Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Qamar uz Zaman
  4. Kasrat e Kainat

Kasrat e Kainat

کثرتِ کائنات

کسی کی اپنی جان ہی اس کا جہان تو کسی کی کل کائنات اس کا خاندان۔ کسی کیلیئے اس کی آنکھ کا تارا ہی اس کی کائنات تو کسی کیلیئے کائنات کی حد تاروں بھرا آسمان۔ لیکن جن کے تخیل کی پرواز بلند ہے وہ چاند تاروں سے بھی ماورا جہانوں کی بات کرتے ہیں۔

شاید کہ زمیں ہے یہ کسی اور جہاں کی

تُو جس کو سمجھتا ہے فلک اپنے جہاں کا!

انسان نے پہلے زمین پر اپنے وطن سے آگے کے بحر و بر کو کھنگالا پھر اس کے تخیل نے آسمانوں کا رخ کیا تو بتدریج اس نے سورج، چاند اور ستاروں جیسے فلکیاتی اجسام کی ہیئت اور حرکت پر تحقیق کرنے کے بعد ان کے متعلق حقائق اور قوانین مرتب کئے۔ پھر اربوں ستاروں پر مشتمل کہکشاؤں کو دریافت کیا اور بالآخریہ بھید پایا کہ ہماری کائنات کھرب ہا کہکشاؤں کا مجموعہ ہے۔ پروازِ تخیل کا یہ سلسلہ چلتے چلتے اس مقام تک پہنچ گیا ہے کہ انسان اب اپنی کائنات سے ماورا کائناتوں کے ایک لامحدود سلسلے یعنی Multiverse کی باتیں کر رہا ہے۔ اب اس خیال کو مشاہدے اور تجربے کی بھٹی میں ڈالنے کی تیاریاں ہیں۔

لاتعداد کائناتوں کا تصور یونانی فلسفیوں اور انیسویں صدی کے امریکی ادب میں بھی ملتا ہے۔ جدید دور میں یہ تصور سائنسی افسانوں پر مبنی فلموں کی بدولت عام ہوا۔ تاہم اب یہ تصور سنجیدہ سائنسی بحثوں کا موضوع بن رہا ہے اگرچہ ماہرینِ طبعیات کی ایک کثیر تعداد ابھی بھی اسے قبول کرنے کو تیار نہیں۔ اس تصور سے جڑا ہوا ایک دوسرا تصور متبادل حقیقت یعنی Alternate Reality کا تصور ہے جس کے متعلق امریکہ کی سٹینفورڈ یونیورسٹی کے ماہرِ طبیعات ڈاکٹر آندرے لنڈے کا کہنا ہے کہ ابھی تک حقیقت کے متعلق ہمارا فہم مکمل نہیں ہے۔ حقیقت ہم سے آزادانہ اور جداگانہ موجود ہے۔

ملٹی ورس یعنی کثرتِ کائنات کیا ہے؟ یہ ایک ایسی اصطلاح ہے جسے سائنسدان ہماری قابلِ مشاہدہ کائنات سے ماورا دیگر کائناتوں کی موجودگی کے امکان کو بیان کرنے کیلیئے استعمال کرتے ہیں۔ لا تعداد کائناتوں کی پیشگوئی متعدد سائنسی نظریات سے ہوتی ہے جو اس مقصد کی خاطر مختلف ممکنہ منظر نامے تشکیل دیتے ہیں مثلاً یہ ہماری کائنات سے باہر مختلف خلائی خطے ہیں یا پھر یہ علیحدہ علیحدہ بلبلہ نما کائناتیں ہیں جو مسلسل ظہور پذیر ہو رہی ہیں۔ ان تمام نظریات میں یہ مشترکہ نکتہ ہے کہ شاید ہمارے زیرِ مشاہدہ زمان و مکان ہی واحد حقیقت نہیں ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا سائنسدان کبھی حتمی طور پر یہ جان پائیں گے کہ آیا ہماری کائنات اکلوتی ہے یا اس کا کوئی ہمسر ہے؟ اس حوالہ سے کئی نظریات زیرِ غور ہیں۔ کثرتِ کائنات کے امکان کو قابلِ قبول بنانے میں جو نظریہ سب سے زیادہ مقبول ہوا ہے اسے Inflationary Cosmology یا Cosmic Inflation یعنی پھْلاؤ پر مبنی علمِ کائنات یا کائناتی پھْلاؤ کا نام دیا گیا ہے۔ اس نظریہ کے مطابق Big Bang یعنی عظیم دھماکے کے نتیجہ میں جب کائنات کی تخلیق ہوئی تو اولیں ساعتوں میں انتہائی قلیل دورانیے (سیکنڈ کے کھرب ہا کھرب سے بھی کم حصے میں) کا توضیحی پھْلاؤ بہت سرعت سے پیدا ہوا اور ساتھ ہی خلائی پھیلاؤ کا عمل بھی جاری رہا۔ پھر اس توضیحی عرصے کے بعد بھی کائناتی پھْلاؤ جاری رہا لیکن کافی کم شرح سے۔ اس نظریہ کے مطابق ایسا پھْلاؤ بار بار لامحدود دفعہ واقع ہو کر بلبلہ نما کائناتوں کے ایک جھرمٹ کو وجود میں لا سکتا ہے۔ ضروری نہیں کہ ان تمام بلبلوں کے خواص ہماری کائنات جیسے ہی ہوں۔ ممکن ہے کہ وہاں طبعیاتی قوانین ہماری کائنات سے مختلف ہوں۔

