Sheikh Saadi Aur Establishment Ki Ungli
شیخ سعدی اور اسٹیبلشمنٹ کی اُنگلی
"شیخ سعدی چھوٹی عمر کے تھے کہ ایک دفعہ اپنے والد صاحب کے ہمراہ کہیں جا رہے تھے راستہ میں لوگوں کی بہت بڑی بھیڑ تھی۔ والد نے انہیں نصیحت کی کہ دیکھو بیٹا میری انگلی نہ چھوڑنا، ورنہ رش اور بھیڑ میں گم ہو جاؤ گے، لیکن ننھے سعدی نے لاشعوری میں والد کی انگلی چھوڑ دی اور کھیل کود میں مشغول ہو گئے کچھ دیر بعد جب والد کو قریب نہ دیکھا تو مارے خوف کے رونے لگے۔ اتنے میں والد بھی انہیں ڈھونڈتے ڈھونڈتے وہاں آ گئے اور فرمایا کہ ناسمجھ بچے میں نے تمہیں کہا نہیں تھا کہ میری انگلی مضبوطی سے پکڑے رکھنا، لیکن تم نے میری بات پر دھیان نہیں دیا اور میرا کہا نہ مانا اور یوں تمہیں پریشانی کا سامنا کرنا پڑا"۔
سابق وزیراعظم عمران خان نیازی نے اپنی 22 سالہ سیاسی جدوجہد میں ایوان اقتدار میں پہنچنے کے لئے بالعموم جن شخصیتوں، سیاسی لیڈروں، صنعتکاروں، اندرونی و بیرونی قوتوں اور بالخصوص سول و عسکری اسٹیبلشمنٹ سے تعلق رکھنے والے اپنے محسنوں میں جن جن کی بھی انگلی پکڑی، اقتدار کے نشے اور اپنے اردگرد مطلبی اور خوشامدی ٹولے کی بھیڑ میں ایسے مدہوش اور مگن ہوئے کہ انہوں نے اُس اُنگلی کو ویسے ہی چھوڑا جیسے شیخ سعدی نے چھوڑ دیا تھا۔
سب سے پہلے انہوں نے اپنے اُن احسان مندوں کو ذلیل و رسوا کیا جنہوں نے تحریک انصاف کو مضبوط اور ناقابل شکست بنانے کے لئے مختلف سیاسی پارٹیوں سے سینئیر سیاست دانوں کو تحریک انصاف میں شامل کرنے کے لئے اپنی تجوریوں کے منہ کھول دیئے۔ عمران خان ہر روز کسی نہ کسی جماعت کی وکٹ گراتا اور اس کو اپنی جماعت میں شامل کر لیتا یہاں تک کہ ایسے ایسے سینئیر سیاسی راہنما بھی تحریک انصاف میں شامل ہوئے جن کی سیاسی وابستگی اپنی سابقہ سیاسی جماعت کے ساتھ کئی دہائیوں سے مُنسلک تھی۔
عسکری اور سول اسٹیبلشمنٹ نے باہمی طور پر ایسا روڈ میپ تیار کیا جس میں اعلیٰ عدلیہ کی بھی مدد حاصل کی گئی اور اس طرح عمران خان کے لئے اقتدار کا حصول اتنا آسان کر دیا گیا کہ اعلیٰ عدلیہ میں بیٹھے ہوئے انصاف کے داعیوں نے قانون اور انصاف کا ایسا کھیل کھیلا کہ عدلیہ اور قانون سے تعلق رکھنے والے سبھی لوگوں کو حیرت زدہ کر دیا۔
عمران خان کی ہر قانونی اور سیاسی غلطی کا دفاع کرنے کے لئے بعض اوقات انصاف کی کرسی پر بیٹھے ہوئے اعلیٰ عدلیہ کے نامور ججز نے کیس میں خود ہی وکالت کی اور خود ہی فیصلہ سنا کر عمران خان کی ایسے حمایت کی جیسے کسی گھر کا سربراہ اپنے بچوں میں سے کسی ایسے لاڈلے بچے کی خواہ مخواہ غلطی معاف کر دے جس سے اُس بچے پر کی گئی شفقت اور مہربانی پر دوسرے بچے بھی تلملا اٹھتے ہیں اسی طرح اعلیٰ عدلیہ کے ججز نے اپنے بعض فیصلوں پر قوم کا ایسا منفی ردعمل بھی دیکھا جس سے اُن کی اپنی ذاتی شخصیت داغدار ہوئی۔
