Aajzi
عاجزی
عاجزی اللہ کے محبوبﷺ کی بڑی محبوب سنت ہے۔ اخلاق کی معراج عاجزی ہے۔ بندگی کی معراج عاجزی ہے۔ کسی قِسم کی طاقت کے ہونے کے باوجود اپنا گمنام سا تعارف بیان کرنا عاجزی ہے۔ نعمتوں اور رحمتوں پر شُکر پھر مصائب و تکالیف پر صبر عاجزی کی بڑی علامات ہیں۔ عاجزی دراصل جُھک جانے کو کہتے ہیں۔ ہر حُکم کو تسلیم کر لینے اور اُس حکم کی ہر ممکن پیروی کرنے کو عاجزی کہتے ہیں۔ اپنی ذات کی نفی کا نام عاجزی ہے یعنی اپنی ذات اور اپنے منصب کی نفی کر کے اللہ کی مخلوق سے محبت کرنا اور اللہ کی مخلوق کو آسانیاں پہنچانا عاجزی ہے۔ بندے میں سے بندے کی میں کا نِکل جانا ہی عاجزی کا سفر ہے۔
انسان دراصل کمزور پیدا ہوا ہے۔ انسان کو پیدائش سے لے کر موت تک سہاروں کی ضرورت پڑتی ہے۔ انسان انسان کے بِنا رہ ہی نہیں سکتا۔ انسان کی خوشی غمی بلکہ انسان کے سارے اعمال انسانوں سے ہی وابستہ ہیں حتیٰ کہ انسان کی جنت جہنم بھی انسانوں سے ہی وابستہ ہے۔ اِدھر انسان کی ابتدا یعنی پیدائش کو دیکھ لیں کمزوری اور بےبسی کی علامت ہے۔ پھر انسان کی موت کو دیکھا جائے تب بھی بےبسی اور سہاروں کی ضرورت ہے۔ انسان خاکسار ہے اور خاکساری کو عاجزی ہی جچتی ہے۔ انسان اپنی مرضی سے پیدا نہیں ہوا اور نا ہی اپنی مرضی سے اپنی مرضی کی موت مرے گا۔ انسان کی اپنے وجود پر مکمل قدرت نہیں ہے۔ دل کی دل لگی کو اپنی مرضی سے رنگین کر سکتا ہے مگر دل کا دھڑکنا کسی اور قدرت کے اختیارہے۔ دماغ میں اچھا یا بُرا گمان لانا تیرے اختیارمگر دماغ کی رگیں قدرت کے اختیار میں ہیں۔ وجود تیرا مگر وجود میں خون کی فراوانی رَبّ کے اختیار سے ہے۔ اچھی خوراک تو کھا سکتا ہےمگر خوراک کو ہضم کرنا تیری سوچ سے مخفی ہے۔ اچھائی بُرائی کو دیکھنا تیرا اختیار مگر آنکھ میں بینائی رَبّ کا امر ہے۔ بولتا تو ہے مگر تیرے بولوں میں آواز کو رَبّ پیدا فرماتا ہے ورنہ زبان تو گونگے کے پاس بھی ہے مگر بولنے کی قوت سے محروم اور اِسی طرح آنکھیں تو اندھے کے پاس بھی ہیں مگر بینائی سے محروم آنکھوں کا کیا کرنا؟ پھر تیرے وجود میں روح پر تیرا کوئی اختیار نہیں۔ کبھی بھی کسی بھی وقت روح تیرے وجود کے قفس سے بےدخل ہو سکتی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ انسان کا خود پر کچھ بھی اختیار نہیں ہے۔ سب خام خیالی ہے۔ سب واہمہ ہے۔ جب انسان کا جسم، اپنا وجود، اپنے حُسن اور اپنی طاقت، صحت پر ہی کُلی اختیار نہیں۔ تو پھر کیوں انسان متکبر بن جاتا ہے۔ جب کچھ بھی اپنا نہیں بلکہ اپنا وجود بھی اپنا نہیں چونکہ انسان بےبس ہے عاجز ہے گوکہ انسان کو پھر ایک ہی ادا جچتی ہے یعنی عاجزی اختیار کر لے۔ تسلیم کر لے۔ اطاعت میں ہی اپنی زندگی کو بسر کرنے لگے اِسی میں ہی خیر ہے۔
