Sunday, 29 December 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Nida Ishaque
  4. Dopamine Nation (2)

Dopamine Nation (2)

ڈوپامین نیشن(2)

ڈوپامین (D-O-P-A-M-I-N-E):

ڈ (D) سے ڈیٹا (Data)۔

کسی وقت میں تفریح کے مواقع بہت نایاب ہوتے تھے لیکن آج کی دنیا تفریح اور پلیژر سے بھرپور ہے، اینا کہتی ہیں کہ سب سے پہلے اپنی لت سے متعلق ڈیٹا اکھٹا کرنا ضروری ہے، یعنی کہ اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ کسی چیز یا حرکت کی لت میں مبتلا ہیں تو غور کریں کہ اسکا کتنا اور کتنی دفعہ استعمال کرتے ہیں، کہیں وہ چیز یا حرکت آپ کے کیرئیر، صحت، معاشی حالات یا رشتوں کو متاثر تو نہیں کر رہی؟ مثال کے طور پر ڈاکٹر اینا کو جب محسوس ہوا کہ انکے رومانوی ناول پڑھنے کی عادت لت میں بدل چکی ہے جب مطالعہ سے انکی رات میں نیندیں اور دن میں بہت سے کام ادھورے رہنے لگے کیونکہ گھنٹوں ناولز پڑھنے میں لگ جاتے تھے۔

او (O) سے (Objective) مقصد۔

ہماری ہر لت کے پیچھے کچھ جذبات یا وجوہات ہوتے ہیں، کوئی مقاصد ہوتے ہیں۔ آپ کی لت کی چیز (object of addiction) آپ کو کس طرح سے مدد دیتا ہے؟ اینا کہتی ہیں کہ لوگ زیادہ ڈوپامین والی اشیاء یا تجربوں کا استعمال عموماً تکلیف دہ یا بے آرام کر دینے والے جذبات یعنی بوریت، احساس کمتری، انزائٹی، ڈپریشن، غصہ، سماجی فوبیا وغیرہ کو کم کرنے کے لیے کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ڈاکٹر اینا اپنی مثال دے کے کہتی ہیں کہ انہوں نے اپنی زندگی کے اس حصے میں ناولز کو فرار (escape) کی طرح استعمال کیا جب انکے بچے ٹین ایج (teenage) میں چلے گئے اور یوں بچوں کے رویے اور نئے مسائل سے فرار ڈھونڈنے کے لیے وہ ناولوں میں کھو جاتیں۔

پی (P) سے (Problems) مسائل۔

ڈاکٹر اینا اپنی ایک نوجوان ٹین ایجر مریضہ سے جسے اس کے والدین اسکی انزائٹی کی وجہ سے لے کر آئے تھے، پوچھتی ہیں کہ بہت زیادہ چرس (cannabis) پینے سے تمہیں کیا مسائل درپیش ہیں؟ لڑکی جواب دیتی ہے، بس میرے والدین مجھ سے اکثر الجھتے رہتے ہیں اور کوئی مسئلہ نہیں۔ ڈاکٹر اینا کہتی ہیں انہوں نے نوجوان لڑکی کی جانب دیکھا جو حد سے زیادہ چرس پینے کے باوجود بظاہر بالکل نارمل دِکھ رہی تھی۔

اور کہتی ہیں کہ بیشک جوانی ہر عیب اور بیماری پر پردہ ڈال دیتی ہے، جبکہ مڈل ایج (middle age) والے مریض اس ٹین ایجر لڑکی کی مانند تروتازہ نہیں ہوتے اور اکثر یہی کہتے ہیں کہ وہ اپنی لت اور اپنے آپ سے تھک چکے ہیں۔ زیادہ ڈوپامین والے ڈرگز ہمیشہ نقصان کی جانب لے کر جاتے ہیں، رشتوں، صحت اور اخلاقیات میں مسئلوں کی جانب۔ بہت زیادہ مقدار میں ڈوپامین لینے سے ذہن آنے والے مسائل کو دیکھنے کی صلاحیت کھو دیتا ہے جس سے ہم لت سے ہونے والے مسائل کو دیکھ نہیں پاتے۔