عمران خان کو حکمرانی کا تاج پہنانے کے لئے اسٹیبلشمنٹ نے تحریک انصاف کے چیئرمین کو وزارت عظمیٰ کی کرسی پر بٹھانے کے لئے اقتدار سونے کی پلیٹ میں ایسے پیش کیا کہ نیازی صاحب کو حکمرانی کے دوران کسی بھی دشواری یا پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اقتدار کے ابتدائی چار سال عمران خان کے ایسے گزرے جیسے کسی انسان کی خوشحالی کے دن پلک جھپکتے گزر جاتے ہیں، اور ان چار سالوں میں عمران خان نے اپنے سبھی احسان مندوں کو یہ تاثر دینے کی کوشش ضرور کی کہ اقتدار کا تاج اس نے خود اکیلے اپنی جدوجہد کے ساتھ بِلا شرکتِ غیر اپنے سر پر سجایا ہے۔
اسی گھمنڈ اور غرور میں عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ اپنی جماعت کو مالی سطح پر تعاون کرنے والوں کو بھی مختلف ذرائع اور ناجائز ہتھکنڈوں سے اپنے سے دور کر دیا۔ اقتدار کے اسی نشے اور بنی گالہ میں جاری شب و روز کی رنگین محفلوں میں مگن عمران خان نے اپنی ذات کو اپنے اردگرد کے خوشامدی ٹولے کی بھیڑ میں ایسا گُم كیا کہ آئندہ درپیش ناقابل یقین حالات سے بےخبر ہو کر اقتدار میں لانے والوں کی اُنگلی لاشعوری طور پر چھوڑ بیٹھا۔
جس کے نتیجہ میں وہ اپنے تمام محسنوں سے اپنی کم عقلی اور زبان درازی کی وجہ سے دور ہوگیا، اور بلآخر قدرت نے عمران خان کو وہ دن بھی دیکھایا جس میں اس نے خود کو اقتدار کی کرسی سے خود کو اُترتا دیکھا۔ اقتدار ہاتھ سے نکلتے اور اسٹیبلشمنٹ کی انگلی ہاتھ سے چھوٹتے ہی عمران خان کو اپنے اردگرد خوف کے سائے جب منڈلاتے نظر آئے تو پریشانی کے عالم میں وہ اُس اُنگلی کو دوبارہ پکڑنے کی بارہا کوشش کرتا رہا جسے پکڑ کر وہ بےخوف و خطر حکمرانی کیا کرتا تھا۔
مگر "اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چک گئیں کھیت" عسکری اور سول اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ساتھ اعلیٰ عدلیہ بھی عمران خان سے دور ہوگئی، اس کی اپنی جماعت کے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ممبران نے اس کے ساتھ وفاداری تبدیل کر دی اور پھر عمران خان کو وہ سب کچھ دیکھنا پڑا جو چند سال پہلے دوسری سیاسی جماعت کے لیڈروں کو اپنے ساتھیوں کی وفاداری کی تبدیلی دیکھنے کو ملی تھی۔
اپنی بڑی عمر میں شیخ سعدی اکثر لوگوں کو یہ اپنی آب بیتی کا واقعہ سنا کر لوگوں کو نصیحت فرمایا کرتے تھے کہ اگر تم لوگ بھی دنیا کی بھیڑ میں گم ہو گئے تو نتیجتاً تمہیں بھی ذلت، رسوائی اور شرمندگی کے علاوہ ندامت زدہ زندگی گزارنی پڑے گی لہٰذا اگر تم لوگ ایسی زندگی کا سامنا کرنا نہیں چاہتے، تو کسی نیک اور قابل اعتماد بندے کا ہاتھ تھام لو، ورنہ پریشانی میں ٹھوکریں کھاتے پھرو گے، جو بزرگوں کا ہاتھ شعوری یا لاشعوری حالت میں چھوڑ دیتا ہے وہ اسی طرح دنیا میں بھٹکتا رہتا ہے۔
عمران خان نیازی نے بھلے ہی دنیا کی مشہور اور بہترین درسگاہ سے تعلیم حاصل کر کے دنیا والوں کے سامنے بولنے کا ہنر تو سیکھ لیا مگر وہ یہ نہ سیکھ سکا کہ اسے کب، کہاں اور کتنا بولنا ہے۔ ہم نے کبھی یہ نہیں سنا کہہ انسان کو اُس كی عاجزی لے ڈوبی بلکہ انسان ہمیشہ اپنے تکبّر میں ہی مارا جاتا ہے۔ ایک جاپانی کہاوت ہے "جب گرمی چلی جاتی ہے تو لوگ سایہ دار درخت کو بھول جاتے ہیں"۔