Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Nusrat Abbas Dassu
  4. Uncovering Asthma Misconceptions

Uncovering Asthma Misconceptions

دمہ کی غلط فہمیوں سے پردہ اٹھانا

Global initiative for asthma (جی، آئی، این، اے) کے زیر اہتمام ہر سال دنیا بھر میں مئی کے پہلے منگل "world asthma day" منایا جاتا ہے۔ اس کا مقصد لوگوں کو اس بارے میں تعلیم دینا کہ سانس کے مسائل اور دیگر الرجک بیماریوں پہ قابو کیسے حاصل کیا جاسکتا ہے۔ اس سال اس دن کے لیے جس تھیم کا اجراء کیا ہے وہ ہے۔

".Uncovering asthma misconceptions"

یعنی دمہ کی غلط فہمیوں سے پردہ اٹھانا۔

اس تھیم کا مقصد دمہ کے بارے میں موجود خرافات اور غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لیے call to action فراہم کرنا ہے۔ اس کے علاج کے حوالے سے اکثر غلط فہمیاں نقصان دہ ہوتی ہیں اور یہ غلط فہمیاں علاج کی راہ میں رکاوٹ ہے۔ دنیا بھر میں دمہ کے متعلق معلومات کا فقدان ہے اور اکثر دمہ کے مریضوں کو بھی نہیں معلوم ہوتا ہے کہ آخر اس سے چھٹکارا کیسے حاصل کیا جاسکتا ہے؟

رینالس آف گلوبل ہیلتھ کے 2020 کی رپورٹ کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں تقریباََ تین سو ملین سے زائد افراد اس مرض میں مبتلا ہیں اسی تحقیق میں آگے بتایا گیا ہے کہ امریکہ، برطانیہ اور سویڈن جیسے ترقی یافتہ ممالک میں بھی دمہ کے مریض بہت زیادہ ہیں۔ 2020 تک سی ڈی سی کی رپورٹ بتاتی ہے کہ 15 سے زائد عمر کے 8 سے 4 ℅ افراد جبکہ 5 سے 8 فیصد بچے اس مرض میں مبتلا ہیں۔

GINA کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں دمہ کا پھیلاؤ چار یا پانچ فیصد ہے، طرزِ زندگی میں تبدیلی، ماحولیاتی آلودگی، موٹاپا اور ورزش میں کمی اس بیماری کو بڑھانے کے سب سے بڑے اسباب ہیں۔ دمہ ایک بیماری ہے جو پھیپھڑوں کو متاثر کرتی ہے، یہ بچوں میں زیادہ دیر تک رہتی ہے البتہ بڑوں کو بھی یہ بیماری ہو سکتی ہے۔ genetic tendency الرجک بیماریوں کو پیدا کرنے کا ایجنٹ ہے۔ اگر آپ کو دمہ ہے تو آپ تب تک محسوس نہیں کرسکتے جب تک ہوا کی آلودگی آپ کے پھیپھڑوں کو متاثر نہ کرے۔ dust mites اور تمباکو کا دھواں الرجین کو بڑھاتے ہیں۔

آپ کو دمہ ہے کیسے بتائیں گے؟

یہ بات بتانا مشکل ہے کہ دمہ ہے یا نہیں خصوصاََ بچوں میں۔ اس کا حل یہ ہے کہ جب بھی سانس پھولنا شروع ہو جائے فوراََ ڈاکٹر کی طرف رجوع کریں کیونکہ ڈاکٹر دیکھے گا کہ اپ کے پھیپھڑے کتنے بہتر طریقے سے کام کر رہے ہیں۔ الرجی کی جانچ پڑتال کرنے کے بعد آپ کو یہ معلوم کرنے میں مدد ملے گی کہ آیا آپ کو دمہ ہے یا نہیں۔

دمہ کیسے آپ کے Airways کو متاثر کرتا ہے؟

دمہ کے دورے میں کھانسی، سینے میں جکڑن، گھرگھراہٹ اور سانس لینے میں دشواری وغیرہ شامل ہیں۔ دمہ ائیرویز پہ حملہ ور ہوتا ہے، ائیر ویز پھیپھڑوں تک ہوا لے جاتی ہیں جوں ہی ہوا پھیپھڑوں سے گزرتی ہے ہوا کے رستے چھوٹے ہو جاتے ہیں۔ مگر دمہ کے دوران پھیپھڑوں کے ساتھ ائیرویز پھول جاتے ہیں اور سکڑ جاتے ہیں جس کی وجہ سے کم مقدار میں ہوا پھیپھڑوں میں اندر باہر ہو جاتی ہے اور بغلم ہوا کی نالیوں کو بند کر دیتی ہے جس کی وجہ سے سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے۔

