Sawal Ye Hai Ke?
سوال یہ ہے کہ ؟
"آج کل کے بچے استاد کی بالکل عزت نہیں کرتےجب ہم طالب علم تھے تو استاد کے آگے سے چلنے سے بھی ڈرتے تھے۔ کبھی استاد کی موجودگی میں تیز آواز میں بات نہیں کی۔ اور آج کی نسل استاد کو اپنا زرخریدغلام سمجھتی ہے۔"اسکول کے اسٹاف روم میں بیٹھے حمید صاحب نے اپنے ساتھی استاد راشد صاحب سے بات کرتے ہوئے کہا"صحیح کہتے ہیں آپ۔ آج کل کے بچوں کو بالکل تمیز طریقہ نہیں۔ سب والدین کی چھوٹ ہے۔"
راشد صاحب نے دل و جان سے ان تائید کی۔ ٹرن ٹرن۔ اچانک حمید صاحب کا موبائل فون بجا۔ فون کی سکرین پر پر ماجد انڈسٹریز کے مالک کا نام دیکھ کر حمید صاحب سیدھے ہو کر بیٹھ گئے۔" جی واجد صاحب!حکم کریں۔"واجد صاحب کا بیٹا حمید صاحب کی کلاس میں زیر تعلیم تھا۔ نہایت لاپروا اور کند ذہن بچہ تھا لیکن اسکول کے تمام اساتذہ اس کو اسپیشل پروٹوکول دیتے تھے اور کیوں کہ دیتے۔ ماجد صاحب کی طرف سے ملنے والی تحفے تحائف بھی تو شاندار ہوتے تھے۔
"جی جی سر! آپ فکر ہی نہ کریں۔ جی انشاءاللہ سب سے اچھے نمبر آپ کے بیٹے کے ہی ہوں گے۔ جی جی آپ فکر ہی نہ کریں اس سال بھی آپ کا بیٹا ہی کلاس میں اوّل آئے گا۔"نسلوں کی تعمیر اساتذہ کے ہاتھ میں ہے۔ آج کا میاب طالب علم کل کا ڈاکٹر، وکیل اور افسر ہے۔ مستقبل کے معمار درس گاہوں میں تیار کئے جاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیبﷺ کو معلم بناکر بھیجا، اور تعلیم دینا ایک پیغمبری پیشہ ٹہرا۔
سوال یہ ہے کہ کیا آج بطور استاد ہم عزت کے لائق ہیں؟ "ڈاکٹر صاحب بڑا برا حال ہے۔ بلڈ پریشر اور کولیسٹرول تو قابو میں ہی نہیں آ رہا۔"سیٹھ رفیع الدین نے ڈاکٹر سے اپنی بپتا بیان کی۔"سیٹھ صاحب۔ غذا میں پرہیز کریں۔ تما م میٹھی اورتلی ہوئی اشیا کھانا چھوڑ دیں۔ خالص خوراک استعما ل کریں۔"ڈاکٹر نے پیشہ ورانہ انداز میں مشورہ دیا۔"اب تو سب چھوڑ دیا ہے ڈاکٹر صاحب۔ ہوا پر گزارہ ہے۔ خوش خوارک سیٹھ صاحب بڑے دکھی تھے۔"اب تو ہوا بھی خالص نہیں ہے۔ بندہ کیا کھائے۔"دوا کا نسخہ لے کر باہر آئے تو کار میں بیٹھا ان کا بیٹا فون پر مصروف ِگفتگو تھا۔"ہاں ہاں۔
وہ دو نمبر والا لال مرچ پاوڈر مکس کرو اس میں۔ سارے مصالحے میں۔ ہمیں بھی تو وارا آئے۔ سب خالص ڈالا تو بچت ہی نہیں ہوگی۔"سیٹھ صاحب نے فخر سے اپنے لائق سپوت کو دیکھا جس نے ان کا کام بڑی حسن و خوبی سے سبنھال لیا تھا۔ قرآن میں حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم کی تباہی کا ذکرہے۔ سزا کا موجب کیا تھا؟ دیگر برائیوں کے ساتھ ساتھ ملاوٹ، دھوکہ دہی اور ناپ تول میں کمی۔ کیا یہ چھوٹا جرم ہے؟ نہیں۔ اس جرم کی پاداش میں پوری قوم تباہ و برباد کردی۔ ایک مرتبہ رسول صادقﷺ نے گندم کے ایک ڈھیر میں ہاتھ ڈالا تو وہ نیچے سے بھیگا ہوا پایا۔ ارشاد فرمایا:"جس نے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں "۔
