Tuesday, 07 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Qasim Taj/
  4. Gujranwala

Gujranwala

گجرانوالہ

گجرانوالہ، پہلوانوں کا شہر گجرانوالہ، میٹھائیوں کا شہر گجرانوالہ یا رنجیت سنگھ کا شہر گجرانوالہ۔ آپ جتنا بھی اس شہر کے بارے میں جانتے ہیں شاید کم ہی جانتے ہیں۔ تاریخ، جدید صنعت کاری، پہلوانی، میزبانی اور شاندار کھانے ہر چیز میں اپنی مثال آپ گجرانوالہ۔ میں آج تک سعودی عربیہ کے سوا کسی بیرون مُلک نہیں گیا، مالی حالات ساتھ بھی نہیں دےرہے اور رہی سہی کسر کورونا نے نکال دی ہےمگر اس کے باوجود میرے پاؤں میں شاید پہیے لگے ہوئے ہیں یہ ایک جگہ رُکتے ہی نہیں اور یہی پہیے مجھے عید کے تیسرے دن اپنے ساتھیوں بلال اور مطیب کے ساتھ گجرانوالہ لے جا کر دے مارا۔

میں پاکستان کا بے شمار حصہ دیکھ چُکا ہوں اور میں اب اس بات کا قائل ہوچکا ہوں کہ ہمارے مُلک میں کسی چیز کمی نہیں ہےاگر کوئی کمی ہے تو وہ کمی ہمارے اندر اعتماد کی ہے۔ جیسے ایک انسان کی ترقی کے لیے خود پر اعتماد ہونا بہت ضروری ہے ویسے ہی قوموں کی ترقی کا انحصار بھی خود پر اعتماد کی بنیاد پر ہی ہے۔ آپ امریکہ کی مثال ہی لے لیجئے امریکہ ایک عرصہ سے خود اعتمادی کی بنیاد پر دُنیا پر راج کرتا رہا ہے امریکیوں کے اندر ایک عجیب سا احساس برتری ہےاور اب وہ اعتماد شاید تکبر میں تبدیل ہو رہا ہے اسی لیے امریکہ بھی اب زوال کی طرف رواں دواں ہے۔

خیر ہم گجرانوالہ کی طرف واپس آتے ہیں ضلع گجرانوالہ ہمارے مُلک کا تیسرا سب سے بڑا صنعتی شہر ہے۔ وزیرآباد میں دنیا کے سب سے شاندار چاقو، چھریاں اور سرجیکل آلات تیار کیے جاتے ہیں اور اُن کی نفاست کی مداح تو جرمن قوم بھی ہے۔ کسی زمانے میں گجرانوالہ کے بھی گیارہ دروازے ہوا کرتے تھے ہم وہاں صرف گھنٹہ گھر، سیالکوٹی دروازہ، لاہوری دروازہ دیکھ اور باقی دروازے کا نام و نشان نہ ہی مل سکا۔

شہر میں سکھوں کے بے شمار مقدس و تاریخی مقامات ہیں۔ حضرت روہڑی صاحب کا گُردوارہ، سکھوں کا باغ اور سکھوں کی تاریخ کے سب سے اہم مہاراجہ رنجیت سنگھ کے پیدائش کی جگہ بھی یہاں موجود ہے۔ ہمیں رنجیت سنگھ کی حویلی دیکھنے کا بھی اتفاق ہوا، جب ہم حویلی پہنچے تو حویلی کو تالا لگا ہوا تھا جس پر میرا دل بجھ گیا، نکڑ پر ایک شخص بیٹھا تھا، میں دروازہ بند دیکھ کر اپنے دوستوں کو مہاراجہ کی شان و شوکت اور عروج و زوال کی کہانی سننانےلگ پڑا۔ وہ شخص ہمیں دیکھ رہا تھا اُس نے ہم سے پوچھ گچھ کی تومیں نے بطور لکھاری اپنا تعارف کروایا یہ سُن کراُس کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی اور حویلی کی چابیاں لینے چلا گیا بعدازاں اُس نے ہمیں حویلی کا دروازہ کھول دیا۔ دروازہ کھولنے پر مجھے بہت خوشی ہوئی مجھے اتنی خوشی شایدآخری دفعہ یونیورسٹی کے کانووکیشن پر ڈگری ملنے پرہوئی تھی۔ حویلی کےحالات دیکھ کر میرا دل بہت افسردہ ہوا جیسے کسی لکڑہارے کو قیمتی لکڑی ضائع ہونے ہر دُکھ ہوتاہے۔

ویسے ہی مجھے بھی شدید اضطراب تھا ہم لوگ روہڑی صاحب کے گرُدوارے پر بھی جانا چاہتے تھے مگر راستے میں ریلوے پھاٹک بند ہونے کی وجہ سے اچانک واپس لوٹنے کا فیصلہ کیا۔ کیونکہ دن شام میں تبدیل ہورہا تھا اور ہم نے ابھی شہر دیکھنا تھا کچھ فیصلے اچانک لینا ضروری ہیں ورنہ بہت دیر ہوجاتی ہے۔ گجرانوالہ میں کھانے کے لیے چڑے، تلیر اور مٹھائیاں بہترین موجود ہیں مگر ہم وہ سب لاک ڈاؤن کی وجہ سے نہ کھاسکے اور ہماری زبان گجرانوالے کے ذائقوں سے واقف نہ ہوسکی، مگر پیدل چل چل کر ہمارے قدم گجرانوالہ کی گلیوں سے واقف ہوچکے ہیں اور میری آنکھیں اس شہر سے سیر ہوگئی ہیں میری آپ سے بھی درخواست ہے آپ بھی زبان، قدم اور آنکھوں کو دوسروں جگہوں سے واقف کار بنائیں کہیں ایسا نہ ہواس سے پہلے ہماری سانسیں ہی ہمارے لیے اجنبی ہوجائیں۔

Check Also

Punjabi Honarmandi

By Mansoor Nadeem