Alam e Maghrib Aur Islam
عالمِ مغرب اور اسلام
ڈنمارک اور فرانس میں رسولِ اکرم ﷺ کے توہین آمیز خاکے۔ ناروے، سویڈن اور ڈنمارک میں قرآن پاک کو جلانا۔ مختلف مغربی ممالک بشمول امریکہ، برطانیہ اور فرانس میں مساجد کی بے حرمتی اور آتشزدگی۔ تمام مغربی ممالک بشمول امریکہ، برطانیہ، فرانس میں حجاب یا سکارف والی خواتین پر سرِعام تشدد۔
مغربی دنیا میں رونما ہونے والے یہ اور اس طرح کے دیگر اسلام سے نفرت پر مبنی واقعات زیادہ تر انفرادی افعال ہیں۔ مگر نہ تو یہ واقعات چند ایک ہیں اور نہ ہی کسی خاص ملک یا زمانے کے ساتھ مخصوص ہیں۔ گذشتہ تین دہائیوں کے دوران ابلاغ کے میدان میں برپا ہونے والی انقلابی تبدیلیوں نے خبر تک عام آدمی کی رسائی کو آسان اور تیز تر بنا دیا ہے اس لئے اس طرح کے واقعات سے آگاہی وسیع سطح پرہو جاتی ہے۔ ایسے واقعات ماضی میں بھی ہوتے رہے ہیں لیکن تب تشہیر کم ہوتی تھی۔
پھر اسلام سے نفرت پر مبنی واقعات صرف انفرادی نوعیت کے نہیں ہیں بلکہ مغربی ممالک کی مسلمانوں کے خلاف سرکاری سطح پر عسکری کاروائیاں جن میں فلسطین، عراق، لیبیا اور افغانستان میں امریکہ کی سربراہی میں براہِ راست مسلمانوں کا قتلِ عام، فکری محاذ پر جہاد اور مسلمہ شعائرِ اسلام پر خلطِ مبحث کو فروغ دینا اور ابلاغی محاذ پر مکر و فریب سے بھرا پراپیگینڈہ مثلاً فلموں میں مسلمانوں کے منفی کردار اور دنیا میں ہونے والے پرتشدد واقعات کو غلط طور پر مسلمانوں سے منسوب کرنا نیز مسلمانوں کے معاملہ میں انسانی حقوق، سیاسی آزادی اور حقِ خوداختیاری پر عالمِ مغرب کا دوہرا معیار مثلاً فلسطین، برما اور روس وغیرہ میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر خاموشی، مصر میں اخوان المسلمون اور الجزائر میں اسلامک سالویشن فرنٹ کے خلاف پابندیوں اور سزاؤں کا بالواسطہ اہتمام اور فلسطین نیز کشمیر کے مسلمانوں کی تحاریکِ حریت کی مخالفت یا ان سے چشم پوشی وغیرہ عالمِ مغرب کے اسلام سے متعلق مخصوص رویے کو ظاہر کرتے ہیں۔
اب ایک عام مسلمان یہ سوال اٹھاتا ہے کہ دنیا میں رائج کثیر مذاہب میں سے صرف اسلام ہی مغربی دنیا کی نفرت اور توجہ کا نشانہ کیوں ہے۔ اس سوال کا جواب اگرچہ اتنا سادہ نہیں کیونکہ اس مسئلہ کے بہت سے پہلو ہیں اور مختلف مکاتبِ فکرکے لوگ ان میں سے کسی خاص پہلو کو سامنے رکھ کر تجزیہ کرتے ہیں لیکن بظاہر مغربی عوام اور خواص کی توجہ اور نفرت کا نشانہ اسلامی شعائر مثلاً قرآن، پیغمبرِ اسلام، مساجد، حجاب اور جہاد ہیں تو انصاف کا تقاضا ہے کہ مغرب اور اسلام کے تعامل میں مذہبی پہلو کا احاطہ لازمی ہو۔ اب مذکورہ سوال کا جواب ہم اہلِ مغرب سے ہی جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس سلسلہ میں اٹھارہویں صدی عیسوی کے مشہور برطانوی ادیب سیموئل جانسن کا یہ قول خاص اہمیت کا حامل ہے:
There are two objects of curiosity, the Christian world and the Mahometan world. All the rest may be considered as barbarous.
