Kamal e Aadmiyat
کمالِ آدمیت
انسانی اوصاف میں سے ایک وصف ایسا ہے جسے اگر کمالِ آدمیت کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا کیونکہ اسی وصف کی بدولت آدمؑ زوال کا شکار ہونے والے ابلیس اور اس کے قبیلے سے ممتاز ہوئے اور رحمتِ الہی کے مستحق ٹھہرے۔ یہ وصف ہے احتسابِ ذات۔ خود احتسابی۔ یہ وہ فساں ہے جس سے قلب و روح کو صیقل کیا جاتا ہے۔
خود احتسابی کیا ہے؟ اپنی ذات کی خوبیوں اور خامیوں پر نگاہ ڈالنا اور پھر خامیوں کی اصلاح کا ارادہ کرنا۔ دوسرے لفظوں میں خود احتسابی در حقیقت خود شناسی یعنی اپنے من میں ڈوب کر سراغِ زندگی پانے کا نام ہے۔
خود احتسابی صرف فرد کیلیئے ہی ضروری نہیں بلکہ یہ اداروں اور معاشروں کیلیئے بھی اہم ہے۔ ہمارے عہد کا ایک بہت بڑا مسئلہ کاروباری اداروں یعنی کارپوریٹ سیکٹر میں استعدادِ کار کو بڑھانا اور مالی بدعنوانی پر قابو پانا ہے۔ اس سلسلہ میں مسلسل تحقیق ہو رہی ہے اور ان عوامل کی کھوج لگائی جا رہی ہے جو ملازمین کی استعدادِ کار بڑھا سکتے ہیں۔ امریکہ میں اب یہ آواز اٹھائی جا رہی ہے کہ اداروں کی کارکردگی میں زوال کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ منتظمین بری کارکردگی دکھانے والے ملازمین کے محاسبےکی کوشش ہی نہیں کرتے یعنی اداروں میں خود احتسابی کا پہلو کمزور ہے۔
آج جو ماحولیاتی آلودگی اور عالمی تپش کا مسئلہ زمیں پر حیات کی بقا کیلیئے ایک خطرہ بن چکا ہے اس سے بچا جا سکتا تھا اگر انفرادی اور اجتماعی سطح پر خود احتسابی اختیار کی گئی ہوتی۔ چند افراد، اداروں یا ممالک کی زیادہ سے زیادہ مالی فوائد کے حصول کی خاطر قدرتی وسائل کے بے دریغ ضیاع نے آج ماحولیات کے حوالے سے بحرانی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ اس بحران کی ابتدائی وجہ تو انسانوں کی لاعلمی تھی لیکن آگہی اور شعور حاصل ہونے کے بعد بھی تباہی میں حصہ ڈالتے چلے جانا خود احتسابی کےکمزور نظام اور اجتماعی مفاد کے متعلق بے حسی کو ظاہر کرتا ہے۔
احتسابِ ذات کے بغیر اسلام اور اسلامی معاشرے کا تصور محال ہے۔ استغفار کی قرآن و حدیث میں جو بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے وہ دراصل اپنی ذات کے احتساب کا عمل ہی ہے۔ کوئی ایسا شخص استغفار کیسے کر سکتا ہے جسے اپنی غلطیوں کا احساس ہی نہ ہو اور یہ احساس صرف اسی کو ہوگا جو اپنے شب و روز کا جائزہ لے گا کہ کہاں خطا ہوئی، کونسی بات غلط کہہ دی۔ ایک مسلم کیلیئے احتسابِ ذات دراصل معرفتِ الہی کا زینہ ہے۔ ہر لحظہ اپنی ذات کو جانچتے رہنا تبھی ممکن ہے جب یہ یقین ہو کہ میں اپنے ہر قول و فعل کیلیئے کسی بالاتر علیم و خبیر ذات کے سامنے جوابدہ ہوں۔ پھر اس جوابدہی سے بچنے کیلیئے اس ذات کے طے کردہ نصاب اور منہج سے آگاہی حاصل کرنے کی کوشش کی جائے گی تاکہ اس کے بتائے ہوئے اوامر و نواہی کا لحاظ رکھ کر اس کی رضا حاصل کی جائے اور یہی معرفتِ الہی کا رستہ ہے۔
احتسابِ ذات کا مثالی نمونہ تو بنو جْنینہ کی وہ عورت تھی جو اپنی ذات کا محاسبہ کرتے ہوئے اس مقام پر پہنچ گئی کہ رسولِ اکرم ﷺ کی خدمت میں آکر اس جرم کا اعتراف کر لیا جس پر ابھی تک اللہ نے پردہ ڈالا ہوا تھا اور سزا دے کر پاک کرنے کی استدعا کر دی۔ یہاں ادراک اس سطح تک پہنچ چکا تھا کہ حساب تو بہرحال دینا ہوگا تو کیوں نہ اس جہاں کی نسبتاََ آسان سزا برداشت کر لی جائے۔ ایک مسلم کو تو نماز پڑھنے کا سلیقہ بھی یہ بتایا گیا ہے کہ یقین یہ ہونا چاہیئے کہ اللہ مجھے دیکھ رہا ہے اگر اس درجہ تک پہنچنا ممکن نہ ہو تو پھر کم از کم یہ یقین ضرور ہونا چاہیئے کہ میں اسے دیکھ رہا ہوں۔ جب اس کیفیت میں نماز پڑھی جائے گی تو وہ نماز خود شناسی اور خود احتسابی کی ایک مشق بن کر اصلاحِ کردار کا ذریعہ ہوگی۔
