Lamha e Fikriya
لمحہ فکریہ
اس سوچ کو پروان چڑھانا کہ شادی ہو جانے کے بعد ازدواجی تعلقات قائم نہ کیے جائیں۔ خود کو مسلمان کہنے کے دعوے دار، کلمہ کا ورد کرنے والے، رمضان میں روزے رکھنے والے، حج و عمرہ ادا کرنے والے بہت سے لوگ بھی انھی کے نقش قدم پر چلتے دکھائی دیتے ہیں۔
سونے پر سہاگہ الیکٹرانک میڈیا پر چلنے والے چند ایک ڈراموں نے عوام کے ذہنوں میں ایسا خناس بھر دینے کے بعد جنت کا دعویدار بھی ہو جانا ہے۔ ایسے کسی بھی کام کی شروعات کرتے وقت یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ جب اللہ کے بتائے ہوئے اصول و ضوابط سے ہٹ کر نفس کی پیروی کی جائے گی تو یہ تو سیدھا سیدھا اللہ تبارک وتعالی کے ساتھ جنگ کرنے کے مترادف ہوا۔
میرا جسم میری مرضی کے پیروکار یہ سوچیں کہ یہ کس مذہب اور دین کی نمائندگی کر رہے ہیں۔ ایکسٹرا میریٹل افئیرز کی تعداد میں اضافے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے۔
چلیں اگر اس دلیل کو درست مان بھی لیا جائے تو اس بات کو کون جسٹیفائے کرے گا کہ شادی کی ضرورت ہی کیوں پیش آئی؟ کیا شادی صرف گھر سنبھالنے کے لیے یا اخراجات پورے کرنے کے لیے کی جاتی ہے؟ اگر ہاں! پھر تو نکاح کرنا بہت مہنگا پڑتا ہے!
شادی کے بغیر نہ لمبا چوڑا خرچہ، نہ ہی کوئی ذمہ داری اور محض چند پیسوں میں جنسی فطری خواہش کی تسکین حاصل ہو جائے تو پھر یہ سوچنے کی بات ہے کہ دین شادی/نکاح کرنے پر ہی زور کیوں دیتا ہے؟
اصل بات یہ ہے کہ نکاح نہ صرف ایک بڑا پاکیزہ اور مقدس رشتہ ہے بلکہ انسانی زندگی کی بنیادی اور فطری ضرورت بھی ہے۔ لاکھ دلیلیں دے لیں مگر حقیقت یہی ہے کہ مرد ہو یا عورت جب تک وہ نکاح کے بندھن میں نہ بندھ جائیں ان کی زندگی نامکمل رہتی ہے۔
قرآن میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ مِنْ اٰیٰتِهٖۤ اَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا لِّتَسْكُنُوْۤا اِلَیْهَا وَ جَعَلَ بَیْنَكُمْ مَّوَدَّةً وَّ رَحْمَةً، اِنَّ فِیْ ذٰلِكَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّتَفَكَّرُوْنَ۔
ترجمہ: اور اُس کی نشانیوں سے ہے کہ تمہارے لیے تمہاری ہی جنس سے جوڑے بنائے کہ ان سے آرام پاؤ اور تمہارے آپس میں محبت اور رحمت رکھی۔ بےشک اِس میں نشانیاں ہیں دھیان کرنے والوں کے لیے۔ (سورۃ الروم، پارہ21، آیت21)
شادی بیاہ صرف فطری جذبات پورے کرنے کا نام نہیں بلکہ اخلاق کی حفاظت کا، مرد اور عورت کے لیے راحت و سکون، ایک دوسرے کے تعاون اور مدد سے ایک گھر پروان چڑھانے اور نسل انسانی کے تسلسل کو جاری رکھنے کا نام ہے۔
حضرت محمد ﷺ نے فرمایا: اَلنِّکَاحُ مِنْ سُنَّتِی"، "نکاح میری سنت ہے"۔ یہ کہہ کر انھوں نے اسے عبادت کادرجہ دے دیا۔
اللہ تعالی نے سورۂ بنی اسرائیل میں فرمایا: "اور زنا کے قریب بھی نہ پھٹکو بلاشبہ وہ بڑی بے حیائی کا کام ہے، بڑا ہی بُرا راستہ ہے"۔
اس بُرائی اور بے حیائی کے راستے سے بچنے کے لیے جہاں یہ تدبیر بتائی گئی ہے کہ مومن مرد اور مومن عورتیں اپنی نگاہوں کو بچا کر رکھیں، وہیں نکاح کو عملی ذریعہ بھی بتایا گیا ہے۔
