Thursday, 16 May 2024
  1.  Home/
  2. Blog/
  3. Nusrat Abbas Dassu/
  4. Corona Is A New MYTH

Corona Is A New MYTH

کرونا اِز نیو مِتھ

کرونا وبا کا کیا پھیلنا تھا کہ پوری دنیا کا نظام درھم برہم ہوگیا، ایشاء اور یورپ کے ممالک کبھی بند ہوتے ہیں تو کبھی کھلتے ہیں۔ وہ کہاوت سنی ہوگی " خربوزہ خربوزے کو دیکھ کے رنگ پکڑتا ہے " معزرت گرفت مت کیجئے گا " رنگ بدلتا ہے " پاکستان کے لیے یہ بات مسلم ہے کہ، یہاں پہ موجود حکمران رنگ بدلتے رہتے ہیں، نا جانے ان پہ نئے اور جدید خربوزوں کا رنگ کیوں چڑھتا ہے؟ مغرب و مشرق کو دیکھتے ہوئے، یہاں بھی پچھلے دو سالوں سے کبھی مارکیٹس بند ہوتیں ہیں، تو کبھی تعلیمی ادارے اور کبھی عبادت گاہیں۔

اصل میں یہاں موجود ہمارے نمائندے ان نا لائق طالب علموں کی طرح ہے، جو امتحان گاہوں میں اکثرآگے پیچھے دیکھ کے چھاپ رہے ہوتے ہے اور استاد کی نظر پڑھتے ہی، خود کو ایسا ظاہر کرتے ہیں جیسے سب کچھ خود سے کیا ہو۔ دنیا بھر میں اس نئے mythکے خلاف لڑنے کے لیے تحقیق ہورہی، اور کچھ عرصہ پہلے ویکسین بھی تیار ہوچکی ہے اور پاکستان نے بھی چین کی مدد سے ویکیسن بنا ئی ہے، اس سے ہمیں کیا؟ جس سے بھی مل کر بنائیں۔ خیر!

میں کچھ اور بتانے چلا تھا کہ سابقہ برس جب کرونا عروج پر تھا تو حسبِ عادت حکمرانوں نے، کام سے لیکر تعلیمی اداروں تک، سب پہ پابندی لگا دی اور ہم گھروں میں ہی قید ہوگئے۔ اور ہم نے وقت کو غنیمت جانا، اور وائیرسز کو پڑھنا شروع کیا۔ کرونا کی علامت پہ بھی غور کیا، تو حیرت میں پڑھ گئے کہ اس کی ساری علامات ٹائیفائڈ اود فلو جیسی ہیں، یعنی وہی

Shortness of breath, cough, fever chills, sore throat, muscles or body aches, headache, congratulation, vomiting اور Diarrhea

ہم نےسوچا، کیوں نا اس NEW FICTIONپہ اعتراض کریں؟ خیر دو سالوں میں مغرب کی تقلید کرنے والے ہماری بات کہا سنے والےتھے؟ نہیں سنیے! پھر بھی ہمارے شکوے ہیں۔

1۔ اگر کرونا کوئی نئی بیماری ہے تو اس کی علامات کیا ہیں؟ اگر علامات typhoidاور fluجیسی ہیں تو اسے نئی بیماری کہنے کی کیا وجہ ہے؟ اسے فلو ہی کیوں نا کہیں !

2۔ کیا یہ عجیب نہیں کہ، یہ پچھلے دو سالوں سے ایک ملک میں چند لوگوں کو ہلاک کرکے دوسرے ملک منتقل ہوتا، اور پھر وہاں سے تیسرےملک منتقل ہوتا ہے۔ اگر یہ قابلِ انتقال ہے اور قوت مدافعت کا مضبوط ہونا ہی اسے روکنے کا واحد حل ہے، تو جس ملک میں یہ ٹھہرتا ہے وہاں کے تمام کمزورلوگوں کو متاثر کیوں نہیں کرتا؟ اور افریقہ میں اکثریت آبادی Malnutritionکا شکار ہے اور ان کی قوت ِمدافعت متاثر ہے، تو وہاں یہ وائیرس کیوں کم ہے؟ اگر یہ سردی کی وجہ سے پھیلتا ہے تو پھر، کیوں نا اسےseasonal fluکہیں، جو ایک صدی پہلے دریافت ہوا ہے۔

