Friday, 20 September 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Rabia Shah
  4. Seemab Muzaffar

Seemab Muzaffar

سیماب مظفر

اس بڑی بڑی آنکھوں اور من موہنی صورت والی سیماب صفت لڑکی سے میں پہلی بار کوئین میری کالج لاہور میں ملی تھی۔ جانتی تو اسے پہلے سے تھی کہ لڑکپن اس دور میں جب میرے کالمز اور کہانیاں پھول رسالے میں چھپتے تو ساتھ پھول کی تقاریب میں یہ پیاری سی لڑکی بھی تواتر سے نظر آتی رہتی تھی۔ وہ تو جب میں نے کوئین میری کالج میں ایڈمشن لیا تو وہاں اسے دیکھ کر فوراً پہچان لیا۔ پھر تعارف ہوا اور وہیں سے ہماری گہری دوستی کی ابتدا بھی ہوگئی۔ یہ تھی "سیماب مظفر"۔

جی ہاں شادی آن لائن والی سیماب، "کلموہی" ڈرامے والی سیماب۔

" دنیا آن جی ٹی روڈ " والی سیماب۔

مگر یہ دور تھا اسکے کیرئر کی ابتدا کا دور۔

اگر آپ کبھی سیماب سے ملے ہوں تو جان جائیں گے کہ یہ لڑکی پوری اسم بامسمی ہے۔ یعنی سیماب صفت۔۔ پارہ بھرا ہے اس میں۔ کالج لائف میں سیماب نے وائس اوور سے یہ سفر شروع کیا تھا اور ان دنوں جب ہم بچلرز کر رہے تھے تو وہ ساتھ ساتھ ریڈیو بھی کر رہی تھی۔

میں سیماب کو"سیماب صفت" یونہی نہی کہا کرتی تھی، سیماب صرف پڑھائی اور extracurricular activities میں ہی گولڈ میڈل لانے والی نہیں، بلکہ اسکا ٹیلنٹ ہر ہر فیلڈ میں کھل کر سامنے آیا۔

کالج میں اینول پلے کی تیاری چل رہی تھی اور سیماب اس ڈرامے میں ہیروئین کا کردار ادا کررہی تھی، فائزہ گیلانی بھی ہماری کلاس میں تھیں وہ سیماب کی امی کا رول پلے کر رہی تھیں اور میں اپنی ٹیچر کے ساتھ اسسٹنٹ ڈائریکٹر کی ذمہ داری سنبھالے ہوئے تھی۔

کالج کا یہ دور بڑا سنہرا ہوتا ہے، مستقبل کے رنگین خواب آنکھوں میں بسنے لگتے ہیں۔ ڈرامہ کی پریکٹس کے بعد ہم جب لنچ بریک میں جب مل بیٹھتے تو آنے والے دنوں کی پلاننگ کرنے لگتے، مخملیں خواب دیکھا کرتے۔ میں کہتی، سیماب میں ایک ڈرامہ لکھوں گی، اسے ڈائریکٹ بھی میں کروں گی اور تم اس میں مین رول پلے کرنا۔

پھر ہم ڈرامہ کی تھیم بنانے لگ جاتے۔ مگر وقت کبھی تو خوابوں کے رنگوں کو مٹا کر اپنی مرضی کے رنگ بھر دیتا ہے اور کبھی آپ کو وقت کے آگے تن کر کھڑے ہو جانا پڑتا ہے اپنے خوابوں کو بچانے کے لیے۔

ہوا یوں کہ آرٹیکلرز، کالمز، کہانیاں، ناولز شاعری لکھتے، کالج ختم کرتے تک میری شادی ہوگئی، میں یوکے آگئی اور لکھنے کے کیرئیر میں ایک بڑا لمبا گیپ آگیا۔

لکھتی تو رہی مگر اس تسلسل سے نہیں۔ بس لکھ لکھ سنبھالتی رہی۔ اس دوران دو بچوں کے ساتھ صرف دو کتابیں پبلش ہوئیں، چار التوا میں ہیں، بس بچے پالے، بڑے کیے اور اب جب کچھ وقت اپنے لیے فری ملنے لگا ہے تو واپس لکھنے لکھانے کی طرف لوٹ آئی ہوں۔

