Selab Kahani, Potli
سیلاب کہانی: پوٹلی
اس نے گھبرا کر پوٹلی کو جلدی سے دوبارہ لپیٹ دیا "کوئی دیکھ نہ لے۔۔ "
پہلی سوچ یہ ہی اس نے ذہن میں آئی تھی۔ اس نے جلدی جلدی پوٹلی کو اچھی طرح لپیٹا اور بغل میں دبا کر اٹھ کھڑا ہوا۔ اس کے قدم تیزی سے اپنی خیمے کی طرف بڑ ھ رہے تھے۔
خیمے میں پہنچ کر اس نے پوٹلی اپنی سامان کے تھیلے میں نیچے ہی نیچے دبا دی۔ اور خود تھیلے کے پاس ہی بیٹھ گیا۔ اس کو اب تک سمجھ نہیں آرہا تھا کہ یہ سب کیا ہے؟
اس کا ذہن خالی تھا۔
٭٭٭
سیلاب تباہ کاریاں مچاتا ہوا گزر چکا تھا اور اپنے پیچھے کیچڑ اور مسائل کا انبار چھوڑ گیا تھا۔ لوگ حیران پریشان تھے، ایک ہی سوال تھا جو ہر نظر میں تھا "اب کیا ہوگا؟"
گھر گر گیا۔۔ اب کیا ہوگا؟ مویشی بہہ گئے۔۔ اب کیا ہوگا؟ فضل تباہ ہو گئی۔۔ اب کیا ہوگا؟ زمین بیجائی کے قابل نہیں رہی۔۔ اب کیا ہوگا؟ مگر جواب کسی کے پاس نہ تھا۔
"یار یہاں بیٹھ کر بھی تو کچھ نہیں ہو رہا نا!کب تک حکومت کی امداد کا انتظار کر یں گے؟ چل یار چل کر دیکھتے ہیں کیا حال ہوا ہے۔۔ "زریاب نے اپنے دوستوں سے کہا۔
باقی سب بھی سارا دن بیٹھے بیٹھے تھک چکے تھے، سب ہی رضا مند ہو گئے۔
آٹھ دس نوجوانوں کی یہ ٹیم اپنی مدد آپ کے تحت آگے بڑ ھی۔ آس پاس کے سب گاؤں کیچڑ کی دلدل میں دھنس چکے تھے۔
ان لوگوں نے اپنے گاؤں کے راستے میں آنے والے ہر گاؤں میں سامان اٹھانا اور گرے ہوئے گھروں کو سہارا دینا شروع کر دیا۔ کیچڑ کو ایک جگہ جمع کرنا آسان کام نہ تھا مگر خود زندگی بھی تو آسان نہ تھی۔
٭٭٭
وہ زریاب کا گاؤں نہ تھا بلکہ اس کاپڑوسی گاؤں تھا۔ ہر طرف کیچڑ ہی کیچڑ تھی۔ زیادہ تر گھر مکمل طور پر تباہ ہو چکے تھے، چند ایک ایسے تھے جنہیں جزوی نقصان پہنچا تھا۔
وہ ایسا ہی ایک گھر تھا۔۔ گھر کی کئی دیوار گر چکی تھیں۔۔ دروازے یا تو کیچڑ میں پڑے تھے یا اپنے قبضوں پر جھول رہے تھے۔ زریاب نے ادھر ادھر بکھرا سامان اٹھانا شروع کر دیا۔
ایک کمرہ نسبتاً بہتر حالت میں تھا۔ اس نے سامان اس کمرے میں پڑی چارپائی پر جمع کرنا شروع کر دیا۔ غریب کے گھر میں سامان ہی کیا ہوتا ہے؟ چند برتن۔۔ چند بستر۔۔ چند اوزار۔۔
سامان سمیٹے سمیٹے زریاب کے ہاتھ کپڑے کی ایک پوٹلی آ گئی۔ نہ جانے کیوں اس نے وہ پوٹلی کھول لی۔ شائد قدرت کو اس کا امتحان مقصود تھا۔
پوٹلی کے اندر ایک کالا شاپر تھا اور جب زریاب نے وہ کالا شاپر کھول کر اندر جھانکا تو ا یک لمحہ کو اس کو خود پر یقین نہ آیا۔