سینکڑوں بہانے کر کے دیکھ لو حقیقی عزت کو پانے کے۔ بالآخر ماننا پڑے گا کہ انسان کو بس ایک ہی ادا۔ بس ایک ہی صفت جچتی ہے عاجزی کی صفت۔ چونکہ انسان عِجز ہے۔ کمزور ہے۔ ایک سر درد کو تو برداشت نہیں کر سکتا اور اللہ کی زمین پر اکڑ اکڑ کر چلتا ہے۔ یہ انصاف نہیں ہے۔ یہ ادا کمزور کو جچتی نہیں ہے۔ دراصل انسان کا قصور یہ ہے کہ انسان بھول گیا ہے۔ اور انسان موت سے بچنا چاہتا ہے۔ دیر تک یہی رہنا چاہتا ہے۔ موت کی خطابت کو انسان پسند نہیں کرتا۔ مان جاؤ تسلیم کر لو۔ تسلیم کر لینے میں ہی خیر ہے۔ عافیت ہے۔
جناب محمود غزنویؒ کا وزیرِخاص ایک عام سا بندہ ایاز تھا۔ باقی کے وزیر مشیروں نے کہا کہ ہم بہت سمجھدار ہیں۔ ہم بڑے قبائل سے ہیں، ہم عزت والے ہیں۔ ہم حسب نسب والے ہیں۔ آپ نے ایک عام سے بندے کو اتنا بڑا مقام عطا کر دیا ہے۔ مگر حقیقت میں ایاز عام بندہ نہیں تھا بہت ذہین بلکہ فطین ذہن کا مالک تھا مگر ہر چند عاجز ہی رہا اور ہمیشہ عاجزی کو ہی اپنائے رکھا۔ غزنویؒ جانتے تھے ایاز کی حقیقت کو مگر ایاز نے عاجزی کو ہی بہتر سمجھا۔
خیر غزنویؒ نے ایک روز محل میں سب کو اکٹھا کیا اور سب وزیروں کو ایک قطار بندی کا حکم دیا۔ پہلے وزیر کو بلایا اور اپنے پاس سے اُسے کچھ عطا کیا اور پوچھا کہ یہ کیا ہے۔ وزیر بولا آقا یہ تو بہت قیمتی پتھر ہے یہ تو ہیرا ہے۔ بادشاہ بولا کہ توڑ دو اِس کو۔ وزیر کہنے لگا آقا ہم تو آپ کے خیرخواں ہیں اِس قیمتی پتھر کو نہ توڑنے کی رائے ہی آپ کو دے سکتے ہیں۔ اسی طرح باری باری سب کو بلایا سب یہی کہنے لگے کہ یہ ہیرا ہے اور بہت ہی قیمتی پتھر ہے۔ آپ اِس کو ہم سے مت تڑوائے بلکہ حضور اِس ہیرے کو سنبھال کر رکھیئے۔ جب ایاز کو بُلایا گیا۔ ایاز نے بھی حسبِ معمول کہا کہ بہت قیمتی پتھر معلوم ہوتا ہے اور اِس پتھر کا نام ہیرا ہے۔ حکم ہوا کہ توڑ دو اِس کو۔ ایاز نے بِلا کچھ سوچے سمجھے فوراً سے توڑ دیا۔ قیمتی ہیرا کرچی کرچی ہو کر زمین پر مختلف ٹکڑوں میں بَٹ گیا۔ سب حیران ہوئے اور کہا کہ تم نے یہ کیا کر دیا ہے؟ ایاز بولا کہ تم نے بادشاہ کے حکم کو توڑا ہے جبکہ میں نے بادشاہ کا حکم نہیں بلکہ پتھر کو توڑا ہے۔ بادشاہ سلامت کھڑے ہوئےاور بولے۔ ایاز تم نے ایسا کیوں کیا ہے؟ ایاز بولا حضور خطا ہو گئی ہے۔ معافی کا طلبگار ہوں۔