کونسے مسائل دمہ کے علامات کا سبب بن سکتے ہیں؟

دمہ کی تین بڑی علامات ہیں۔

ہوا کے رستے میں رکاوٹ: جب ہم معمول کے مطابق سانس لیتے ہیں تو پٹھوں کے اردگرد بیڈ آرام دہ ہو جاتے ہیں جب دمہ ہوتا ہے تو پٹھے سخت ہو جاتے ہیں اور ہوا کا گزرنا محال ہو جاتا ہے۔ دمہ کی سوزش سے پھیپھڑوں میں سرخ سوجن اور bronchial tubes کا سبب بنتا ہے اور یہ سوزش پھیپھڑوں کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔

ائیر ویز کا چڑچڑا پن: دمہ کے شکار افراد کے ائیرویز بہت حساس ہوتے ہیں۔

اس کے علاوہ کھانسی (خاص طور پر رات و صبح سویرے)، سانس میں کمی، سینے میں تنگی درد یا دباؤ وغیرہ بھی ہوتا ہے۔ ضروری نہیں کہ یہ ساری علامات سب میں موجود ہوں اکثر میں تو علامات ظاہر نہیں ہوتیں یاد رہے، علامات مرض کی نوعیت کے حساب سے ظاہر ہوں گی۔ کبھی کبھی وائرس انفکیشن کے دوران سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے اور یہ سنگین علامات ہے۔ جب گاڑھا بلغم سینے میں جمع ہوتا ہے تو سانس لینے کی نالی بند ہو جاتی ہے بر وقت علاج نہ کرنے کی صورت میں یہ علامات جان لیوا بھی ثابت ہوتی ہیں۔

دمہ کے کئی قسمیں ہیں۔

۔ allergic asthma یہ مختلف چیزوں سے ہو سکتا ہے مثلاََ دھول، پالتو جانور اور خشکی وغیرہ۔

۔ non-allergic asthma یہ شدید سردی یا گرمی کی وجہ سے ہو سکتا ہے یا پھر زکام کے دوران بھی ظاہر ہو سکتا ہے۔

۔ occupational asthma یہ عام طور پر ان لوگوں میں ہوتا ہے جو دھول اور کیمیائی دھوانوں کے اردگرد کام کرتے ہیں۔

۔ aspirin induced Asthma بہتے ناک، نزلہ و زکام کے دوران aspirin لینے سے یہ بیماری ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ بھی کئی دمہ کے قسمیں ہیں۔

کیا دمہ کا علاج ممکن ہے؟

یہ بات مسلم ہے کہ تمام عمر کے لوگوں کو دمہ ہوسکتا ہے ماہرین کہتے ہیں کہ فی الحال دمہ کا کوئی علاج نہیں۔ البتہ مختلف قسم کے طریقہ علاج سے دمہ کی علامات کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے جس سے ابنورمل فعال زندگی گزار سکتے ہیں۔ انہیلر بنیادی علاج ہے اس کے علاوہ مرض شدید ہونے کی صورت میں گولیاں اور دوسرے علاج کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔

انہیلر تین قسم کے ہوتے ہیں۔

۔ reliever inhalers یہ دمہ کے علامات ظاہر ہونے کے بعد اسے خود سے الگ کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

۔ preventer inhalers جسے روکنے والی انہیلر بھی کہتے ہیں جو علامات کی نشونما کو روکنے میں مدد دیتی ہے۔

۔ combination inhalers یہ دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ جب ریلیور اور پریونٹر انہیلر کے استعمال سے دمہ کنٹرول نا ہو تو پھر کمبینیشن انہیلر استعمال کیا جاتا ہے۔ اگر اس سے بھی علاج ممکن نا ہو تو پھر گولیاں لینی پڑتی ہیں۔

۔ lecukotriene receptor antagonist (LTRAs) یہ دمہ کی روک تھام کے لیے استعمال ہونے والی اہم دوائی ہے یہ شربت اور پاوڈر کی شکل میں بھی استعمال ہوتی ہے۔