شاپر نوٹوں کی گڈیوں سے بھرا ہوا تھا!کچھ زیور بھی تھا۔۔
"ظاہر ہے سونے کا ہی ہوگا۔۔ " زریاب کے دل میں خیال آیا۔
بے ساختہ اس نے شاپر بند کیا پوٹلی دوبارہ باندھی اور باقی سب کی نظروں سے بچتا بچاتا اپنے خیمے میں واپس پہنچ گیا۔ شکر ہے اس وقت خیمہ خالی تھا، اس نے جلدی سے پوٹلی اپنی سامان کے تھیلے میں چھپا دی اور خود وہیں بیٹھ گیا۔
رفتہ رفتہ اس کے حواس کام کرنے لگے۔ جوں جوں وہ اس رقم کے بارے میں سوچتا توں توں اس دل میں خوشی کی لہریں اٹھتیں۔
"گھر بھی بن جائے گا۔۔ سامان بھی آجائے گا۔۔ جب تک زمین بیجائی کے قابل نہیں ہو جاتی تب تک کچھ تجارت شروع کر دوں گا، اب تو سب ہی کو ہر طرح کے سامان کی ضرورت پڑے گی، اس بار بکریاں زیادہ لوں گا۔۔ ان میں زیادہ فائدہ ہے"۔
وہ دل ہی دل میں منصوبے بنا رہا تھا۔ رقم اس نے گنی نہیں تھی مگر اندازہ تھا کہ کئی لاکھ روپے ہیں۔
"زیور میں سے کوئی ایک دو چیزیں نفیسہ کو دے دوں گا۔۔ بے چاری ساری زندگی زیور کو ترستی رہی ہے۔۔ "
اس کو اپنی بیوی کا خیال آ گیا مگر اگلے ہی لمحے اس اس خیال کو جھٹک دیا۔
"نہیں۔۔ نہیں۔۔ زیور سے تو پہچان ہو جائے گی۔۔ جس کا ہے وہ پہچان لے گا۔۔ ویسے بھی نفیسہ کو کچھ نہیں بتانا ہے۔۔ پیٹ کی ہلکی ہے۔۔ کس کو بتا دیا تو مشکل ہو جائے گی۔۔ "
اب وہ سر کے نیچے ہاتھ رکھ کر لیٹ چکا تھا۔
"کیا ہوا زریاب؟ ایسے کیوں لیٹے ہو؟"
نفیسہ اسے دیکھ کر گھبرا سی گئی "کچھ نہیں ہوا۔۔ تھک گیا تھا اس لئے لیٹ گیا ہوں۔ "زریاب نے جواب دیا۔
اور نفیسہ اسے پریشان سمجھ کر اس کی دل جوئی کرنے لگی۔
٭٭٭
وہ ماسٹر علی حسن کی زندگی بھر کی کمائی تھی۔ سیلاب آنے سے چند ماہ پہلے ہی وہ سرکاری اسکول سے ریٹائر ہوئے تھے۔
نوکر شاہی کے کئی چکر لگانے کے بعد وہ اپنے واجبات حاصل کر پائےتھے اور اسی رقم پر ان کا کل دارومدار تھا۔ اسی رقم سے انھیں اپنی دو بیٹیوں کے ہاتھ پیلے کرنے تھے اور اپنےگزر اوقات کے لئے بھی کچھ بندوبست کرنا تھا۔
مگر اب اس سیلاب زدہ گھر میں اب وہ رقم کہیں نہ تھی۔ جس وقت سیلاب آیا اس وقت سب سے قیمتی چیز جان تھی۔
سو وہ جان بچا کر نکل گئے اور اب جب پانی کم ہوا اور وہ اپنے گھر کی طرف بھاگے۔ مگر وہاں کائنات لٹ چکی تھی۔ کوئی اس کی زندگی بھر کی کمائی لوٹ کر جا چکا تھا۔ ماسٹر علی حسن کود کو سنبھال نہ پائے اور کیچڑ میں جا گرے۔
٭٭٭