اگلا سوال یہ ہے کہ اگر متعدد کائناتیں موجود ہیں تو وہ کہاں واقع ہیں؟ اس سلسلہ میں امریکہ کی یونیورسٹی میسا چوسیٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی میں طبعیات کے پروفیسر میکس ٹیگمارک کا کہنا ہے کہ ان تمام کائناتوں کے طول و عرض اس طرح سے ایک دوسرے سے متجاوز ہیں کہ ہمارے ادراک اور رسائی سے باہر ہیں۔ اس کے برعکس کائناتی پھیلاؤ کے چند دیگر نظریات ایک ایسی ملٹی ورس یعنی کثرتِ کائنات کی طرف اشارہ کرتے ہیں جہاں طبعیات کے بنیادی قوانین مختلف کائناتوں میں مختلف ہو سکتے ہیں۔

ایک تیکھا سوال یہ ہے کہ کیا متعدد کائناتوں کے وجود کی تائید کرتی کوئی واضح شہادت دستیاب ہے؟ اس پر مذکورہ تصور کے پرجوش حامی بھی فی الحال تہی دست ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ اگرچہ ہماری کائنات کی بعض خصوصیات کثرتِ کائنات کا تقاضا کرتی ہیں لیکن تاحال ایسی کوئی چیز براہِ راست مشاہدے میں نہیں آئی جس سے کثرتِ کائنات کی حقیقت ثابت ہوتی ہو۔ ابھی تک اس تصور کی تائید کرنے والی تمام شہادتیں نظریاتی یا فلسفیانہ نوعیت کی ہیں۔

کثرتِ کائنات کے نظریہ کی مخالفت کرنے والے سائنسدان اس کو اس بنا پر غیر سائنسی قرار دیتے ہیں کہ یہ تصور کسی بھی نظریہ کے سائنسی ہونے کی دو بنیادی شرائط پر پورا نہیں اترتا۔ اولاً قابلِ تکذیب ہونا اور ثانیاً مشاہدے اور تجربے کے ذریعے پرکھے جانے کے لائق ہونا۔ سائنسدانوں کے اس گروہ کا کہنا ہے کہ چونکہ اس وقت دستیاب سائنسی علم اور ٹیکنالوجی نہ تو اس طرح کے تصور کو تجربے اور مشاہدے کے ذریعے پرکھ سکتے ہیں اور نہ ہی اس کو جھٹلا سکتے ہیں لہذا یہ تصور سرے سے سائنسی کہلا ہی نہیں سکتا۔ ان کے نزدیک یہ محض ایک فلسفیانہ اور تخیلاتی مشق ہے۔ جنوبی افریقہ کی کیپ ٹاؤن یونیورسٹی کے پروفیسر جارج ایلس کا کہنا ہے کہ بعض سائنسدانوں نے کثرتِ کائنات کے تصور کو دراصل وجودیت سے متعلقہ مسائل کی وضاحت کے لئے پیش کیا ہے لیکن یہ طبعیات کا نہیں بلکہ مابعدالطبعیات کا مسئلہ ہے جو کہ تجرباتی سائنس کے ذریعے حل نہیں ہو سکتا۔

جہانِ کئی یا کثرتِ کائنات کا تصور ابھی سائنسی حلقوں میں بھی متنازعہ ہے لیکن اس کی قبولیت بتدریج بڑھ رہی ہے۔ شاید اس قبولیت کی وجہ کچھ دیگر سائنسی نظریات کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے خدشات ہوں۔ مثلاً ہماری کائنات کی فنا۔ پہلے تو کہا جاتا تھا کہ سورج کی حرارت میں بتدریج واقع ہوتی کمی کی وجہ سے کسی وقت ہماری زمین انجماد کا شکار ہو کر زندگی کے قابل نہیں رہے گی لیکن اب ہماری کائنات کے متعلق بھی خدشہ ہے کہ یہ تین ممکنہ صورتوں میں فنا ہو سکتی ہے۔ کائناتی حرکت رکنے کی وجہ سے "عظیم چرمراہٹ" یا پھر کائناتی پھیلاؤ تیز ہونے کی وجہ سے "عظیم انجماد" یا "عظیم کٹاؤ"۔

انسان کی ماضی قریب کی خلائی مہموں کا ایک مقصد انسانی زندگی کیلیئے ہماری کہکشاں میں زمین کے متبادل کی تلاش تھا لیکن اب فنائے کائنات کے نظریہ نے کائنات کے متبادل کی فکر لاحق کر دی ہے۔ گویا قیامت کو ٹالنے کی باتیں! ابھی تو صرف ایک انسان کا 22 کروڑ کلومیٹر دور مریخ تک جانا ممکن نہیں کجا کہ زمین پر بسنے والے تمام انسانوں کی کھرب ہا کھرب میل دور کسی دوسری کائنات میں نقل مکانی۔ سرِدست تو یہ سب تخیلاتی عیاشی ہے۔ تاہم اس خیال کو حقیقت بنانے کیلیئے جن امکانات کی بات ہو رہی ہے ان میں خلا میں"شاہراہِ ذہانت" اور انسان کے مادی وجود کی خالص توانائی میں منتقلی کے بعد کائناتی ہجرت جیسے تصورات ہیں۔

کیا یہ مہاجر واقعی انسان ہوگا؟

Check Also

Vella Graduate

By Zubair Hafeez