3۔ 2003 میں 31.4 ملین انفلوینزاء کے مریض امریکہ کے ہسپتالوں میں داخل ہوئے تھے، اور صرف میڈیکل کے مد میں 10 کھرب ڈالر صرف ہوئے تھے، اور علاج معالجے کے لیے 4. 2 کھرب ڈالر لگے تھے۔ اب سوال پیدا ہوتاہے کہ، پچھلے دو سالوں میں کتنے انفلوینزاء کیسزز رپوٹ ہوئے ہیں؟

4۔ میمپز وائیرس تیزی کے ساتھ ایک جسم سے دوسرے جسم میں نظام تنفس کے زریعہ منتقل ہوتا ہے۔ امریکہ نے 1967 میں اسکی ویکسین پہ کام شروع کیا تھا، اور اس سے نجات حاصل کرنے کا واحد حل ویکسین کو ہی قرار دیا تھا۔ یو۔ ایس ڈیپادٹمنٹ آف ہیلتھ اینڈ ہیومن سروسز کے مطابق اس کو ویکیسن کے زریعہ ہی قابو کیا جاسکتا ہے۔

" Vaccination is the best way to prevent mumps and mumps complications"

اس رپورٹ میں آگےہدایات بتائیں ہیں:

" When a person is ill with mumps, they should avoid contact with others from the of diagnosis until 5 days often on get of parotitis by staying home from work or school and staying in a separate room if possible "۔

ان تمام ہدایات کے باوجود، پچاس سالوں میں دنیا بند نہیں ہوئی اور سب سے زیادہ اس وائیرس پہ قابو بھی حاصل کیا گیا ہے، ویکسین اور اینٹی باڈیز کے زریعہ سے۔ 1918 میں فلو کو دریافت کیا گیا اور اب تک 500 ملین لوگ اس کا شکار ہوئے ہیں، وائیرس بس وہی FLUہے۔ CORONA IS JUST NEW MYTH۔ اگر میں غلط کہ رہا ہوں تو فلو کے100 مریضوں کا ٹیسٹ کروا دیجئے، نوے فیصد لوگوں کا مثبت ہوگا۔ مانو کہ یہ ایک seasonal fluہے، جو ستمبر کے پہلے ہفتے میں چین سے شروع ہوتا ہے، کیوں کہ چین میں ستمبر سے سردی شروع ہوتی ہے۔

اور جنوری اور فروری میں یہ پاکستان و ہندوستان میں منتقل ہوتا ہے، کیونکہ ان مہینوں میں یہاں سردی بڑھ جاتی ہے، پھر مارچ کے بعد مغربی ممالک میں منتقل ہوتا ہے اور افریقی ممالک استسناء ہیں۔ کیونکہ افریقہ میں سردی زیادہ نہیں ہوتی اس لیے فلو کے مریض کم ہے۔ اب آپ سوال تو پوچھیں گےکہ اتنے سارے کیسزپھر کیسے ہو سکتے ہیں؟

تو یاد رہے، ہم سب خصوصاََ جنوری میں ایک مرتبہ ضرور فلو کا شکار ہوتے ہیں۔ پہلے، زکام کے فورا ََبعد جوشاندہ حل کرکے پیتے تھے اور گرم کمبل اوڑھ کے تین چار گھنٹہ سو جاتے تھے، جس سے آدھےدن میں بالکل ٹھیک ٹھاک ہوجاتے تھے۔ مگر اب زکام کے فورا ََبعدبھی ٹیسٹ کراتےہیں اور نزلہ و زکام کی وجہ سے رپوٹ مثبت آتی ہے، اور پھر ہم کرونا کے مریضوں میں شامل ہوجاتے ہیں۔ میں کوئی شاعر تو نہیں ہوں پر یہ میرے خود کے دو اشعارہیں:

قاتل ہے ہوا تو حوادث بھری فضا ہے

اے خالق افلاک یہ سب تیری عطا ہے

میں کر نا سکا شکر یہ میری خطا ہے

گھٹ رہا ہے دم جب سے کرونا کی وبا ہے

About Nusrat Abbas Dassu

Nusrat Abbas Dassu is student of MSC in Zoology Department of Karachi University. He writes on various topics, such as science, literature, history, society, Islamic topics. He writes columns for the daily Salam, daily Ausaf and daily Lalkar.

Check Also

Kuch Nayab Heeray

By Haris Masood