مگر سیماب کی کہانی میرے الٹ رہی وہ اپنے خوابوں کو پانے کے لیے ڈٹی رہی، کیا کیا مشکلیں نہیں آئیں اسکے راستے میں مگر اسے جو چاہیے تھا اسکو پانے کے لیے اس نے ہمت نہیں ہاری۔ اگر میں آپ کو یہ بتاؤں کہ لاجواب کانفیڈنس والی یہ نازک پیاری سی لڑکی مستنصر حسین تارڑ کے نقش قدم پر چلتی۔

"کے ٹو" بیس کیمپ اور خوفناک نانگا پربت کی جڑ تک ہو کر آئی ہوئی ہے تو کیا آپ حیران نہ ہوں گے؟

اتنی چھوٹی عمر میں جب لڑکیاں پبلک ٹرانسپورٹ پر یا اکیلے سفر کرتے ڈرتی ہیں تو سیماب پڑھائی کے ساتھ ساتھ جاب بھی کررہی تھی۔ اس نے بنک میں جاب کی، ھر ایڈورٹائزنگ کی جاب کی، وہاں سے اسنے اے ٹی وی جوائن کیا۔ میوزک شوز کئے اور یوں ریڈیو سے جنگلز اور میوزک شوز کرتے سلور سکرین پر آگئی۔ آر جے سے وی جے بن گئی۔

کسی بھی ایکٹر کے لیے یہ کتنے فخر کی بات ہوگی کہ اسکو اس کا سب سے پہلا کردار منو بھائی جیسے نامور لکھاری کے ڈرامے میں ملے۔ پھر ثمینہ احمد نے اسے ہاف پلیٹ میں کاسٹ کیا۔ اسکے بعد اپنے سفر کی ایک بہت بڑی کامیابی تارڑ صاحب کے ساتھ "شادی آن لائین" کی شکل میں ملی۔ تارڑ صاحب کے "کو ہوسٹ" کے طور پر۔

تارڑ صاحب سیماب کے لیے ایک استاد اور مینٹور ثابت ہوئے۔ جنھوں نے اسکے ٹیلنٹ کو چار چاند لگادئیے۔ تارڑ صاحب کی کمپنی نے سیماب کے سفر کے شوق اور دنیا کھوجنے کی لگن کو بھی جلا دی۔ پاکستان کے ناردرن ایریاز میں جہاں جہاں وہ گئے سیماب نے بھی ان کے نقش قدم پر وہاں وہاں اپنا پاؤں رکھا۔

اس کی ایک جھلک آپ آگے چل کے "دنیا کی ٹی روڈ پر" میں بھی دیکھتے ہیں۔ مسکراتی کھلکھلاتی سیماب نے سکرین پر آتے ہی دل جیتنا اور کامیابیاں سیمٹا شروع کر دیں۔ ایک کے بعد ایک کامیابی۔ ایک پراجکٹ کے بعد دوسرا پراجکٹ۔

اب عموماً ایسا ہوتا ہے کہ لڑکیاں جب میڈیا میں آتی ہیں تو سب سے پہلے انکی پڑھائی چھوٹتی ہے۔ لیکن میں حیران ہوا کرتی کہ سیماب نے میڈیا کے ساتھ ساتھ کیسے ماسٹرز بھی جاری رکھا اور وہ بھی کمپیوٹر سائنسز میں۔ اور پھر اس میں گولڈ میڈل بھی لیا۔ یہی نہیں پھر NCA سے ویڈیو پروڈکشن میں بھی certification حاصل کی۔

ایک دوست کی حیثیت سے میں نے سیماب کو بہت اچھا انسان پایا۔ بہت درد مند دل والی، دوستوں کی دوست، اپنی ذات کو پیچھے چھوڑ کر سب کے کام انے والی، اپنے دکھ کو چھپا کر دوسروں کے ساتھ خوش ہونے والی، آپ کتنے ہی اداس کیوں نہ ہوں مگر آپ سیماب کے ساتھ بیٹھے ہوں اور اسکے قہقہے آپکے چہرے کی رونق بھی بحال نہ کردیں یہ ہو نہیں سکتا۔