۔ اس کے علاوہ steroids tablets & theophylline بھی استعمال ہوتا ہے جب کوئی بھی گولی علامات کو کنٹرول کرنے میں نا کام ہو۔

اسی طرح انجیکشن اور سرجری بھی کی جاتی ہے البتہ یہ شاز و نادر ہی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ شدید دمہ کے مریضوں کو چند ہفتوں میں ایک انجکشن لگایا جاتا ہے۔ omalizumab، benralizumab، restizumab اور mepolizumab جیسی انجیکشن استعمال کی جاتی ہیں۔ یہ دوائی حیاتیات علاج کے نام سے جانی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ bronchial thermoplastic نام کی ایک سرجری بھی کی جاتی ہے اس سرجری کے دوران مریض کو دوائی کے ذریعہ بے ہوش کیا جاتا ہے۔

اس دوران گلے کے نیچے اور پھیپھڑوں سے لچکدار ٹیوب کو گزارا جاتا ہے اور ائیر ویز کے آس پاس کے پٹھوں کو حرارت دی جاتی ہے تاکہ پٹھے تنگ ہونے سے بچے اور سانس کا عمل تیز ہو یہ طریقہ علاج بہترین ہے اور اس میں کوئی سنگین خدشہ بھی نہیں ہے۔

کیا اس مرض کا تاحیات علاج ممکن ہے؟

جیسا کہ بتایا جا چکا ہے کہ اس کا کوئی تا حیات علاج ممکن نہیں البتہ نئے اور جدید دواؤں سے صیح استفادہ کرنے کی صورت میں طرز زندگی مثلاََ الرجک اور غیر الرجک بیماریوں کے حملوں سے خود محفوظ رہ سکتے ہیں۔ یہ ہر عمر کے لوگوں کو متاثر کرتا ہے بس یہ ضروری نہیں کہ اگر ایک فرد کو مرض لاحق ہے تو گھر کے باقی لوگ بھی اس سے متاثر ہوں۔ اگر یہ مرض بچپن میں ظاہر نا ہو تو ممکن ہے کہ بالغ ہونے کے بعد ظاہر ہو۔

اس کا علاج نا ہونے کی ایک وجہ اس کا جینیات اور ماحول کی امتزاج سے پیدا ہونا ہے اسی لیے محقق اس کی وجہ کو جاننے سے قاصر ہیں۔ کچھ محقیقین کا خیال ہے کہ یہ وراثتی بیماری ہے اور اس نکتہ پہ تحقیق ہو رہی ہے اور جینز کی شناخت پہ کام جاری ہے اور بہت کام باقی ہے مختلف مریضوں کی آبادی میں دمہ کے بارے میں ابھی بھی بہت کچھ تحقیق کرنا باقی ہے۔ مثال کے طور پر، زیادہ تر نئی دوائیں چھوٹے بچوں میں استعمال کے لیے منظور نہیں ہیں۔

اس کے علاوہ، دمہ کے ساتھ افریقی، امریکی اور ہسپانوی آبادی کا اتنا تفصیل سے مطالعہ نہیں کیا گیا ہے جتنا کہ سفید فام آبادی کا۔ یہاں مزید معلومات کی ضرورت ہے، کیونکہ ان دو گروہوں میں زیادہ دمہ اور بدتر پیچیدگیاں ہوتی ہیں۔ ایکشن پلان بنائیں تاکہ یہ ایکشن پلان آپ کو یہ فیصلہ کرنے میں مدد کر سکے کہ اگر آپ میں علامات ظاہر ہونے لگیں تو کیا کرنا ہے؟ منصوبہ آپ اور آپ کے دمہ کے لیے منفرد ہونا چاہیے۔ اگر آپ کے پاس پہلے سے کوئی ایکشن پلان نہیں ہے، تو اپنے ہیلتھ کیئر کے فراہم کنندہ سے ایک ساتھ بنانے یا پھر GINA کے رہنما اصولوں کو اپنائیں۔

About Nusrat Abbas Dassu

Nusrat Abbas Dassu is student of MSC in Zoology Department of Karachi University. He writes on various topics, such as science, literature, history, society, Islamic topics. He writes columns for the daily Salam, daily Ausaf and daily Lalkar.

Check Also

Selfie Program

By Syed Mehdi Bukhari