تو اب سوال یہ ہے کہ کیا آج ہم برکت اور صحت کے مستحق ہیں؟ "توبہ توبہ کیا زمانہ آ گیا ہے۔ ساجد نے اخبار پڑھتے ہوئےاپنے کلے پیٹ ڈالے۔ کیا ہوا؟ شرجیل نے پوچھایہ دیکھو! ساجد نے اخبار اس کے آگے کرتے ہوئے کہا"ہائی اسکول کے کچھ بچے بچیاں کلاس بنک کر کے کسی ہوٹل کے کمرے میں غلط سرگرمیاں کرتے ہوئے پکڑے گئے۔"توبہ توبہ۔ اس قدر فحاشی پھیل گئی ہے معاشرے میں۔"شرجیل نے بھی مذمت میں اپنا حصہ ڈالا۔"ارے یہ اس اداکاراہ کے بارے میں پھر خبر آئی ہے؟ "
اچانک ساجد کی نگا دوسری خبر پر پڑی۔"کیوں اس نے کیا کیا ہے؟ "شرجیل کی دلچسپی اچانک بڑھ گئی۔"پچھلی بار ویڈیو لیک ہوئی تھی اس کی۔ ساتھی اداکار کے ساتھ۔ نہیں دیکھی تم نے؟ ساجد نے چسکا لیتے ہوئے کہا"نہیں یار۔ میں نے نہیں دیکھی۔ تُو نے دیکھی؟ "شرجیل کو اپنی کم علمی پر بڑا افسوس ہوا۔"لو۔ اتنی مشہور ہوئی تھی وہ خبر۔ سب نے ہی دیکھی تھی وہ ویڈیو۔ اچھا رک میرے موبائل میں ہے۔ میں بھیجتا ہوں تجھے۔"حیا ایمان کا جز ہے۔ پاکیزگی زندگیوں میں سکون لاتی ہے۔ رسول خدا ﷺ نے کہاکہ حیاء ایمان کا حصہ ہے اور ایمان جنت میں لے جاتا ہے۔ فحاشی ظلم ہے اور ظلم جہنم میں لے جاتا ہے۔"
تو اب سوال یہ کہ کیا آج ہم ایک با حیا اور پاکیزہ معاشرے کا حق رکھتے ہیں؟ "ارے عابدی صاحب۔ بڑے دن بعد ملے ہیں۔"احسان صا حب نے آگے بڑھ کر عابدی صاحب کا پُر جوش استقبال کیا۔"دراصل میں پاکستان سے باہر گیا ہوا تھا۔ بچے کینیڈا شفٹ ہو گئے ہیں۔ جانا آنا لگا رہتا ہے۔"عابدی صاحب نے وضاحت دی۔"اچھااچھا۔ ما شااللہ۔"احسان صاحب کافی متاثر ہوئے۔"یار یہاں بچے پریشان تھے۔ کہتے تھے یہاں تو سڑکوں پر چلنا بھی محال ہے۔ تنگ سڑکیں۔ گندگی۔ نہ نکاسی کا کوئی نظام نہ صفائی کا۔ بس پھر بچوں نے یہی فیصلہ کیا کے باہر شفٹ ہو جاتے ہیں۔"
"درست کہا آپ نے۔"احسان صاحب دل و جان متفق تھے۔"سارا شہر منہ کو آ رہا ہے۔ گاڑی گزارنے کی جگہ نہیں ہے۔ شہر کی انتظامیہ ایسا لگتا ہے سو ہی گئی ہے۔""ارے ہاں ! عابدی صاحب آپ کے نئے پرا جیکٹ کا کیا ہوا؟ کب سے اسٹارٹ کر رہے ہیں؟ "احسان صاحب کو اچانک یاد آگیا۔"بہت جلد۔"عابدی صاحب مسکرا کر بولے"بہت بڑی رقم دی ہے منظوری کے لئے۔ کوئی نیا افسر آیا ہے۔ بڑے بہانے کر رہا تھا۔ سرکاری زمین ہے۔ باغ لگا ہے اس پر۔ پلازہ نہیں بن سکتا۔ مگر میں نے بھی اتنی بڑی آفر دی کہ پاؤں اکھڑ گئے اس کے۔"
عابدی صاحب نے فخر سے بتایا"ماشااللہ۔ ما شااللہ" احسان صاحب دل ہی دل میں جل بھن کر خاک ہو گئے مگر زبان ماشااللہ کا ورد کرتی رہی۔ ہم بڑے منافق ہیں۔ سو کالڈ مہذب لوگ۔ یہ ملک ہمارے رہنے کے قابل نہیں رہا ہے۔ لیکن چوری و حق تلفی میں ہم سے کوئی بازی نہیں لے سکتا۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا ہم صاف اور کشادہ شہر میں رہنے کے قابل ہیں؟