"موضوعِ تجسس دو ہی ہیں، عالمِ عیسائیت اور عالمِ اسلام۔ باقی سب کو وحشی اور غیر مہذب ہی سمجھا جائے"۔
اس تجسس کی وجہ دونوں مذاہب کی تاریخی چپقلش میں پنہاں ہے کیونکہ یہ اسلام ہی تھا جس نے عیسائیت کو مسلسل ہزیمت سے دو چار کیا چاہے وہ مشرقی رومی سلطنت کے خاتمہ کی شکل میں تھی یا اندلس میں سات سو سالہ غلبہ، صلیبی جنگیں تھیں یا سلطنتِ عثمانیہ کی یورپی فتوحات۔ اسلام کے علاوہ کسی اور مذہب کے ماننے والوں نے عالمِ عیسائیت کوتقریباََ آٹھ صدیوں تک مغلوب نہیں کیا اور معاصر مغرب بالخصوص یورپ اگرچہ اب مذہب سے کافی حد تک دست کش ہو کر الحاد کا شکار ہو چکا ہے لیکن تہذیبی ورثہ بہرحال موجود ہے اور اس کی بنا پر اسلام سے نفرت بھی۔ اسلام میں اہلِ مغرب کی نفرت آمیز دلچسپی کا یہی تاریخی پسِ منظر ہے جس کی طرف امریکہ کی صفِ اول کی یونیورسٹی کولمبیا کے سابق پروفیسرایڈورڈ سعید بھی اشارہ کرتے ہیں:
"قرونِ وسطیٰ کے بیشتر عرصہ میں اور یورپی تحریکِ احیائے علوم کے ابتدائی عہد میں اسلام کو ارتداد، توہینِ شعار اور ابہام سے پُر ایک ابلیسی مذہب مانا جاتا تھا۔۔ عالمِ اسلام کی عظیم بری اور بحری افواج نے صدیوں تک یورپ کو دھمکائے رکھا، اس کی سرحدی چوکیوں کو تباہ کیا اور اس کے خطو ں پر حکمرانی کی۔۔ کسی دوسرے غیر عیسائی مذہب کی نسبت یورپ سے جغرافیائی قربت کے باعث اسلام نے یورپ پر اپنے تسلط اور مغرب کو بار بار پریشان کر نے کی اپنی مخفی قوت کی یادیں تازہ کیئے رکھیں۔۔ صرف اسلام تھا جو کبھی بھی مغرب کے سامنے کا مل اطاعت اختیار کرتا نظر نہیں آیا"۔
اسلام اگر آج مغرب کے دل میں کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے تو اس کی وجہ صرف ماضی نہیں بلکہ مستقبل بھی ہے۔ اسلام کو "فتنۂ فردا" بنا کر پیش کرنے والوں میں سیموئیل ہنٹگٹن اور برنارڈ لیوس نمایاں ہیں جنھوں نے تقریباََ ایک صدی سے رائج "تہذیبوں کا تصادم" کے نظریہ کو اپنے اپنے انداز میں آگے بڑھاتے ہوئے اسلام سے خبردار کیا۔ یہ دونوں اور اس گروہ کے دیگر لوگ اسلام کے اس طبقہ کو حقیقی خطرہ قرار دیتے ہیں جو قرآن و سنت کو اصل اسلام سمجھتا ہے اور جہاد کی ترغیب دیتا ہے۔ ایسے لوگوں کو وہ "بنیاد پرست" قرار دیتے ہیں۔
امریکی تحقیقی ادارہ رینڈ کارپوریشن بھی اپنی ایک مفصل رپورٹ میں یہی نتیجہ نکالتا ہے اور تجویز دیتا ہے کہ اسلام کے معتدل طبقہ اور رسوم و رواج کو فروغ دینے والے گروہ کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ پھر یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اہلِ اسلام کی ایک قابلِ ذکر تعداد کے مغربی طرزِ زندگی کو اپنانے کے باوجود بہت بڑی اکثریت ان لوگوں کی ہے جو روایتی اسلامی بودوباش کو ترجیح دیتے ہیں جبکہ دیگر تہذیبیں اس طرح کی استقامت دکھانے میں ناکام رہی ہیں۔ اہلِ مغرب کواس اسلامی امتیاز پر بھی تشویش ہے۔ اہلِ مغرب کی اسلام سے پرخاش کی ایک وجہ عیسائیت کے مقابل اسلام کی وسیع قبولیت بھی ہے۔ ایک اور تحقیقی ادارے پیو ریسرچ سنٹر کی 2017ء کی ایک رائے شماری کے مطابق امریکی نو مسلموں کی اکثریت (77%)نے عیسائیت کو ترک کرکے قبولِ اسلام کی سعادت حاصل کی۔
سوال یہ بھی ہے کہ اسلام کے خلاف نفرت پر مبنی انفرادی کاروائیوں اور خلافِ اسلام فکری مہم کے تسلسل کے باوجود زیادہ تر اسلامی ممالک کے مسلمان مغرب میں بسنے کے لئے بے چین کیوں ہیں؟ ایک امریکی ادارے بروکنگز نے مسلمان تارکینِ وطن کی رائے شماری کروائی تو پتہ چلا کہ ترکِ وطن کی دو بڑی وجوہات محفوظ پناہ گاہ کی تلاش اور حصولِ تعلیم ہیں۔ اب اس نقل مکانی کے ممکنہ مضمرات کیا ہو سکتے ہیں؟ مذہبی بے حسی کابھی امکان ہے۔ یہ پہلو بھی پیو سنٹر کی رائے شماری کے نتائج سے ظاہر ہوا کہ امریکہ میں مقیم مسلمانوں میں سے ٪24 کے قریب افراد اب اسلام کو ترک کر چکے ہیں اور اس گروہ میں اکثریت ایرانی تارکینِ وطن کی ہے۔
اب فیصلہ مسلمان نے کرنا ہے کہ یقینِ محکم کے ساتھ باوقار زندگی یا اسلاموفوبیا کا واویلا مچا کر خیرات میں ملی مصنوعی عزت اور معاشی آسودگی۔
اللہ کا فیصلہ تو یہ ہے کہ یہ تم سے خوش نہیں ہوں گے جب تک تم اپنے دین سے پھر نہیں جاتے۔