Hum Waldain Ki Laparwahi
ہم والدین کی لاپرواہی
میری چھوٹی بہن انگلینڈ میں نفسیاتی امراض کی ماہر ڈاکٹر ہے۔ یہ واقعہ اسی نے مجھ کو سنایا تھا۔ میں اسی کی زبان میں بیان کرتی ہوں۔
وہ ایک چالیس سال کا صحت مند اور خوش حال شخص تھا۔ جب وہ کمرے میں داخل ہوا تھا تو پہلی نظر میں بھی اس کی مکمل شخصیت کے سحر میں گرفتار ہو گئی تھی۔ جما جما کر استری کیا گیا لباس، جیل کی مدد سے سیٹ کئے گئے بال، چہرے پر مسکراہٹ اور چال میں اعتماد۔ وہ خوب رو شخص نجانے کتنی آنکھوں کا خواب رہا ہوگا۔ میں حیران رہ گئی تھی کہ ایسی مکمل شخصیت کا حامل شخص میرے پاس کیوں آیا تھا؟
کچھ دیر کے بعد اب وہ صوفے پر لیٹا کسی بچے کی طرح آنسو بہا رہا تھا۔ اس کی شخصیت کا سارا کرارا پن ختم ہو چکا تھا، وہ اک مسلا ہو کاغذ لگ رہا تھا۔۔ اور میں اس کے سرہانے ہاتھ میں قلم اور نوٹ پیڈ لئےبیٹھی تھی۔
"میرے ماں باپ میں ہمیشہ لڑائی رہتی تھی۔۔ اکثر صبح میری آنکھ دونوں کے چیخنے چلانے کی آواز سے کھلتی تھی۔۔"آنسو اس کی آنکھوں کے کناروں سے بہہ رہے تھے۔
" و ہ ساری عمر میرے ماں باپ نہیں بنے۔۔ کبھی بھی نہیں۔۔ وہ صرف ایک دوسرے کے دشمن رہے۔۔ جس کو جہاں موقعہ ملا اس نے وہاں وار کر کے اپنا بدلہ برابر کر لیا۔۔ کسی نے بھی میرے بارے میں نہیں سوچا۔۔ باپ نے چیخ چلا کر غصہ نکالا اور ماں نے رو پیٹ کر۔۔ مگر میں کسی سے کچھ نہ کہہ سکا۔۔"اس کی آواز ٹوٹ چکی تھی۔
"مجھے آج بھی تیز آواز سے ڈر لگتا ہے۔۔ آج بھی کوئی چیخ کر بولے تو میں اندر ہی اندر لرز جاتا ہوں۔۔ ہر وقت عجیب سا خوف لاحق رہتا ہے۔۔"اب وہ کسی خوف زدہ بچے کی طرح لگ رہا تھا۔
"میں اسکول میں کبھی اچھے گریڈز نہ لے سکا۔۔ رزلٹ کا دن میرے لئے شرمندگی کا دن ہوتا تھا۔۔ میرے ماں باپ کبھی میرے اسکول نہیں گئے۔۔ کبھی میری تعلیم میں دلچسپی نہیں لی۔۔ انھیں صرف ایک دوسرے سے لڑتے رہنے میں دلچسپی تھی۔۔ میں پڑھنا چاہتا تھا۔۔ مگر مجھے اپنے ٹیچرز سے ڈر لگتا تھا۔۔"
دکھ اس کے پورے وجود پر چادر کی طرح پھیلا ہوا تھا۔
***
اپنی سے یہ قصّہ سن کر میں سوچ میں گم تھی، لاکھوں لوگ اپنے دلوں میں ایسے ہی دکھ لئے جی رہے ہیں۔۔ بظاہر خوش باش۔۔ کامیاب۔۔ مصروف۔۔ مگر اندر ہی اندر کہیں بہت گہرائی میں دفن ایسے دکھ کسی پھانس کی طرح ہوتے ہیں جو نظر نہیں آتے مگر مسلسل تکلیف دیتے ہیں۔۔
بے کل سا کئے دیتے ہیں، وہ دکھ جن کا ذمہ غیروں پر نہیں ڈالا جا سکتا۔۔ ان دکھوں کے ذمہ دار خود ان کے والدین ہیں، بے حس ماں، لا پرواہ باپ، کیا ماں باپ ہونے کا مطلب صرف اتھارٹی حاصل ہونا؟ ہم کیوں یہ سمجھتے ہیں کہ صرف روٹی کپڑا اور چھت دے کر ماں باپ کا فرض ادا ہوجاتا ہے؟ ان لڑتے ہوئے دو لوگوں کو اپنے گھر میں یہ سہمے ہوئے بچے کیوں نظر نہیں آتے؟ انسان بڑا ہو کر اپنے بچپن کے جذبات کیوں بھول جاتا ہے؟
آج آپ کو اپنے بچپن کی کون سی بات یاد آتی ہے؟ مہنگا ترین کھانا جو آپ کے ماں باپ نے آپ کو کھلایا تھا۔۔ آج یاد ہے کون سا تھا؟ قیمتی ترین لباس جو آپ کے ماں باپ نے آپ کو پہنایا تھا۔۔ آج یاد ہے کون سا تھا؟ نہیں نا!
بچے کو پیسہ کوئی خوشی نہیں دیتا۔۔ ماں باپ کا پیار اصل خوشی دیتا ہے۔ ہمیں کوئی خو بصورت لمحہ یاد رہتا ہے۔۔ ہمیں وہ وقت یاد ہے جب ہمارے ماں باپ خوش تھے۔۔ یاکوئی بدصورت لمحہ۔۔ جب وہ لڑتے جھگڑتے تھے۔۔ جواب دہی کا احساس کہاں چلا جاتا ہے۔۔ کیا ہمیں اپنے بچوں کے بارے میں اللہ کے سامنے جواب دہ نہیں ہونا ہے؟ کیا اولاد کے کوئی حقوق نہیں ہیں؟
ہر طرف ہر کوئی ماں باپ کے حقوق کا پرچار کرتا ہے۔ کیا بچوں کے کوئی حقوق ماں باپ کے ذمہ نہیں ہیں؟ اولاد پر ماں باپ کے حقوق اس وقت فرض ہوتے ہیں جب وہ بالغ اور مکلف ہو جاتے ہیں جبکہ بچے کے حقوق اس وقت سے ہی شروع ہو جاتے ہیں جب ابھی وہ شکم مادر میں ہی ہوتا ہے۔
یا یہ ان چاہے بچے ہیں جو زبردستی ماؤں کے سر ڈال دیئے گئے ہیں۔ مگر اس میں قصور کسی اور کا ہوتا ہے اور سزا کس کو ملتی ہے۔ خدارا بچے پیدا کرنے سے پہلے بطور ماں باپ اپنے فرائض کے بارے میں تھوڑی سے معلومات حاصل کرلیں۔ اولاد کوئی میڈل نہیں ہے جس کو آپ فخر سے اٹھا کر گھر لائیں اورپھر الماری پر سجاکر بھول جائیں۔۔
یہ ایک جیتا جاگتا انسان ہے۔۔ پوری ایک نسل ہے۔۔ آپ کی لاپرواہی ایک نہیں کئی زندگیاں خراب کر دیتی ہے۔۔ سوچیئے خدارا سوچیئے۔