا؟
اگر دو طلاقیں ایک وقت میں دی جائیں تو یہ طلاق بھی رجعی ہی ہوگی لیکن اب کی بار، عدّت کے دوران تو بغیر نکاح کے رُجوع کیا جاسکتا ہے۔ لیکن اگر دورانِ عدّت رُجوع نہ کیا جائے تو رُجوع کرنے کیلئے نیا نکاح ہوگا اور نئے سِرے سے حقّ مہر مُقرر ہوگا۔ اِس کی عدّت بھی تین ماہ ہی ہے۔ اس کے بعد بھی اگر میّاں بیوی میں نہیں بن پاتی اوریہ رُجوع کرنے کی بجائے تیسری طلاق کی طرف جاتےہیں یا مرد غُصّے اور جذبات میں ایک ہی نشست میں تین طلاقیں دے دیتا ہے تو اب اِن کا آپس میں تعلُّق بالکل مُنقطع ہو جائے گا۔ اب یہ دونوں چاہیں بھی تو دوبارہ نکاح نہیں کر سکتے۔
اب اِن کے نکاح کی صرف ایک صورت بن سکتی ہے، وہ بھی اگر اللہ چاہے تو، وہ یہ کہ یہ خاتون اپنی عدّت مُکمّل کرے، اور اسلامی مُعاشرے کے فوری تقاضے کے مُطابق کسی اور مرد سے دوسرا نکاح کرے اور یہ جوڑا بطور شوہر اور بیوی زندگی گُزارنے لگ جائے۔ اِس معمول کی زندگی میں اگر خُدا نخواستہ اُس خاتون کی پھر سے طلاق ہو جاتی ہے، دوسرے شوہر سے یا خُدا نخواستہ وہ بیوہ ہو جاتی ہے۔
اب اس صورت میں شریعت اِن دونوں (پہلے جوڑے کو) کو اجازت دیتی ہے کہ اب اگر وہ دونوں چاہیں تو دوبارہ آپس میں نکاح کرکے بطورِ میّاں بیوی نئے سِرے سے اپنا گھر بسا سکتے ہیں۔ اور یہی "حلالہ" کی شرعی صورت ہے۔ جو ایک مکمّل طور پہ قدرتی اور فطری طور پہ وقوع پذیر ہونے والا عمل ہے۔ جس کے جتنے واقع ہونے کے اِمکانات ہوتے ہیں، اُس سے زیادہ واقع نہ ہونے کا امکان ہوتا ہے کہ عین مُمکن ہے کہ وہ عورت دوسرے شوہر کے پاس زیادہ خوش ہو یا وہ دونوں بُڑھاپے تک ایک دوسرے کے ساتھ خوش رہیں۔ یہ ایک مکمّل طور پہ امکانی صورت ہے، جو شریعت کی رُو سے جائز ہے۔
(جاری ہے)