مثال کے طور پر روز ایک ڈونٹ (doughnut) کھانا ہمیں اس لمحے میں پلیژر دیتا ہے لیکن ہم یہ نہیں دیکھ پا رہے ہوتے کہ روز زیادہ مقدار میں میٹھا کھانے سے ہم اپنی کمر کے گرد ہر مہینہ پانچ پاؤنڈ کی چربی چڑھا رہے ہوتے ہیں۔ ہمیں اپنے بچوں کو اور خود کو ان مسائل کو دکھانا ہو گا جو ہمارے ڈوپامین کی زیادتی سے گزرتے وقت کے ساتھ اپنا اثر دکھانا شروع کرتے ہیں۔

اے (A) سے (Abstinence) پرہیز، اجتناب۔

"میرے پاس ایک آئیڈیا ہے، عمل کرنا بہت مشکل ہو گا لیکن یوں میں تمہارا علاج بہتر طور پر کر پاؤں گی، کیوں نہ تم ایک مہینے کے لیے کینابس پینا چھوڑ دو"، ڈاکٹر اینا نے ٹین ایجر لڑکی سے کہا، جس پر لڑکی نے ڈاکٹر کو حیرانگی سے دیکھا۔ ڈاکٹر اینا نے کہا "کینابس چھوڑے بغیر انزائٹی کا علاج کرنا ممکن نہیں"، بہت ممکن ہے کہ کینابس کو چھوڑنے پر ایک مہینے میں تمہاری انزائٹی خود بخود ٹھیک ہو جائے گی۔

اینا نے مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ جب ہم انزائٹی کو ختم کرنے کے لیے ایسی چیزوں کا استعمال کرتے ہیں جن سے بڑی مقدار میں ڈوپامین خارج ہوتا ہے تو ایسی اشیاء ہمارے دماغ کی بیس لائن انزائٹی (baseline anxiety) کو تبدیل کر دیتی ہیں، اب بہت ممکن ہے کہ آپ کو جو انزائٹی محسوس ہو وہ کینابس کے اثر کے ختم ہونے کی انزائٹی ہو نہ کہ فطری (natural) انزائٹی۔

بالکل ویسے جیسے کسی مخصوص نشے کی لت ہونے کے بعد ہمیں وہ نشہ اپنی انزائٹی کو کم کرنے کے لیے نہیں بلکہ اس نشے کا اثر کم ہونے پر اس کی وجہ سے ہونے والی انزائٹی کو کم کرنے کے لیے وہ خاص نشہ چاہیے ہوتا ہے، یہ کبھی نہ ختم ہونے والا چکر ہے، جسے ختم کرنے کے لیے اس ڈرگز سے مکمل پرہیز ضروری ہے۔

ڈاکٹر اینا نے لڑکی سے کہا کہ آج سے دس سال بعد بھی تم خود کو کینابس پیتے ہوئے دیکھتی ہو؟ لڑکی نے جواب دیا کہ، نہیں! دس سال بہت زیادہ ہیں، ڈاکٹر نے کہا کہ پھر پانچ سال؟ جواب ملا، بالکل بھی نہیں میں اسے جلد ہی چھوڑ دوں گی، ڈاکٹر نے کہا، جب چھوڑنا ہی ہے تو پھر ابھی کیوں نہیں؟ لڑکی نے جواب دیا "آپ شاید ٹھیک کہہ رہی ہیں جب میں اسے مستقبل میں جاری نہیں رکھنا چاہتی تو ابھی سے کیوں نہیں چھوڑ دیتی"، میں ایک مہینے کے لیے کینابس کے بغیر رہ کر دیکھوں گی۔

ایم (M) سے مائینڈ فلنس (mindfulness)۔

ڈاکٹر اینا کہتی ہیں کہ لفظ مائینڈفلنس سدھارت گوتم کی تکنیک مائینڈفلنس میڈیٹیشن سے آیا ہے جسے اس وقت مغرب میں بہت پذیرائی ملی ہے، مغرب میں بچوں کو اسکولوں میں بھی اس تصور اور اس سے جڑی پریکٹس سے آگاہ کیا جا رہا ہے۔ ہمارا دماغ صلاحیت رکھتا ہے بہت عجیب و غریب قسم کی باتیں سوچنے اور تصور کرنے کی، کبھی کبھار ذہن میں ایسے خیالات بھی آتے ہیں کہ خود سے نفرت سی ہونے لگتی ہے کہ آخر میں یہ کیا سوچ رہا ہوں، اتنا گھٹیا، ظالم، فضول انسان کیسے ہو سکتا ہوں میں؟