تاہم احتسابِ ذات کا تصور صرف اسلام کے ساتھ مخصوص نہیں ہے۔ ہر معاشرہ اس کی اہمیت پر زور دیتا ہے۔ ہر معاشرہ میں حدود و قیود کا نفاذ حقیقت میں افراد کو خود احتسابی کی عادت ڈالنے کا ایک طریقہ ہے۔ جس طرح کسی شخص کو اعلی کارکردگی کی طرف راغب کرنے کی غرض سے داخلی تحریک پیدا کرنے کیلیئے اولیں قدم خارجی تحریک ہوتی ہے اسی طرح خود احتسابی کی منزل تک پہنچنے کیلیئے احتساب کا نظام یا ماحول ضروری ہے۔ ایسا ماحول ہوگا تو افراد یا ادارے بتدریج شعوری طور پر اچھائی اور برائی میں امتیاز کرنے اور پھر برائی کو ترک کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔
اب یہ احتسابِ ذات کا تصور تو آفاقی ہے لیکن اس تصور کو حقیقت کا روپ دینے کیلیئے جو پیمانہ درکار ہے وہ اضافی نوعیت کا ہے۔ ایک غیر مسلم کا خوبی اور خامی کا معیار اس معیار سے مختلف ہوتا ہے جو ایک مسلم کے پیشِ نظر ہونا چاہیئے۔ آج کے مذہب بیزار اور مادہ پرست مغربی معاشرے میں اگر کوئی فرد یا ادارہ خود احتسابی کا رستہ اختیار کرتا بھی ہے تو اس کا مطمعِ نظر خود کو اپنے ماحول میں زیادہ قبولیت دلوانا اور اس کے ذریعے مادی فوائد مثلاََ ملازمت میں ترقی یا کاروبار میں زیادہ منافع کا حصول ہوتاہے۔
ایک مسلم کیلیئے اگرچہ دنیاوی فوائد شجرِ ممنوعہ نہیں ہیں بلکہ ان کے لئے تگ و دو کرنا عظیم تر ملی مقاصد کے حصول کا ذریعہ ہےلیکن ایک مسلم کی زندگی کا حقیقی مقصد آخرت کی کامیابی ہے۔ دنیا کی کامیابیاں اس کیلیئے ثانوی حیثیت رکھتی ہیں اور اگر یہ کامیابیاں آخرت میں خسارے کا باعث بنتی نظر آئیں تو ایک مسلم ان کامیابیوں کا تعاقب نہیں کرے گا۔ پھر ان کامیابیوں کے حصول کیلیئے کسی کی حق تلفی یا دل آزاری یا قدرتی وسائل کے ضیاع کی اسلام ہرگز اجازت نہیں دیتا۔ یہ پیمانہ ہوگا ایک مسلم کیلیئے جس پر وہ اپنی ذات کا احتساب کرے گا۔
خود احتسابی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ خود پسندی ہے اور دوسری بڑی رکاوٹ معمولی فوائد کی ہوس۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ہمیں اچھائی اور برائی میں فرق واضح ہو جاتا ہے لیکن ہم اپنی ذاتی یا خاندانی اغراض کے ہاتھوں مجبور ہو کر برائی کا رستہ ترک کرنے کی جرآت نہیں کر پاتے کیونکہ اچھائی کا رستہ اپنانے میں تکلیف اور مشکل کا سامنا ہو سکتا ہے۔ اس صورتحال میں خود احتسابی کی بجائے خودفریبی ہمارا منہج ہوتا ہے اور ہم اپنی کج روی اور مفاد پرستی کو اپنی نظروں میں جائز بنانے کی خاطر دل خوش کن دلائل تراشتے ہیں۔ یہیں سے کردار کی کمزوری کا آغاز ہوتا ہے۔ خود پسندی کا مرض خواہ ایک فرد کو لاحق ہو یا کسی قوم کو اس کا لازمی نتیجہ زنگ آلودگی اور جمود ہے۔ ایک معاشرے کو اس جمود اور زنگ سے پاک کرنے کا مؤثر ہتھیار بے لاگ عدل ہے اور ایک فرد کیلیئے یہ ہتھیار ہے خود احتسابی کا میزان۔ فرد ہو یا قوم، کارگاہِ حیات میں سرخرو رہنے کا نسخہ خود احتسابی ہی ہے۔
صورتِ شمشیر ہے دستِ قضا میں وہ قوم
کرتی ہے جو ہر زماں اپنے عمل کا حساب