Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Rabiah Fatima Bukhari
  4. Eid Cards

Eid Cards

عیدکارڈز

ڈبّے میں ڈبّہ، ڈبّے میں کیک

میری سہیلی لاکھوں میں ایک

پیاری آصفہ کی کیمرے سے متعلّق تحریر پڑھی اور یادوں کے کتنے ہی دریچے وا ہو گئے۔ اِنہیں دریچوں سے جھانکتی ایک نہایت رنگین اور حسین ترین یاد ہمارے بچپن اور لڑکپن کے عید کارڈز تھے۔ بہت بچپن میں اکلوتے چھوٹے سے رنگین لیکن نہایت نرم و مُلائم کارڈ پہ مُشتمل عیدکارڈز خریدا کرتے تھے۔ (ابھی یہ الفاظ لکھتے ہوئے اُس کارڈ کی مُلائمت مُجھے اپنی انگلیوں کی پوروں پہ محسوس ہو رہی ہے)۔

غالباً اٹھنّی کا یا ایک روپے کا ایک کارڈ ہوا کرتا تھا۔ اِن کارڈز میں بھی بہت تنوّع ہوا کرتا تھا۔ جہاں اللّٰہ، مُحمّدؐ، خانہ کعبہ اور مسجدِ نبویؐ کی تصویروں سے مزیّن کارڈز دستیاب ہوتے، وہیں خوبصورت پھولوں کے گُلدستوں سے آراستہ کارڈز بھی مِلا کرتے۔ اِس کے ساتھ ساتھ شوقین مزاج خواتین اور بچیوں کےلئے انڈین اور پاکستانی اداکاروں اور اداکاراؤں کی تصویروں سے سجے کارڈ بھی سٹالز کی زینت ہوتے۔

اب یہ خریدنے والے کے ذوق اور پسند پہ منحصر تھا کہ وہ کس نوع کے کارڈز خریدنا پسند کرتا؟ کُچھ وقت آگےگُزرا تو دو، دو یا تین تین پرتوں والے عیدکارڈز عام ملنا شروع ہو گئے۔ اِن کارڈز پہ بہت خوبصورت اردو یا انگریزی عبارات، خوبصورت لکھائی میں چھپی ہوتیں۔ اور اندر ایک یا دو خوبصورت رنگین یا سادہ کاغذ کی پرتیں ہوتیں، جس پہ اپنے ہاتھ سے سہیلیوں کےلئے نیک خواہشات اور اپنے تیئں خوبصورت اشعار لکھّا کرتے۔

اِن کارڈز میں سے کُچھ کارڈز بہت دلکش اور خوبصورت ہوتے، بہترین عبارات اور خوش رنگ تصاویر سے مزیّن، جبکہ کُچھ کارڈز بہت مزاحیہ قسم کے ہوتے۔ کارڈ کی بیرونی پرت بہت خوشنُما ہوتی لیکن کھولتے ہی ایک شرارتی بندر لمبی ی ی سی زبان نکال کے مُنہ چڑا رہا ہوتا۔ اور اندر جس دوست کو یہ کارڈ بھیجا گیا ہوتا، اُس کی شان میں "قصائد" لکھّے گئے ہوتے، لیکن اِس طرح کے کارڈ بہت بےتکلّف دوستوں کو ہی بھیجے جا سکتے تھے۔

آخری عشرے میں جہاں ستائسویں کی رات (تب لیلةُالقدر ہمارے تخیّل کے مطابق ستائیسویں شب پہ ہی ہوا کرتی تھی) کا شدّت سے انتظار ہوتا تھا اور عید کی تیّاریوں کا جوش و خروش، وہیں اِنہی دِنوں سہیلیوں اور کزنز کےلئے عید کارڈز، چوڑیاں، ہئیر کیچر، مہندی اور کانوں کے لئے آویزے وغیرہ خریدنے کےلئے خاص طور پہ بازار کا چکّر لگتا۔ اپنی عید کی خریداری کا اتنا اِنتظار نہیں ہوتا تھا، جتنا کزنز اور سہیلیوں کےلئے اِن معمولی سے تحفوں کے خریدنے کی خوشی ہوتی۔

پھر یہ کارڈز اور چھوٹے چھوٹے تحفے خوبصورتی سے پیک کئے جاتے اور بہ نفسِ نفیس خود سہیلیوں اور کزنز کے گھروں میں جا کے یہ کارڈز پہنچانا ایک الگ ہی excitement ہوتی۔ مُجھے یاد ہے میرے انٹر بلکہ گریجویشن کرنے تک یہ خوبصورت روایت زندہ تھی، پھر جیسے اِس سیل فون نے کلائی کی گھڑی، دیوار گیردیدہ زیب کیلنڈرز، تصویروں کےلئے رِیل والے کیمروں سمیت بہت کُچھ نگل لیا۔

اُسی طرح اِن سب چیزوں کے ساتھ ساتھ عیدکارڈز کی یہ خوبصورت روایت بھی کہیں ماضی کی گرد میں دفن ہو گئی۔ نوّے کی دہائی کے بچّوں کے پاس ایسی بہت سی حسین اور دِلکش یادیں ہیں، الحمدُللّٰہ ہم یادوں کے معاملے میں ایک نہایت تونگر نسل ہیں۔

Check Also

Khadim Hussain Rizvi

By Muhammad Zeashan Butt