Saturday, 20 April 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Nusrat Abbas Dassu/
  4. Munafiqat O Taasub

Munafiqat O Taasub

منافقت و تعصب

نادرا کے مطابق ابر نیسان کے پہلے ہفتے اور اکیسویں صدی کے ابتدائی سال میں میرا جنم ہوا۔ بارہا! عرض داشت کے باوجود بھی میری یاداشت سن طفلی کے بارے میں بتانے سے قاصر رہی۔ البتہ بھائیوں کے ساتھ باذیچہ طفلی میں ساعد لاغر سے خواہش جیت کے لیے لڑائی لڑنا یاد ہے۔ ہاں وہ بھی یاد ہے کہ تکثیف سے بھرے بزرگ جو دولت امیر کے لیے، تکذیب غریب کرتے تھے اور تک بندی کرنے والے کٹر منافق تھے۔ جیوتش کے حلیے بھی ان کے سامنے کچھ نہیں تھے۔ یہ حلیہ باز لوگ اپنی ذات میں خود کو جھنڈ سمجھتے تھے۔ باخدا ان میں حفظ مراتب بھی نہیں تھا۔ انتہائی قسم کے ذلیل لوگ تھے جنہیں لڑانے کے علاوہ کچھ نہیں آتا تھا۔ ان منحوس لوگوں کو سن طفلی میں دیکھا۔

عمر بڑھی عقل کو بھی پختگی حاصل ہوئی، خلد اشیاں (باپ کے سایہ) میں ابجد خواں بنا اور پدر مخلص نے ضرب، تقسیم و تفریق کا سبق زھن میں نقش کردیا۔ درس اخلاق سے ذہن کو طروات بخشا اور طعن و تشیع سے مقابلہ کرنے کا گر سیکھا کر مکتب علم کی ابتدائی جماعت میں داخل کر دیا۔ بوستان علم میں شفیق اساتذہ کے ساتھ چند بوجھ بجھکڑکے بھی ملے، جو منافق پدر کے وارث تھے۔ یہ منافق باپ کے ناخلف اولاد ہمیشہ صفات پدر کو توضیح کرنے کی کوشش میں لگے رہتے تھے۔ ایسوں کا معاشرے میں خوب حوصلہ افزائی تھا۔ منافقت عام تھیں اور ہم نے بھی حاضر باش ہونے کا ثبوت دیا اور منافقت کے سمندر میں غوطہ زنی کا ارادہ کیا۔ باخدا وہ عمر جو سن بلوغت سے پہلے کی تھیں کثافت زدہ نہیں تھیں معاشرے نے کثافت زدہ بنایا دیا۔

ایک مرتبہ ایک بزرگ نے ایسی بات کہہ دی جس کو سننے کے بعد برمحل فانوس کنبہ کے ہاتھ کمر تک اگئے اور میں فانوس کو دیکھتا رہا، جو نشتر زبان سے گل ہورہا تھا۔ میں نے فال نامہ کا سہارا لیا تو الفاظ مرقوم تھے " خدا پر توکل ہے تو ہر حال میں راضی رہو"۔ میں بہت کمسن تھا مصلحت پسندی و خیالی دنیا سے نا اشنا تھا، اس جسارت کے بعد دنیا تخیل کی طرف چل پڑا۔ اور بدائع جدید کے خاکے ذھن میں تیار کرنے لگا اور فیصلہ کیا کہ موقع ملتا ہی بد تمیز نحیف کے چہرے کو رنگ دوں تاکہ ان کا بد نما چہرے کسی کو دیکھانے کے قابل ہی نہ رہے ،بڑھتی عمر کے ساتھ میں حاضر باش ہوتا گیا۔ معاشرہ اور وقت نے مل کر مجھے حاضر جواب بھی بنا دیا۔ ایک دفعہ شفیق معلم نے مجھے بے لیلا بیستوں کو کھودنے پہ لگا دیا میں خلوص کے ساتھ کوہ بے سکون کھودنے میں مصروف تھا سماج کے ہنگاموں نے بید مجنون کردیا۔ پر مقابلہ ضروری تھا تقاضہ وقت یہ تھا کہ اینٹ کا جواب پھتر سے دیا جائے۔ کوشش بھی بحرحال ضائع گئ معتصب معاشرے کے سامنے پتھر بھی خاکی اینٹ جیسے ثابت ہوئے۔ الغرض کوہ بے سکون کھود کے بعد بھی اجرت کسی اور کو مل گئی۔ تو میں نے خود کو خود کا مصاحب بنایا اور چلنے کا ارادہ ہی کیا تھا کہ چابک وقت نے پشت بدن سے وار کر کے ابدالی زھن کو کاہل بنادیا اور ایک تاریکی زھن پر چھا گئی، خود کے ساتھ دوش بدوش چلنے سے بھی قاصر رہا۔ دوربینی عقل مفلوج ہوگئی۔ اس کے بعد کبھی ابر کرم نہیں برسا، اخبث وہم ذھن میں ادا شناس بن کے بیٹھ گیا۔

عمر سن بلوغت کو پہنچی، تو بستی چھوڑ کے شہر اغیار اگیا۔ اس شہر نا اشنا کا ایک کرگس(سرغنہ) شہر سے بے دخل ہو چکا تھا پر انکی انفینٹری نے شہر کو اپنے قبضہ میں لیا ہوا تھا، جب چاہتے جہاں چاہتے گھس کے کسی کا بھی سر بغیر ڈر کے تن سے جدا کرتے اور سروں سے فٹبال کھیلے جاتے۔ مظلوم بے گناہ قتل ہورہے تھے۔ ان دنوں ڈر و خود سے گھٹن کی زندگی گزرہی تھیں۔ شہر کا کوئی پرسان حال نہیں تھا۔ لاقانونیت عام تھیں کوئی سایہ افگن نہیں تھا۔ کرائے کے لوگ تعلیمی ادارے، مساجد، مکتب، ہسپتال سے لیکر حکومت کے عہدوں تک پر، ہر جگہ تعینات تھے۔ لڑائی مسلک، مذہب، علاقہ، زبان اور رنگ ونسل کی تھیں۔ مسلکوں میں بھی شخصیت پرستی عروج پر تھیں۔ مقتول کا گھر آباد تھا اور ناہی قاتل سکون میں تھا۔