مائینڈ فلنس آپ کو ان تمام سوچوں کا مشاہدہ کرنا سکھاتا ہے بنا خود کو برا بھلا کہے یا لیبل لگائے۔ جب اپنی لت سے ملنے والی ڈوپامین سے پرہیز کریں گے تو تکلیف اپنی حدوں کو پار کرنے لگے گی، اس وقت آپ نے اس نشے کو کسی اور نشے سے تبدیل نہیں کرنا بلکہ اپنے درد اور تکلیف کے ساتھ بیٹھ کر اسکا مشاہدہ کرنا ہے اسے برداشت کرنا ہے، یہ آسان کام ہرگز نہیں۔

آئی (I) سے (Insights) بصیرت۔

وہی نوجوان لڑکی ڈاکٹر اینا کے پاس ایک ماہ بعد آئی، اور کہنے لگی کہ "ڈاکٹر میری انزائٹی ختم ہو گئی، شروع کا پہلا ہفتہ بہت ہی برا تھا، الفاظ نہیں بیان کرنے کے لیے کہ کتنی تکلیف ہوئی، لیکن مجھے احساس ہوا کہ مجھے واقعی کینابس کی شدید لت تھی اور مجھے اس بات کا اندازہ نہیں تھا۔ کینابس چھوڑنے کے بعد میری سوچ صاف اور واضح (clarity) ہو گئی ہے، مجھے اپنے رویے پر مزید غور کرنے کا موقع ملا ہے"۔

ڈاکٹر اینا کہتی ہیں کہ بہت ہی سادہ طریقہ یعنی اپنی لت کو خود سے دور کرنا اور اس سے پرہیز کرنا آپ کی لت کو ختم کر سکتا ہے آپ کو مزید واضح سوچ فراہم کر سکتا ہے، لیکن یہ آسان تو ہرگز نہیں پر اس سے بہتر کوئی علاج نہیں۔

این (N) سے (Next Step) اگلا قدم۔

الکوحلک اینانیمس (Alcoholics anonymous) کے نام سے ایک پروگرام ہے جو الکوحل کی لت سے چھٹکارا دینے میں مدد فراہم کرتا ہے، انکا ماننا ہے کہ الکوحل سے بالکل پرہیز واحد علاج ہے۔ جبکہ ڈاکٹر اینا کہتی ہیں کہ انکے تجربے کے مطابق ان کے بہت سے مریض کچھ عرصے بعد واپس اپنی ڈرگز (یا جس چیز کی ان کو لت ہو) لینا شروع کر دیتے ہیں لیکن بہت کنٹرول انداز میں، وہ اسے بہت کبھی کبھی استعمال کرتے ہیں، بہت ہی کم ایسے لوگ ہیں جو مکمل طور پر چھوڑ پاتے ہیں۔

ڈاکٹر اینا نے اسی نوجوان لڑکی سے پوچھا کہ اب اسکا اگلا قدم کیا ہے؟ اس نے جواب دیا "میں بہت اچھا محسوس کر رہی ہوں لیکن میں کینابس سے ملنے والا کریٹو (creative) احساس اور کچھ دیر کے اس فرار (escape) کی کمی محسوس کر رہی ہوں، میں دوبارہ استعمال کروں گی کینابس لیکن اس طرح نہیں جس طرح پہلے کرتی تھی، لت کی مانند نہیں بلکہ ایک ہلکی پھلکی تفریح کی مانند۔

اسکی مثال آپ سوشل میڈیا بھی لے سکتے ہیں، ہمیں مکمل طور پر سوشل میڈیا چھوڑنے کی ضرورت نہیں بلکہ ہم اس کے استعمال کو کنٹرول میں لا کر لت والے معاملے سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ البتہ کچھ نشے ایسے ہوتے ہیں جن سے مکمل پرہیز ہی واحد حل ہوتا ہے، اس بات پر منحصر ہے کہ لت اور جس چیز کی لت آپ کو ہے وہ کس حد تک خطرناک ہیں۔