نبی کریمﷺ نے امت کو یہ ہدایت دی کہ نکاح کو آسان بناؤ تا کہ زنا مشکل ہوجائے۔ یہ بھی فرمایا کہ "برکت کے لحاظ سے بہترین نکاح وہ ہے، جس میں کم سے کم خرچ ہو"۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ آج معاشرے نے نبی کریمﷺ کی ان ہدایات کو نظرانداز کرکے اپنی بداعمالیوں کے ذریعے نکاح کو مشکل سے مشکل تر بنا دیا ہے اور زنا کو بے حد آسان کر دیا ہے۔
اب حال یہ ہے کہ چاہے بال بال قرض میں ڈوب جائے، گھر، جائیداد بک جائے یا گروی رکھنے کی نوبت آ جائے، اولاد کے لیے ترکہ میں چھوڑنے کے لیے کچھ نہ بچے، مگر رسموں، بدعتوں، نمود ونمائش کو ختم نہیں ہونے دینا۔ ان کی پیروی ضرور کرنی ہے ورنہ "لوگ کیا کہیں گے"۔
اس کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ مناسب عمر میں بالغ ہو جانے پر شادیاں نہیں ہو رہیں اور نوجوان لڑکے اور لڑکیاں بے حیائی کے بُرے راستے کی طرف راغب ہو رہے ہیں۔
"صد افسوس یہ ہے کہ یہ راستہ ان کے لیے آسان بنا دیا گیا ہے۔۔ "
اور جن کی شادیاں ہو چکی ہیں انھیں یہ بے راہ رو پروپیگنڈا کے ذریعے اللہ کے حکم کی نفی کرنے پر مائل کر رہے ہیں۔
سورۂ البقرہ کی آیت نمبر 186 میں روزوں سے متعلق مسائل کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ: "تمہارے لیے روزوں کے زمانے میں راتوں کو اپنی بیویوں کے پاس جانا حلال کر دیا گیا ہے۔ وہ تمہارے لیے لباس ہیں اور تم اُن کے لیے لباس"۔
سورۂ الاعراف کی آیت 189 میں فرمایا: "ہُوَ الَّذِیْ خَلَقَکُم مِّن نَّفْسٍ وَاحِدَۃٍ وَجَعَلَ مِنْہَا زَوْجَہَا لِیَسْکُنَ اِلَیْْہَا۔
ترجمہ: "وہ اللہ ہی ہے جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا اور اس کی جنت سے اس کاجوڑا بنایا۔ تاکہ اس کے پاس سکون حاصل کرے۔ "
اور یہ راحت و سکون صرف جنسی تعلق کو ہی نہیں بلکہ آپس کی محبت اور رحمت کو قرار دیا۔
ایک جگہ اور ارشاد ہوتا ہے کہ: "اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کردی اور اس رحمت ومحبت کو اللہ تعالیٰ نے اپنی نشانی قرار دیا"۔
دو اجنبی جب رِشتۂ ازدواج میں بندھ جاتے ہیں تو ان کے درمیان جو محبت اور الفت پیدا ہوتی ہے وہ غیر معمولی ہوتی ہے۔ یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔
قرآن میں حدیٹ میں ہر جگہ بار ہا نکاح کرنے اور اس کو احسن طریقے سے نبھانے کا درس دیا گیا ہے۔ مگر یہ لابی دین سے دوری کرنے کے لیے طرح طرح کی شرطیں لگانا سکھا رہی ہے۔ مزید یہ کہ عورت کو جب وہ بیوی بنتی ہے اسے شوہر کی اطاعت سے متنفر کیا جانے کے لیے ذہن سازی کی جا رہی ہے۔
قرآن سے مدد لیجئے۔ کسی بھی بات کا یقین کرنے سے پہلے اسلام کا مطالعہ کیجئے۔ ترجمے اور تفسیر کے ساتھ قرآن پڑھیے۔ احادیث کا مطالعہ کیجئے۔ ان میں ہر سوال کا جواب بھی موجود ہے اور زندگی گزارنے کا طریقہ بھی ہے۔
لہذا ایسے فتنوں سے خود بھی بچیے، دوسروں کو بھی بچائیے اور اس پروپیگنڈا کے خلاف آواز بھی اٹھائیے۔