سکرین پرتو سیماب آپ کو، مجھے، سب کو ایک سی دکھتی ہے پیاری سی، کیوٹ سی، (ہاں بھئی مجھے تو سیماب کیوٹ ہی لگتی ہے، یہ پارہ صفت، بے چین روح آج بھی اتنی ہی کیوٹ ہے جتنی بچپن میں تھی)

سچ کہوں تو وہ سکرین کے پیچھے مجھے مجھے زیادہ اچھی لگتی ہے، کیونکہ اس وقت وہ صرف میری دوست ہوتی ہے، اور ہم دنیا جہان کی باتیں کرتے ہیں، وہ زیادہ بولتی اور میں سنتی ہوں ہے(حالانکہ میں چپ رہنے والوں میں سے نہیں ہوں)، کیونکہ مجھے اسکی باتیں سننے میں مزہ آتا ہے، کہ جتنی دنیا اتنی چھوٹی سی عمر میں سیماب نے ایکسپلور کرلی ہے اور جتنا تجربہ اسکا ہے میں چھوٹے بچوں کی طرح بڑے شوق سےتھوڑی تلے ہتھیلی رکھ کر بیٹھ جاتی ہوں اور پھر کبھی حراموش، چترال، سیف الملوک کی کہانیاں، کبھی کے ٹو اور نانگا پربت کی ہائیکنگ کے قصے، کبھی میڈیا کی باتیں، کبھی مستنصر صاحب کے ساتھ گزارے وقت کی سیکھ اور وقت گزرنے کا پتا ہی نہیں چلتا۔

"خبر ناک" تو آپ سب کو یاد ہوگا، اور سیماب کو بھی دیکھا ہوگا آپ نے اس میں، میں نے سیماب کے یو ایس اے جانے کے بعد خبرناک دیکھنا ہی چھوڑ دیا تھا، کیونکہ میں وہ شو دیکھتی ہی سیماب کی وجہ سے تھی۔ اسکے بعد وہ مزا نہیں رہا تھا شو میں (سیماب میری دوست تھی بھئی، میں اسکے قہقہے مس کرتی تھی شو میں)۔ لیکن میں نے سب سے زیادہ سیماب کا جو ڈرامہ انجوائے کیا وہ تھا " کلموہی"۔

ثانیہ سعید کے ساتھ سیماب کی پرفامنس کا ایک شاندار نمونہ۔ آپ نے اگر یہ ڈرامہ اب تک نہیں دیکھا تو دیکھنا مت بھولیے گا۔ میں تو جب بھی دیکھتی آئی ہوں سیماب اپنی بے چین فطرت کے تحت کچھ نہ کچھ کر ہی رہی ہوتی ہے، کوئی نہ کوئی پراڈکٹو کام، کوئی ایکٹیویٹی۔

میڈیا پر تو اس نے اتنے پراجکٹس کئے ہیں کہ مجھے تو کیا اسے خود بھی نہیں یاد ہوں گے، کوئی تیس سے اوپر تو ڈرامے ہی ہوں گے۔ میڈیا میں اتنا وقت گزارنا، فیملی سپورٹ نہ ہونے کے باوجود، پھر اتنی کامیابیاں پانا اور وہ بھی ایک صاف ستھرے راستے پر چل کر اپنے کیرئر کو جاری رکھنا، اپنے آپ کو ہر برائی سے بچا کر ایسی فیلڈ میں آگے بڑھنا آسان کام نہیں، سیماب کو دیکھ کر سوچتی ہوں کہ ابھی میڈیا میں ایسے اچھے لوگ بھی موجود ہیں، جو دوسروں کے رنگ میں رنگ نہیں جاتے، کامیابی پانے کے لیے دوسروں کو سیڑھی نہیں بناتے اور نہ اپنے اصولوں پر کوئی سمجھوتا کرتے ہیں۔