ایاز کے یہ بول سن کر بادشاہ بولا کہ یہی فرق ہے تم میں اور ایاز میں۔ اِسی لیے ایاز ہمارا بہت خاص ہے۔ ایاز کہہ سکتا تھا کہ بادشاہ سلامت آپکا حکم تھا مگر نہیں کہا۔ بلکہ کہا کہ مجھ سے غلطی ہوگئی ہے۔ اب میں اِس غلطی کی سزا پر اِس کو سولی بھی چڑھا سکتا ہوں۔ چونکہ یہ غلطی کو تسلیم کر رہا ہے۔ اگر ایاز یہ کہتا کہ بادشاہ سلامت حکم تو آپ کا تھا ہم نے تو صرف حکم کی تعمیل کی ہے۔ تو تب اگر میں اِس کو سولی پر چڑھاتا ہوں، تو کوئی عادل یا منصِف بندہ ایاز کے حق میں فیصلہ سُنا کر اِس کو موت کی سولی سے ہٹا سکتا تھا۔ چونکہ حکم ہمارا تھا جبکہ ایاز نے غلطی اپنے سر لے لی ہے۔ اب سولی اِس کا مقدر ہے۔ بلکہ یہی غور کا مقام ہےیہی عاجزی ہے۔ حکم کی تعمیل کرتے رہنا اور اِس کے باوجود بھی خود کو ہی قصوروار ٹھہرانا یہی عاجزی ہے۔ کہ ہر رنگ میں یار کی رضا ہو، یار کا حُکم ہو اور بندہ خاکسار سرنگوں ہو جائے۔ چونکہ کمزور کو لڑنے سے پہلے ہی ہار ججتی ہے۔ ورنہ میدان میں اُتر کر اپنے وجود کو تکلیف سے گزار کر پھر ہار کو تسلیم کرنا دانشمندی نہیں۔ کمزور کا طاقتور سے کوئی مقابلہ نہیں۔ کمزور تو کمزور ہے۔
وہ کہے کہ فُلاں بندہ بہت بااخلاق ہے بڑا عاجزی کا معمہ ہے۔ مگر جب اُس سے ہمکلام ہوا جائے تو اُس کا وجود دہشت کا پیغام دے، بُردباری اور خوف اُس کے لہجوں سے ٹپکے۔ ممکن نہیں کہ ایسا بندہ عاجز ہو۔ چونکہ عاجزی کسی کے تعارف سے نہیں۔ عاجزی تو بولوں سے نظر آتی ہے۔ عاجزی تو عمل سے نظر آتی ہے۔ عاجزی تو بڑی عاجزی سے آتی ہے۔ ہاں یہ ممکن ہے کہ وہی شخص بظاہر بہت عابد ہو بڑا عبادت گزار ہو۔ اور پیشانی سجدوں کی گواہی دے رہی ہو۔ مگر ایساشخص جس کا لہجہ تلخ ہو، جس سے بات کرنے سے خوف آئے ایسا شخص عابد تو ہو سکتا ہےمگر بااخلاق نہیں ہو سکتا۔ چونکہ اخلاق کے مقام تک پہنچنے کے لئے عاجزی کی دہلیز سے گزرنا شرط ہے۔ جب عاجزی آ جاتی ہے تو اخلاق محبت کا پیغام بن جاتا ہے۔ عاجزی اخلاق کے بِنا یا اخلاق عاجزی کے بِنا ممکن نہیں۔ یہ دونوں ایک ہی مقام کے دو نام ہو سکتے ہیں۔ یہ دونوں مقام ایک دوسرے سے مِل کر بندے کی عظمت کو مزید عظمتیں عطا کرتے ہیں۔ عاجزی کسی بندے کے خوف سے نہ اپنائی جائے بلکہ عاجزی اللہ کے خوف سے اپنائی جائے۔ پھر عاجزی اللہ اور اللہ کے حبیبﷺ کی رضا و خوشنودی کے لئے اپنا کر، اللہ کے بندوں سے عاجزی کا معاملہ پیش رواں رکھا جائے۔ یہی عاجزی کا حق ہے کہ عاجزی کی رضا کا مہور اللہ اور اللہ کا رسول ﷺ ہو اور عاجزی کا برتاؤ اللہ کی مخلوق سے ہو۔ اللہ کی رضا کے لئے جھکنا یعنی عاجزی اختیار کرنابڑی بلندیوں اور بڑی رفعتوں کا پیغام اور انعام ہے۔ جس نے اللہ کی رضا کے لئے عاجزی اختیار کر لی اس کے لئے دونوں جہانوں میں عزت ہے۔ آخر میں پھر کہتا ہوں کہ انسان کمزور ہے اور کمزور کو ایک ہی ادا ججتی ہے کہ وہ عاجز ہی بن کر رہے چونکہ عاجزی میں ہی خیر ہے۔ اللہ اپنے حبیبﷺ کے صدقے عاجز رہنے اور عاجزی میں ہی زندگی گزارنے کی توفیق بخشے۔ آمین۔