Wednesday, 15 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Nusrat Abbas Dassu/
  4. Rasmi Taleem Sawalia Nishan

Rasmi Taleem Sawalia Nishan

رسمی تعلیم سوالیہ نشان

رسمی چیزوں پہ اعتقاد رکھنے والوں کو سمجھنا بہت مشکل ہے۔ کیونکہ ان کی ساری باتیں مفروضات پہ مبنی ہوتی ہیں، رسمی روش پر چلنے والے اندھی تقیلد کررہے ہوتے ہیں۔ جس سماج میں میں اور آپ رہتے ہیں اور جس معاشرے میں ہمارے بڑوں نے زندگی گزاری ہے اس معاشرے میں مفروضات سے بھری حکایات بے شمار ہیں۔ ان حکایتوں کو پہلے اپنے آبا و اجداد سے منصوب رسومات قرار دیتے ہیں پھر آہستہ آہستہ یہ مفروضات عقیدہ کی شکل میں دینیات کے زریعہ سے نئی نسل تک پہنچائی جاتی ہیں پھر نئی نسل اس خود ساختہ رسم کو عقیدہ سمجھ کے قبول کرتی ہے اور پوری توانائی کے ساتھ عمل کررہی ہوتی ہے۔

معذرت کے ساتھ! جدید تعیلمی نظام بھی رسمی ہے جسے نجات کا ضامن تعیلم سمجھ کر ہم نے قبول کیا ہے۔ موجودہ تعیلمی نظام صرف روزگار کے لیے نسل تیار کرتی ہے اور ستم ظریفی دیکھیں کہ اسی رسمی تعیلم کو ہم نے قابلیت و اہلیت کا معیار سمجھا ہے۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے؟ موجودہ دستوری نظام تعیلم کے زریعہ کسی بھی طالب علم کا فکری امتحان لینا کتنا ممکن ہے؟ اور مروجہ نصاب کے زریعہ سے تحقیقی دنیا میں جدید علوم کے زریعہ ترقی کتنا ممکن ہے؟

اس کا جواب آپ اپنے علاقہ یا محلہ میں موجودہ کسی تعیلمی ادارہ کی تعیلمی کو دیکھ اخذ کرسکتے ہیں۔ جس نصاب کے زریعہ ڈگریاں تفویض کیں جاتی ہیں اس میں کتنی جدید چیزیں شامل ہے اور امتحان لینے کا عمل کتنا شفاف ہے؟ اس کا جواب اپنے مضامیں کے نصاب کو جدید نصاب سے موازانہ کراکے حاصل کرسکتے ہیں۔ تمام مضامیں کے جدید تحقیقی مقالے کو مختلف ویب سائٹس پہ دستیاب ہیں۔

سوال پیدا ہوتا ہے۔ کیا پاکستان کے کسی جامعہ سے ڈاکٹریٹ(P.H.D) کرنے والے جدید علوم میں مہارت رکھتے ہیں کیا ان کے زریعہ سے جدید نصاب مرتب کرنا ممکن ہے؟ اس کے لیے اپنے شبعہ کے ڈاکٹریٹ کرنے والے اسٹوڈیٹ کا صحبت اختیار کر کے ان کی صلاحیتوں کا اندازہ لگا سکتے ہیں۔ موجودہ نصاب کے زریعہ سے کیا ہم کوئی عملی کام کرسکتے ہیں؟ کیا خصوصا سائنس کے طلبا اپنے design کردہ project پر عملی کام کرسکتے ہیں؟

جہاں تک میں نے نصاب پڑھا ہے ممکن ہی نہیں ہے۔ وہ اس لئے کہ ہمارے حیوانیات (zoology) کا ایک شبعہ اکنامکس زولوجی ہے۔ جس میں فالتو جانوروں سے حاصل کرنے والے معاشی فائدوں کے حوالے سے پڑھا یا جاتا ہے اور dairy farm، poultry farm اور feashry کی کلچرنگ کے حوالے سے مختلف تکنیک پڑھائے جاتے ہیں۔ گزشتہ سال اس نصاب کے لیے ایک تحقیقی مقالہ پڑھایا گیا جو کہ 1998 کا تھا۔ تو اس حوالے سے ابھی چند ہفتے پہلے والد صاحب سے مشورہ کیا اور پروجیکٹ کے حوالے سے بتایا والد صاحب نے پہلے تو مجھے کہاں آپ کی منصوبہ بندی سے بہتر اسٹیٹیجی ایک چرواہے کے پاس ہو گی اور جدید طریقے بھی آپ سے بہتر ان کے پاس ہونگے اگر یہی کچھ نصاب ہے تو بہتر ہے آپ چرواہے کی طرف رجوع کریں۔

