Jungli Hayat Aur Baqa Ki Jang
جنگلی حیات اور بقاء کی جنگ
پاکستان کے شمالی علاقہ جات جو کہ کئی وجوہات کی بنا پر ایک اہم خطہ ہے۔ یہ خطہ واٹر ٹاور اور توانائی کا مرکز ہے۔ جو کہ وسیع آبی وسائل کی وجہ سے پاکستان کی زرعی زمینوں کو سیراب کرتا ہے۔ اس خطے میں دنیا کے تین بڑے پہاڑی سلسلے ہیں، قراقرم، ہمالیہ اور کوہ ہندوکش۔ قراقرم کے زریعہ اس کا واحد زمینی راستہ چین کے ساتھ ہے، اس کی سرحد ایک طرف افغانستان اور دوسری طرف ہندوستان کا زیر کنٹرول کشمیر کے ساتھ ملتی ہے۔ اس کا علاقہ گریڑ ہمالیاتی پہاڑی سلسلے خشک مخروطی جنگلات پر مشتمل ہیں۔ اس خطے میں حیرت انگیز طور پر خون خوار جنگلی انواع ہیں۔ جن میں برفانی چیتے، مارخور، گلہری، مارکو پولو بھیڑ، کستوری ہرن، بھورے ریچھ، ہمالیہ لنکس، اوٹر چیتے، تیتر اور ریگر جنگلی انواع ہیں۔ ان جانور کی کثرت شکار کی وجہ سے ان نایاب انواع کی نسلیں معدوم ہورہی ہے۔
اوکسفروڈ یونیورسٹی سے شائع شدہ تحقیقی رپورٹ " The mountain mammals in Pakistan George B. Schaller . لکھتے ہیں جو 1971 میں اپنی تحقیق کے لیے چترال کے دورے پر تھا کہتے ہیں۔" 50 فیصد بھیڑ و بکریاں، 31 فیصد مارخور اور 13 فیصد ریم فاربس روز مرہ کے کھانے مذہبی اور علاقے پروگراموں کے لیے استعال ہوتےہے " 1973 میں چترال کے ڈپٹی کمشنر نے شوٹنگ پر پابندی لگادی۔ پر اس کے باوجود بھی نایاب جانوروں کے شکار بند نہیں ہو سکے اسی رپوٹ میں اگے لکھتے ہیں " چترال میں ایک سال میں 6 چیتوں کو گولی مار دی گئی "۔ گلگت بلتستان میں کثرت سے جنگلوں کی کٹائی کی وجہ سے یہ نایاب جانوروں کی نسلیں ختم ہورہی ہے، ایک وجہ خود انسان کا تحفظ بھی ہے۔
دنیا بھر میں غذا کی قلت کی وجہ سے یہ خونخوار جانور انسانوں پر حملہ ور ہورہے ہیں۔ ایران میں 83، انڈیا کے کئی ریاستوں میں ان گوشت خور جانوروں کے حملوں سے درجنوں لوگ ہلاک ہوتے ہیں، نیپال میں اس کی شرع 16 فیصد ہے، ہر سال پچاس سے زائد افراد ہلاک ہوتے ہیں۔ اسی سال گلگت بلتستان میں ایک مویشی خانہ پر چیتے کے حملہ کے نتیجے میں درجنوں جانور ہلاک ہوئے تھے۔ ڈان کی رپوٹ کے مطابق " متاثرہ کسانوں کو ٹرافی ہنٹنگ پرگرام سے مختص فنڈ سے امداد دی گئی"۔
اس بات کی طرف توجہ ہونے کی ضرورت ہے economic zoology اور zoography کے مطالعہ کے بعد اس کی افادیت و معاشی فائدے کا اندازہ ہوا geographical barriers کا سامنے کرنے کے بعد نسلی ارتقا کی جنگ کیوں ضروری ہے؟
قابل غور بات یہ ہے کہ گلگت بلتستان میں جتنے بھی پالتو جانور ہیں ان میں کثرت بھیڑ بکریوں کا ہے۔ اور دودھ کی ضرورت کو پورا کرنے کے لئے گائے اور کھیتی باڑی و گوشت کی ضرورت پوری کرنے کے لیے بیلوں کو پالا جاتا ہے۔ بھیڑ و بکریوں کو دوسرے پالتو جانوروں سے کم غذا دینا پڑھتا ہے اور اس سے تقریبا آدھا درجن کے قریب معاشی فائدے بھی حاصل ہوتے ہیں۔ مثلا دو وقت کا دودھ، گوشت، بالوں سے روایتی کپڑے بنانا، کھال سے چار پائی بنانا، اور نر جانوروں کو interbreed کے لیے استعمال کرنا وغیرہ وغیرہ۔ ان کثیر فائدوں کی وجہ سے جانوروں کو گھروں پر پالا جاتا ہے اور سال کے بارہ مہینے میں ان کی دیکھ بھال کی جاتی ہے۔۔
مارچ سے لے کر ستمبر تک انہیں آبادیوں و فصلوں سے دور پہاڑوں کی طرف لے جایا جاتا ہے تاکہ سردی کے 4 مہنیوں کے لیے چارہ ذخیرہ ہو۔ وہاں پر شیلٹرز اور باڑے بنائے جاتے ہے تاکہ ان پہاڑی علاقوں میں گوشت خور جانوروں سے ان کی تحفظ بھی ممکن ہوسکے۔ ستمبر کے مہینے میں پہاڑوں پر برفباری شروع ہوجاتی ہے۔ چیتے اور دیگر جنگلی انواع geographical barriers کا سامنا کرتے ہوئے بلند چوٹیوں سے بقاء کی جنگ لڑنے کیلئے آبادیوں کی طرف اتے ہیں۔ اور پالتو جانور پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ جس کے نتیجے میں پالتو جانور شکار ہوتے ہیں۔
مالکان کو معاشی نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ زندگی بھر کی کمائی ایک لمحے میں ڈوب جاتی ہے اور چند ہزار کی امداد نقصان کا مداوا نہیں کر سکتی۔ چیتے اگر نایاب جانور ہے تو اس کے مارنے پر پابندی ہے۔ تو کیا؟ اس کے علاوہ باقی سارے جانور نایاب نہیں، جو سرد موسم میں پہاڑوں کی بلندی پر چیتوں کے ساتھ رہتے ہیں؟ اتنی بلندیوں پر کستوری ہرن اود دوسرے انواع بھی رہتے ہیں۔
ان جانوروں کو بچانے کے لیے کوئی حکمت عملی نہیں اور آبادیوں سے دور ان کی غذا اور خوراک کا بھی بندوبست نہیں، جس کی وجہ سے یہ آبادیوں پر حملہ آور ہوتے ہیں۔ محکمہ جنگلات کا کوئی ایک رضاکار بھی سردیوں میں نظر نہیں آتا۔ جب کی نایاب جانوروں کے تحفظ کے لیے ہیں ان کا وہاں ہونا ضروری ہے، اگر حالات ایسے ہی رہے تو قلت خوراک کی وجہ جانوروں کے ساتھ ساتھ انسانوں پر بھی حملہ آور ہونگے جس سے نا صرف پالتو جانور ہلاک ہوں گے بلکہ انسانی جانوں کے ضیاع کا بھی خطرہ لاحق ہے۔ محکمہ جنگلات و ولڈ لائف کو اس طرف توجہ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