آپ کے ذھن میں یقیناً یہ سوال اٹھتا ہوگا کہ کہ اپنے کیرئیر کی ٹاپ پر جاکر آخر یہ پیاری سی، معصوم صورت اداکارہ غائب کہاں ہوگئی؟ تو جناب میری دوست شہرت کے پہاڑ کی اس چوٹی پر پہنچ کر شادی کرکے پیا گھر کو پیاری ہوگئی۔ اب وہ یو ایس میں ہوتی ہے اور دو اپنے جیسے کیوٹ سے بچوں کی اماں ہے۔

مگر رہی وہ سدا کی بے چین روح، سیماب صفت، اسے وہاں بھی چین نہیں۔۔ وہ وہاں کی دیسی کمیونٹی کی جان ہے، بے کار بیٹھنا اس نے سیکھا نہیں، وہ وہاں بھی خود کو کسی نہ کسی ایکٹیویٹی میں مصروف رکھےہوتی ہے، کہیں چیف گیسٹ بنی ہوتی ہے، کہیں گیسٹ آف آنر، کہیں ٹیلنٹ ہنٹ کی جج، کبھی فنڈ ریزنگ کر رہی ہوتی ہے، کبھی اپنی کمیونٹی کے لیے والنٹیئر کر رہی ہوتی ہے، مجھے اسکی یہ بات بہت بھاتی ہے کہ وہ بڑی سکرین سے دور ہوکر بھی اپنے نام اور اپنی پہچان کو لوگوں کی بہتری کے لیے استعمال کر رہی ہے۔

سیماب پاکستان میں رہتے ہوئے وہ ہائسٹ پیڈ آرٹسٹ تھی مگر وہاں امریکہ میں وہ آگے بڑھ کر اپنی کمیونٹی کی بہتری کے لیے والینٹری اپنی خدمات پیش کرتی ہے۔ وہ چاہتی تو اپنے نام اور شہرت کو کیش بھی کرواسکتی تھی۔

یہاں میں ایک چیز نوٹ کرتی ہوں کہ بہت دفعہ یوں ہوتا ہے کہ انسان پیسہ، شہرت، عزت پاکر غرور میں آجاتا ہے، گردن میں سریا اٹک جاتا ہے انکی، مگر آپ آج بھی سیماب کو ملیں گے تو میری بات سے اتفاق کریں گے کہ وہ کتنی سادہ، منکسر مزاج اور ملنسار لڑکی ہے۔ مگر ساتھ ہی بہت سمجھدار اور پراعتماد۔۔

ہم نے ایک خواب اور بھی ساتھ دیکھا تھا، ہم دونوں پلان کیا کرتے تھے کہ بڑے ہوں گے تو ان شاءاللہ انسانیت کی بھلائی کے لیے اور رفاح عامہ کے لیے کچھ نہ کچھ ضرور کریں گے۔ ایدھی صاحب ہماری موسٹ فیورٹ اور انسپائرنگ شخصیت تھے۔ ہم سوچا کرتے یا تو ایک دن ان کو جوائن کرلیں گے یا پھر اپنی ایک چیرٹی بنائیں گے۔ پھر کالج کی سیڑھیوں پر بیٹھ کر دیکھے اس خواب کی تعبیر "زادراہ فاؤنڈیشن" کی صورت میں سامنے آئی۔ ہماری ٹیم ملک کے مختلف دیہاتی اور شہری علاقوں میں فلاحی کام کر رہی ہے اور الحمدللہ آج ہم دونوں پر اللہ سبحان و تعالیٰ کی مہربانی ہے کہ اللہ العظیم ہم سے اپنا کام لے رہے ہیں۔ نام اور دکھاوے کی چاہ سے بچتے ہوئے اپنی چھوٹی سی "زادراہ فاؤنڈیشن"کو آخرت کا زادراہ بنانے کی چاہ ہے۔ ہماری خواہش ہے کہ جب اس دنیا سے جائیں تو کچھ صدقہ جاریہ چھوڑ کر جائیں جو آگے بھی ہمارے لیے کام آئے، اللہ تعالیٰ ہمیں اس مشن میں کامیاب کریں۔