زریاب کی بھوک پیاس نیند سب رخصت ہو چکی تھی۔ وہ دن رات اس دولت کو چھپانے کی فکر میں غلطاں و پیچاں رہتا۔ نفیسہ یا کوئی بچہ اس کے تھیلے کے آس پاس جاتا تو ناصر کے تمام حواس اسی طرف متوجہ ہو جاتے۔
وہ کبھی چیخنے لگتا۔۔ کبھی خود کو کنٹرول کرنے کے چکر میں اس کا سر پھٹنے لگتا، زریاب سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ اتنا پریشان تو میں تب نہ تھا جب خالی ہاتھ تھا۔
٭٭٭
ماسٹر علی حسن اپنے ٹوٹے پھوٹے گھر کے واحد سلامت کمرے میں چارپائی پر لیٹے تھے۔
بیمار، نحیف نزار، زریاب انھیں خالی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
"معاف کرنا بیٹا میں پہچانا نہیں۔۔ بہت بچے پڑھ کر نکلے میرے ہاتھ سے۔۔ اب تو یاد بھی نہیں۔۔ "وہ اٹھنے کی ناکام کوشش کرنے لگے۔
"پانی۔۔ "سر پر دوپٹہ اوڑھے پانی کا گلاس لئے کھڑی ماسٹر علی حسن کی بیٹی کو دیکھ کر زریاب کو اپنی بیٹی یاد آگئی۔
کئی دن سےا س کے دل میں یہ خیال تھا کہ آخر یہ گھر کس کا ہے اور اتنی رقم اس گھر میں کیوں کر تھی۔ گاؤں میں پوچھ گچھ پر اسے سب پتہ چل گیا اور اب وہ ماسٹر علی حسن کی چارپائی کے پاس کرسی پر بیٹھا تھا۔
٭٭٭
وہ بہت کڑی رات تھی، زریاب کو کسی کروٹ سکون نہ تھا، اگر اور مگر سوچتے سوچتے اس کی کنپٹیاں دکھ رہی تھیں۔ نفیسہ بہت دیر سے اس کی یہ بے چینی دیکھ رہی تھی اب اس سے رہا نہ گیا اورپاس آ کر بیٹھ گئی۔
"کیا بات زریاب۔۔ طبعیت خراب ہے؟"زریاب چونک گیا۔
"نہیں ٹھیک ہے۔۔ "
نفیسہ اس کے بالوں میں انگلیاں پھیرنے لگی، "پھر اتنے بے چین کیوں ہو؟"
زریاب کے تنے ہوئے اعصاب کو کچھ سکون ملا
" میں سمجھ سکتی ہوں، یہ مشکل وقت ہے، مگر حوصلہ رکھو، اللہ کے ہاں ہر مشکل کا اجر ہے۔ وہ اپنے بندوں کے لئے کوئی نہ کوئی بندوبست کر ہی دیتا ہے، ہم تنہا نہیں۔۔ ہمارا اللہ ہمارے ساتھ ہے۔۔ "
زریاب کے دماغ میں جھماکے ہونے لگے
"کیا سچ میں اللہ میرے ساتھ ہے؟ ماسٹر علی حسن بھی تو تنہا نہیں۔۔ اللہ تو اس کے ساتھ ہے، میں تو تنہا ہوں۔۔ میرا اللہ مجھ سے خفا ہو کر علی حسن کے پاس چلا گیا ہے۔۔ "
زریاب کی آنکھیں بھیگنے لگیں اس کے اندر سے کوئی بولا
"یہ وقت تو سب کا ہی گزر جائے گا زریاب، مگر بروز قیامت جب علی حسن تمہارے دامن گیر ہوگا، وہ وقت کیسے گزرے گا۔ "
٭٭٭
ماسٹر علی حسن کو اپنی کانوں پر یقین نہ آیا۔ زریاب کے ہاتھ سے پوٹلی لیتے ہوئے بھی ان کو لگ رہا تھا کہ جیسے وہ خواب دیکھ رہے ہیں۔ اور اس پوٹلی کے بوجھ سے آزاد ہو کر زریاب نے گہرا سانس لیا۔
جیسے کوئی قیدی بہت دن بعد کال کوٹھری سے نکلا ہو۔
٭٭٭