چند سال قبل شہر کے حالات بہتری کی طرف گامزن ہوئے۔ پر جواب نا معلوم تھا کہ آخر! معاشرے میں تعصب وہ منافقت کیوں عام ہے؟

وقت گزرتا گیا بے راہ کشتی ساحل تک اگئی۔ تعاقب منزل کے لیے سفینہ مقصود میں بیٹھ گیا۔ تعویذ مکتب پہن کر درسگاہ گیا اور وہاں مبتداذھن طلاب کو تغذیہ علم دینے کا ارادہ کیا۔ افسوس کہ درسگاہیں ہر گلی میں جنرل اسٹورز کی طرح کھلے ہوئے تھے ان جنرل اسٹورز میں غیر معیاری اور ناقص غذا بک رہی تھیں پر شہر میں کثرت آبادی کی وجہ سے تمام جنرل اسٹورز پر خوب رش لگا رہتا تھا۔ والدین تعقیدی غذا اپنے بچوں کو کھلانے پر مجبور تھے۔ جب ہم ان اداروں سے وابستہ ہوئے تو معلوم ہوا اور نظر آیا کہ چند پیشہ ور مل کر ایک ادارہ کھولتے ہیں اور غریب والدین کے پیسوں کو دولت خداداد سمجھتے۔ اس تعلیمی نظام کو چلانے کے لیے ایک فیمیل خاتوں کو کو تعینات کیا جاتا ہے۔ جو گرجنے میں تیز ہوتی، دھوکہ دہی میں ماہر اور جھوٹ بولنے کے تمام رموز سے آشنا ہوتی ہے ان صفات کے حامل خواتین کسی بھی پرائیوٹ ادارے کے لیے اہل ترین MADAM شمار ہوتی اور ہے۔

ابھی اس میں اور جدت اگئی ہے کیونکہ غربت کی وجہ سے والدین بھی اپنی کملی میں مست ہیں۔ پرائیویٹ ادارے میں قابلیت و تجربے کی کوئی ضرورت نہیں، بقدر ضرورت میٹرک پاس طالب علم کو بھی نویں کلاس پڑھا نے کے لیے اہل تصور کیا جاتا۔ خیر علم و ادب سے نابلد اساتذہ کسی مشہور کوچنگ سنٹر کے نوٹس سے بچوں کو رٹاواتے ہیں اور کوئی جواب طلب نہیں ہوتا۔ اچھا یہی کم سن اساتذہ کا تعلق کسی مسلک (بریلوی، دیوبندی یا اہل تشیع) سے ہو تو وہ برملا اپنے عقائد کا اظہار کرتے ہیں اور اپنے عقائد دوسروں پر ٹھوسنے کی کوشش کرتے ہیں کلاس میں جس مسلک کے بچے کم ہوتے ہیں ان پر چڑھائی شروع کردیتے ہیں اور تو اور اس بچے کے ساتھ مسلکی بنیادوں پر امتیازی سلوک کیا جاتا ہے۔ اساتذہ جہاں بیٹھ جاتے ہیں مفسر بن کر دین کی تشریح کرتے ہوئے دیکھائی دیتے تاکہ مخالف مسلک والے اساتذہ اس کا اثر لے۔ یہی ناتجربہ کار اساتذہ ہی بچوں کو عدم برداشت کا سبق دیتے ہیں اور انہی کی وجہ سے مبتدا زھن طلبا تعصب سیکھ کر معاشرے میں عام کرتے ہیں۔

جیساکہ میں نے کہا میری یاداشت بہت کمزور ہے پھر بھی بچپن سے اب تک تعصب و منافقت کو درک کرتا رہا ہوں، ان واقعات پر ایک ضخیم کتاب مرتب کر سکتا ہوں۔ کیونکہ تعصب، منافقت، ان پرستی، شخصیت پرستی اور زرپرستی انسان مکتب یا معاشرے سے سیکھتا ہے۔

تعصب پہلی جماعت سے ہمیں سکھا جاتا ہے اور منافقت معاشرے کے بڑوں سے سیکھتے ہیں۔ جس معاشرے میں بھی تعصب و منافقت کی برائیاں ہو اپنے بچوں کو معاشرے کے بڑوں سے دور رکھیں درسگاہیں بدلیں۔ معاشرے میں مجرم کو سزا دینے سے پہلے ان کے اساتذہ اور معاشرے کے بزرگ لوگوں سے ضرور پوچھیں۔ معاشرے کو سنوارنے والے اور بھگاڑنے والے یہی ہے۔ معتصب معاشرے میں شیطان کے بعد سب سے بڑا مکار ملا ہوتا اور منافق معاشرے میں شیطان کے بعد سب سے بڑا حضرت شیطان معاشرے کا بزرگ ہوتا ہے جو نسلوں میں منافقت کی خباثت بھر دیتا ہے۔

About Nusrat Abbas Dassu

Nusrat Abbas Dassu is student of MSC in Zoology Department of Karachi University. He writes on various topics, such as science, literature, history, society, Islamic topics. He writes columns for the daily Salam, daily Ausaf and daily Lalkar.

Check Also

Bijli Kyu Karakti Hai

By Javed Ayaz Khan