میری طرح آپکے ذھن میں بھی یہ سوال اٹھتا ہوگا کہ کیسا لگتا ہے کہ اتنی گلیمرس لائف اور لائم لائٹ سے نکل کر گھریلو خواتین کی طرح گھر کی ہوکر رہ جانا اور بچے پالنا۔ میں نے ایک بار سیماب سے پوچھ ہی لیا کہ چلو میری بات تو اور ہے مجھے کبھی جاب کرنے اور گھر سے باہر نکلنے کا شوق نہیں تھا میرے سارے شوق گھر پر پورے ہو جاتے ہیں، لکھنا لکھانا، خطاطی، پینٹنگ کسی بھی کام کے لیے باہر نہیں نکلنا پڑتا۔ تو تمھیں اتنی رنگ برنگی چمک دمک والی دنیا سے نکل کر گھرداری کی لائف بورنگ نہیں لگتی؟

اسکا جواب تھا کہ "ہاں واقعی گھر کی لائف میں وہ والا گلیمر تو نہیں ہے مگر میں نے اپنی بہت چھوٹی عمر میں وہ شہرت اور کامیابی حاصل کی ہے جس کے لیے لوگ سالوں کوشش کرتے ہیں، مجھے اللہ رب العزت نے پیسے اور شہرت کے علاؤہ بہت عزت دی، میں پاکستان کا کونا کا کونا گھوم چکی ہوں، مجھے جاننے والا ہر شخص آج بھی میرے ساتھ اتنی ہی عزت سے پیش آتا ہے جتنی کل کرتا تھا۔ الحمدللہ میری فیملی کو کبھی میری وجہ سے کسی شرمندگی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا، جس طرح میرے لیے وہ اس فیلڈ میں آنے اور مجھے آزادی دینے سے ڈرتے تھے میں نے کبھی اس لائن میں آنے کا غلط فائدہ نہیں اٹھایا اپنی حدود اور اصول کے دائرے میں رہ کر نام کمایا۔ اسی لیے آج میں اپنے بچوں کے سامنے فخر سے سر اٹھاکر چل سکتی ہوں۔ میں اپنے بچوں کے علاؤہ دوسروں سے بھی یہی کہتی ہوں کہ کبھی اپنے اصولوں پر کمپرومائز نہ کریں نہ سستی شہرت کے لیے، نہ اس دنیا کے کسی وقتی فائدے کے لیے۔

شادی تو آپ کو کرنی ہوتی ہے پاکستان ہوتی تب بھی شادی تو ہونی تھی۔ شادی کے بعد بہت کچھ بدل جاتا ہے، آپکی ترجیحات مختلف ہو جاتی ہیں، بچے چھوٹے ہوں تو ان کو وقت دینا ہوتا ہے پھر جب یو ایس آنا پڑا تو ظاہر ہے وہاں کے سب پراجکٹس وائنڈ آپ کرکے آنا تھا۔

مگر مجھے بہت سکون ملتا ہے جب یہ سوچتی ہوں اب کم از کم میں پردیس میں بیٹھ کر اپنے گھر اور بچوں کی کئیر کے ساتھ ساتھ اپنے لوگوں کے کسی کام تو آرہی ہوں۔ یہاں کی دیسی کمیونٹی کے ذریعے اپنے وطن سے جڑی ہوئی ہوں۔ زندگی کے ہر دور اور ہر مقام کی اپنی خوبصورتی ہوتی ہے۔

نئی نسل کو بھی یہ سمجھنا چاہیے کہ آپکے پاس اگر وقت اور انرجی ہو تو اسے بے کار کاموں میں ضائع مت کریں، اسے کام میں لائیں، اپنے لیے تو سبھی جیتے ہیں۔ مزہ تو دوسروں کے لیے جینے میں ہے۔

اب کے لیے اتنا ہی۔۔ اگلی بار سیماب کے ساتھ گزارے ٹرپ کی باتیں اور اسکے ٹریول کے قصے بھی شئیر کروں گی اور اب جب کبھی مجھے کتابیں لکھنے سے فرصت ملی اور میں نے کوئی ڈرامہ لکھا تو مجھے پتا ہے میرے پاس ہیروئن موجود ہے ہاں ہیرو ڈھونڈھنا پڑے گا۔

Check Also

Shayari Nasal e Insani Ki Madri Zuban Hai

By Nasir Abbas Nayyar