ای (E) سے ایکسپریمنٹ (Experiment) تجربہ۔

ڈاکٹر اینا کہتی ہیں کہ ڈوپامین سے پرہیز کے بعد اب جب مریض واپس نارمل کی جانب جاتے ہیں تو اب انکی سوچ لت کی جانب تبدیل ہو چکی ہوتی ہے، چاہے آپ ہمیشہ کے لیے پرہیز کرنا چاہیں یا اس نوجوان لڑکی کی مانند کبھی کبھار اپنا نشہ کرنے کا فیصلہ کریں، آپ کو دراصل مختلف تجربات سے گزرنا ہوتا ہے، مطلب یہ کہ واپس کبھی کبھار کے چکر میں آپ پھر سے اسی طرح پرانی والی لت میں مبتلا ہو گئے تو؟ اسکا مطلب ہے کہ آپ کو مکمل پرہیز کرنا ہے، کیونکہ اس میں جینیات (genetics) کا بھی تعلق ہوتا ہے۔

کچھ لوگوں میں لت میں مبتلا ہونے کے جینز (genes) موجود ہوتے ہیں، آپ کئی بار غلطیاں کر کے تجربہ سے معلوم کرتے ہیں کہ آپ کے لیے کیا صحیح ہے اور کیا نہیں؟ ڈاکٹر اینا "جسمانی خود پابندی" (physical self binding) کو ماڈرن دنیا میں ضروری قرار دیتی ہیں، خود کو لت سے بچانے والی ایپز (applications) سے لے کر زیادہ کھانا نہ کھانے کے لیے میدہ چھوٹا کرنے کی سرجری تک انسان ڈوپامین سے بھری اس دنیا میں خود پر پابندیاں لگانے کے مختلف طریقے ایجاد کر رہا ہے۔

جنک فوڈ، موبائل فون، ٹی وی دیکھنا یہ سب کبھی بھی نارمل سے لت کے زمرے میں داخل ہو سکتا ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ آپ خود پر پابندی لگائیں، وہ جگہ جہاں سے آپ کو آپکی لت والی چیز آسانی سے میسر ہو اس پر پابندی لگانا ضروری ہے، ڈاکٹر اینا اپنی مثال دیتے ہوئے کہتی ہیں کہ جب انہوں نے ایمازون کنڈل (Amazon kindle) خریدا تھا تب انکو ناولز اور بھی آسانی سے میسر تھے جس کی وجہ سے وہ گھنٹوں ناول پڑھنے میں صرف کرتی تھیں، پہلی فرصت میں انہوں نے ای ریڈر (e reader) کو بیچا، چونکہ اسٹور جا کر کتابیں خریدنا ایک تھکا دینے والا عمل ہے تبھی وہ چاہ کر بھی اپنی مصروفیات میں سے وقت نکال کر اسٹور نہیں جا پاتی تھیں۔

آج کی دنیا میں تقریباً ہر لت میں مبتلا کرنے والی چیز بہت آسانی سے میسر ہے اور یہی آسانی ہمارے لیے عذاب بن چکی ہے۔ آپ دنیا کو یا سرمایہ داروں کو نہیں روک سکتے آپ کو لت میں مبتلا کر کے منافع بنانے کے لیے، اگر آپ کو خود سے محبت ہے اور آپ سرمایہ دارانہ نظام کو مات دینا چاہتے ہیں تو سرمایہ دار کے لیے تجربہ کا سامان نہ بنیں۔

ایک عام انسان پاور والوں کے لیے لیباریٹری میں موجود کسی جانور (چوہے، مینڈک، بندر) کی مانند ہے۔ خود پر پابندیاں لگائیں، سرمایہ دار کو یا دنیا کو آپ کی صحت مندی (wellbeing) کی کوئی پرواہ نہیں، یہ پرواہ آپ کو خود کرنی ہے اور سرمایہ دار کے خلاف یہ سب سے بہترین احتجاج ہو سکتا ہے۔ کتاب میں بہت سی مثالیں (سیکس کی لت، الکوحل کی لت، موبائل کی لت، فینٹسی کی لت، نشے کی لت) موجود ہیں اور بہت سی ریسرچ بھی موجود ہیں۔

(جاری ہے)۔

Check Also

Mil Jaye To Mitti, Kho Jaye To Sona

By Muhammad Salahuddin