Hum Nahi Badle
ہم نہیں بدلے
پچھلے 75 سالوں سے ٹی وی کی سُرخِیوں اور اخبار کی خبروں میں یہ خبر مسلسل رہی ہے کہ پاکستان کے حالات بہتری کی طرف گامزن ہیں اور حالات بہتر ہو رہے ہیں مگر اُمیدوں کا جہاں آباد کر کے جینے والی قوم آف، ہائے اور افسوس کہتی ہوئی ایامِ زیست کاٹ رہی ہے کیونکہ ان سات دہائیوں میں چہرے تبدیل ہوئے ہیں حاکم ہم پر وہی اشرافیہ، وہی وڈیرے، جاگیردار، چودھری اور سردار ہیں۔
معذرت کے ساتھ جس ہدف کی جانب ہم انیس سو سینتالیس کو بڑھے تھے وہ سمت، وہ منزل ہم سے کوسوں دور رہ گئی ہے اور ناسمجھی میں ہم نے رہزن کا ہاتھ تھاما تھا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہم مسافر تو ٹھہرے پر بے منزل راہی کی طرح مسلسل افسانوی ہدف کی کھوج میں دربدر پھر رہے ہیں، رونا روتے ہیں اور سال بھر مُخِیر ممالک سے خیرات کی بھی مانگ رہے ہوتے ہیں۔
کبھی ہم نے نہیں سوچا کہ اس زرخیز و قدرتی وسائل سے مالا مال ملک آخر اتنی ابتر حالات سے کیوں دوچار ہیں؟ کہیں اس دھرتی ماں کو بھیکاری بنانے میں ہم سب کا ہاتھ تو نہیں؟ آخر ہم کس سے آس لگائے بیٹھے ہیں۔ کیا ہم اپنی ذمہ داریاں پوری کر رہے ہیں۔ کیا ہم قومی مفادات کو ذاتی مفاد پر مقدم رکھ رہے ہیں یا پھر ذاتیات اور مفاد پرستی کی روش اپناتے رہے ہیں۔ کیا اس معاشرہ میں بسنے والا ہر مزدور و معلم سے لیکر محرر، مُحقق دانشور تک ہر فرد اپنی ذاتی مفادات سے زیادہ قومی مفادات کوعزیز رکھتا ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا معلم جنہیں نسل نو کی ذہن سازی کرنی ہے وہ ذہن سازی کر رہا ہے؟
ایک محرر اپنے قلم کے ذریعے فکری تربیت کرتا ہے کیا اس دیس کا قلمکار فکری تربیت کر رہا ہے؟
محقق جو نئے انکشافات کرتا ہے اور ملک کی تعمیر اور ترقی کا ضامن ہے کیا وہ جدید اصول تحقیق کو درسگاہوں میں متعارف کرا رہا ہے؟
دانشور کا کام ریاست کی داخلی و خارجی پالیسیوں میں مشاور بننا ہوتا ہے کیا دانشور نظام و قانون کو منظم کرنے کی کوشش کر رہا ہے؟
اگر ہم سب جو مختلف پیشوں سے وابستہ ہیں اپنی ذمہ داریاں نہیں نبھا رہے ہیں تو امیدوں کا جہاں آباد کرنا بھی فضول ہے کیونکہ امید بھی کوشش ہی کے بعد رکھی جاتی ہے مگر جہاں سستی و کاہلی انا پرستی اور ذاتی مفادات قومی مفاد پر غالب ہو وہاں نظام تبدیل ہوتا ہے نا ہی حالات اور نہ ہی بہتری کی امید لگائی جا سکتی ہے۔
کیونکہ اس ملک کا نظام چلانے والے ہمارے اشرافیہ از روئے جمہوریت ہی ایوانوں میں جاتے ہیں اور اِنہیں حاکم بنانے کے پیچھے ہمارا ہی ہاتھ ہوتا ہے تو پھر "طویلے کی بلا بندر کے سر" جیسی بات ہوگی۔ اگر ہم حالات کا ذمہ دار صرف حکمرانوں کو قرار دیں گے تو کیونکہ اکثر ذاتی مفادات کے لیے ہم ووٹ کاسٹ کرتے ہیں اور قومی مفاد کا نہیں سوچتے۔
تو ظاہر ہے گلی کا اوباش زر کے بل بوتے پر حاکم بن جائے تو بات سیدھی ہے۔ "ساون کے اندھے کو ہرا ہی سوجھتا ہے"۔ وہ جیسے خود ہوگا ویسے آپ کو بھی سمجھے گا، آپ دس روپے کے لیے بکے تھے تو وہ سو روپے کے لئے تو بکے گا۔ وہ یہ سوچے گا بھاڑ میں جائے قومی مفاد بس میرا گھر چولھا جلے، تعلیمی نظام تباہ ہو، بنیادی ضروریات غریب کو نہ ملے اور اسپتال نام کی کوئی چیز نہ ہو بس میرا کیا میرے گھر کی دال روٹی چلے۔
شاید ہم من حیث القوم اپنی ذمہ داریوں سے غافل ہو چکے ہیں اپنے روزمرہ کی زندگیوں میں اپنی ذاتی مفادات کو مقدم رکھتے ہیں اسی لیے ہم آج ستر برس گزر جانے کے بعد بھی اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہو سکے۔ ہمارا ملک بھکاری بنا ہوا ہے قومی غیرت کا سودا ہو چکا ہے۔ جس ملک سے ستر سال پہلے آزادی حاصل کی تھی وہ ملک اب بھی ہمارا مالک بنا ہوا ہے۔ اب تو پھر سے قومی مفادات کے فیصلے لندن میں ہونے لگے ہیں۔