Monday, 23 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Qasim Ali Khan
  4. Sabhi Chaman Hote To

Sabhi Chaman Hote To

سبھی چمن ہوتے تو

میں آئی جے پی روڈ سے اسلام آباد جا رہا تھا۔ جبکہ اس روڈ کو میں ہمیشہ ٹرکوں والی روڈ ہی کہتا ہوں۔ ہمارے ہاں چھوٹی بڑی گاڑیوں پر بعض اوقات ایسی ایسی تحریں یا بول لکھیں ہوتے ہیں کہ جن کو پڑھتے ہوئے بڑا مزہ آتا ہے اور سفر خوشگوار سا ہو جاتا ہے۔ کبھی تو ایسے جملے بھی پڑھنے کو مِل جاتے ہیں کہ انسان سوچ میں پَڑ جاتا ہے۔ جیسے کہ ایک ٹرک کے پیچھے لکھا ہوا تھا۔ سبھی چمن ہوتے تو ویرانے کدھر جاتے؟

میں نے جب یہ جملہ پڑھا تو کافی دیر تک سوچتا رہا اور سارا دن اسی جملے کے لطف میں ہی گزار دیا۔ اس جملے کو پڑھنے کے بعد دماغ مسلسل حرکت میں رہا اور بہت سی یادوں، باتوں اور نصیحتوں نے دماغ پر ڈیرے جما لئے۔

بات تو سچ ہے۔ اگر ہرطرف باغ ہی باغ اور پھول ہی پھول ہوتے تو بنجر زمینوں پر کون محنت کرتا اور کانٹوں سے اپنے دامن کو کون بچا بچا کر چلتا۔ پھر ہر طرف ہریالی اور خوشحالی ہی خوشحالی ہوتی تو غم کے نغمے کون گاتا۔ میرے ناقص علم کے مطابق انسان کے لئے یہ زمین آزمائشوں کا ایک مقام ہے۔ جہاں پر دھوپ بھی ہے، سایہ بھی ہے، غم اور خوشی بھی سفر میں ہیں۔ بارش کسی کے لئے رحمت تو کسی کے لئے زحمت ہے اور موت ہر وقت زندگی کو دبوچ لینے کے تعاقب میں بیٹھی ہے۔ بس ایک ہی لہر ایسی ہے کہ جس نے انسان کو زندہ رہنے پر مجبور کیا ہوا ہے اور وہ ہے اُمید۔ انسان بھی کیا ہے کہ حد سے بڑھ کر زندگی سے اُمیدیں لگا لیتا ہے پھر یہی اُمیدیں ٹوٹتی ہیں اور انسان مایوس ہوجاتا ہے، پھر کسی نئی اور دوسری اُمید پر جینے لگ جاتا ہے۔ اُمیدیں لگاتے لگاتے نامعلوم اِک دن زندگی چپکے سے موت کی دہلیز پر جاپہنچتی ہے۔

سبھی چمن ہوتے تو ویرانے کدھر جاتے یہ جملہ مجھے اسکول کے طالبِ علمی زمانہ تک بھی لے گیا۔ میرے استادِ محترم سر مدثر رضا خان اکثر کہا کرتے تھے کہ ہر شخص کی گٹھڑی میں لعل ہے۔ ہر شخص کے آنگن میں سورج اُترتا ہے۔ اِس کی وضاحت کچھ یوں کیا کرتے تھے کہ اللہ ہربندے کو اپنی زندگی کو بدلنے کا کم ازکم ایک موقع ضرور دیتا ہے اب یہ بندے پر ہے کہ وہ اُس موقع سے فائدہ اُٹھاتا ہے کہ نہیں؟ معافی کے ساتھ اب میرے علم کے مطابق اور اللہ کی مہربانیوں کو دیکھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ اللہ اپنے بندے کو اپنی حالت کے بدلنے کے لئے ایک نہیں بلکہ بہت سے مواقع دیتا ہے۔ اب یہ بندے تک ہے کہ وہ انسان بنتا ہے کہ جانور۔ اگر انسان بنتا ہے تو زندگی مہکتا چمن بن جائے گی اور اگر مہکتا چمن نہیں بھی بنتی تو کم از کم مہکتے چمن کا سایہ ضرور بن جائے گی۔

مجھے استادِ محترم کی مزید باتیں یاد آنے لگیں، آپ اکثر یہ بھی کہا کرتے تھے کہ سب امیر ہوجائے تو کوئی امیر نہیں اور اگر سب غریب ہوجائے تو کوئی غریب نہیں۔ اسی طرح میرے اباسلامت تقریباً ہر روز ہی کسی نا کسی بات کے حوالے سے ہمیں نصیحت کرتے رہتے ہیں۔ ابا کی طرف سے نصیحت اکثر و بیشتر یہ ہوتی ہے کہ رزق اللہ کی تقسیم ہے اور نشیب و فراز زندگی کا حصہ ہے کسی کو اللہ بہت سا نواز دیتا ہے تو کسی کو غریب ہی رکھتا ہے مگر تم آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے رہنا جس بھائی کو اللہ اپنی مہربانیوں سے نواز دے اس کو چاہیئے کہ وہ اپنے دوسرے کمزور بھائی کے ساتھ کھلے دل سے تعاون کرے ایسا کرنے سے بھائی خوش ہوجائے گا اور بھائی کی خوشنودی سے تمہیں اللہ مزید نوازے گا۔

سنو سبھی چمن نہیں ہوسکتے اور سبھی مقام پر ویرانے بھی ڈھیرے نہیں ڈال سکتے۔ یہ اللہ کی تقسیم ہےوہ کسی کو دے کر آزماتا ہے تو کسی سے لے کر آزماتا ہے یہ زمین آزمائشوں کا ایک مقام ہے کہیں خار ہے تو کہیں گلزار ہے۔ کہیں بلندی تو کہیں گھاٹی ہے۔ یعنی اُتار چڑھاؤ زندگی کا حصہ ہے۔ آپ بس صبر والے مقام پر صبر اور شُکر والے مقام پر شُکر کرو اِن دونوں پہ اجر ہے اور ممکن ہو تو کبھی صبر والے مقام پر شُکر کر کے دیکھنا اللہ عجب مہربانیاں تم پر کرے گا پھر ہر طرف چمن ہی چمن ہونگے اور آپ کی کائنات میں ویرانوں کے لئے جگہ نہیں بچے گی۔

اللہ اپنے حبیب ﷺ کے صدقے سے حضور ﷺ کی اُمت پر رحم فرمائے بالآخر سبھی چمن جنت میں بطورِ انعام ہونگے، اور سبھی ویرانے جہنم میں بطورِ سزا ہونگے۔ اللہ اپنے حبیب ﷺ کے صدقے سے حضور ﷺ کی اُمت کی اصلاح فرمائے اور آپ ﷺ کی اُمت کو جنت کے چمن کا وارث بنائے۔

Check Also

Pakistan Ke Door Maar Missile Programme Se Khatra Kis Ko Hai

By Nusrat Javed