ازروتفنن!کیونکہ آپ کے پروجیکٹ میں نوے فیصد مواد کم از کم 30 سال پرانا ہے۔ واقعی ایسا ہی تھا اس مقالے میں دس روپے کا دودھ، 25 ہزار کے گائے، 15 روپے کا دہی اور ملازمین کی سیلری دو سے تین ہزار روپے۔ باقی ویکیسینز اور اینٹی باڈیز کی بات ہی ناکریں اور ان کو متاثر کرنے والے وائیرسز اور ان کی جدید علاج صفر تھا۔ اب آپ خود غور کریں ! ہم رسمی تعیلم کے سامنے کتنے بے بس ہیں؟ بد قسمتی سے مروجہ تعیلمی نظام نے ہماری تخلیقی صلاحیتوں کو معدوم کیا ہے اور نصاب رٹافیکیشن کا نام ہے۔

ہمارے اکثر نجی تعیلمی اداروں میں پڑھانے والے اساتذہ کو READING کرنے کے علاوہ کچھ نہیں آتا اور اس سے بھی بڑی ستم ظریفی یہ ہے کہ نجی اسکولز کا نصاب انگریزی میں ہےاب آپ مجھے بتائیں؟ وہ استاد یا استانی صاحبان جن کو ترجمہ کرنا نہیں آتا وہ کیسے سمجھاتے ہونگے! گبھرائے نہیں۔ اب تو نجی اسکولز والوں نے اس کا بھی حل نکالا ہوا ہے۔ اکثر نجی اسکولز میں کلاسز شروع ہونے سے پہلے ہی solve syllabus اپنی نگرانی میں بناواتے ہیں اور کلاسز شروع ہونے کے ساتھ ہی لکھوانا شروع کردیتے ہیں۔ اور روزانہ کی بنیاد پر رٹا لگانے کے لیے ڑائیری بھی دی جاتی ہے۔ اسکول میں بس کام کراتے ہیں کاپیاں بھرواتے ہیں جسے دیکھ کر والدین بھی مطمئن نظر آتے ہیں۔ اور یوں بڑی مہارت سے چند روپوں کے لیے نئی نسل کا بیڑہ غرق کردیتے ہیں۔

اس سے بھی اگلا مرحلہ اور غور طلب ہے! اور یہی اسٹوڈیٹ انٹر کر کے واپس نجی اسکولز کا رخ کرتے ہیں اور یوں یہ واٹر سائیکل کی طرح واپس اسکولز میں آتے ہیں اور معاشرے میں موجود تخلیقی زہانتوں کو رٹافیکیشن کا عادی بنا دیتے ہیں اور رسمی نظام تعیلم کے اس دلدل پوری قوم پھس جاتی ہے۔ اور اس فرسودہ نظام کو ترقی کا ضامن سمجھ کے جدید نظام تعیلم سے بے خبر ہو جاتے ہیں۔ اور یہی اسٹوڈیٹ یونیورسٹیز میں پہنچ جاتے ہیں تو GPA کے لیے سئینرز سے اہم سولات پوچھتے رہتے

رٹا لگاتے ہوئے۔ ماسٹرز کر لیتے ہیں۔ پھر کیا ہونا ہے۔ ادیب کیشیز!زولوجییسٹ و بوٹینیسٹ۔ بینک منیجر، ایکنٹینٹ۔ !اور مطالعہ پاکستان وغیرہ میں ماسٹرز کرنے والاکسی نجی اسکول میں فزکس، کمیسٹری، بائیولوجی اور ریاضی کے نامی گرامی استاد شمار ہوتا ہے کیونکہ اس نے پوری زندگی Events رٹ لیے ہوتے ہیں۔ اقبال تیرے شاہین لاجواب ہے، بے مثال ہے۔

About Nusrat Abbas Dassu

Nusrat Abbas Dassu is student of MSC in Zoology Department of Karachi University. He writes on various topics, such as science, literature, history, society, Islamic topics. He writes columns for the daily Salam, daily Ausaf and daily Lalkar.

Check Also

Artificial Intelligence Aur Jaal Saz

By Mubashir Ali Zaidi