Sar Utha Ke Jiyen
سر اٹھا کے جیئیں
ایک مشرقی جوڑے میں شادی کے فوراََ بعد بچہ کی خواہش ہونا فطری ہے، لیکن کبھی کبھی اس نعمت کو پانے سے پہلے کچھ ماہ و سال کا انتظار بھی کرنا پڑ جاتا ہے۔ مرد بھی اس کمی کو محسوس کرتے ہیں لیکن عورت کو بار بار اپنا من مارنا پڑتا ہے، بہت سے ان چاہے سوالوں کا جواب دینا پڑتا ہے۔ جس کا نتیجہ اکثر ڈیپریشن کی صورت میں نکلتا ہے۔ یہ تحریر ایسی ہی بہنوں کے لئے ہے۔
دیکھیے، اللہ کے خزانوں میں کسی بھی چیز کی کمی نہیں۔ پھر وہ دے کیوں نہیں دیتا؟ اس کی مصلحت شاید کبھی سمجھ آجائے، شاید نہ بھی آ پائے، لیکن اس بات پر ایمان رکھیے کہ وہ المدبر ہے۔ اس نے ہر کام اپنی بہترین پلاننگ کے تحت پلان کیا ہے۔ شاید وہ ہم سے ماں بننے سے پہلے کچھ بہتر کام لینا چاہتا ہے۔ بچے کی خواہش فطری ہے، لیکن اس پر جوگ لیکر نہیں بیٹھ جانا بلکہ اس وقت کو مثبت طور پر گزارنا ہے۔ امہات المومنین، بالخصوص عائشہؓ کے بارے میں سوچیں کہ ہزاروں احادیث ان سے مروی ہیں، وقت کے سکالرز کی معلمہ ہیں، پوری سیرت انکی ہمارے سامنے ہیں، لیکن کہیں بھی بچے کا ذکر نہیں۔ بس اپنا کام کیے چلی جا رہی ہیں۔ مانا کہ ہم ایمان کے اس درجے سے کوسوں دور ہیں، لیکن انکے اسوہ میں ہمارے لئے سیکھنے کو بہت کچھ ہے کہ تھیں تو وہ بھی ہماری طرح ایک عورت ہی۔
سب سے پہلی بات تو یہ کہ توکل علی اللہ کے نام پر علاج معالجہ کو بہت دیر تک لٹکاتے نہ رہیں۔ سال ڈیڑھ دیکھ لیا، اسکے بعد بہتر ہے کہ ڈاکٹر کو دکھائیں۔ خواتین بغیر وجہ دوائیں نہ کھاتی رہیں، بلکہ میاں بیوی دونوں ہی معالج کو دکھا کر علاج پر توجہ دیں۔ ہاں، سب کو بتانا ضروری نہیں کہ آپ کس کے پاس جا رہے ہیں، اس نے کیا کہا ہے۔ کمفرٹیبل ہوں تو کہیے، نہیں تو خاموشی رکھیے۔ یہ بات بھی جان رکھیں کہ سب لوگ بد نیتی سے آپکو ماں نہ بننے پر طعنے نہیں دیتے۔ آپکی ساس اگر دادی بننے کی یا نند پھوپھو بننے کی خواہش کرتی ہیں تو ضروری نہیں کہ وہ آپکو باتیں سنا رہی ہیں۔ انکی ایک فطری خواہش ہے جسکا اظہار وہ دبے الفاظ میں کر بیٹھتی ہیں۔ متنفر نہ ہوں۔ ہاں دور پار کے لوگ اگر کچھ کہیں تو نرمی سے انکو جواب دے دیں۔
اپنے احساسات کو دبانے کے بجائے اون کیجیے، انہیں الفاظ دیجیے۔ مان جائیے کہ یہ چیز آپ کو دکھ دیتی ہے۔ ضرورت سے زیادہ مضبوط بننے کی کوشش بعض اوقات انسان کو زیادہ توڑ دیتی ہے۔ زخم پر پٹی لگا دینے سے وہ ٹھیک نہیں ہوا کرتا۔ پہلے اسکی صفائی کرکے اس پر دوائی لگانی پڑتی ہے۔ اپنے اندر جھانکیے۔ اپنے دکھ کا سامنا کریں۔ چاہیں تو کسی سے کہہ کر دکھ ہلکا کیجیے، حقیقی زندگی میں کوئی مل پائے یا آن لائن۔ کہہ دینے سے بھی دل کا بوجھ ہلکا ہو جاتا ہے۔
اپنے آپ پر دھیان دیجیے۔ روحانی طور پر بھی اپنی گرومنگ کریں، جسمانی طور پر بھی ایکسرسایز یا واک کو روٹین بنائیں۔ وزن کنٹرول کرنے کی کوشش کریں کیونکہ وزن بڑھ جانے سے بھی پیچیدگی بڑھ جایا کرتی ہے۔
بچے کے بعد ماں کا سونا جاگنا، کھانا پینا، دوستیاں، محفلیں، سب کچھ بچے کے ادر گرد گھومنے لگتا ہے۔ جو وقت ابھی آپکے پاس ہے، اسے فرصت کا وقت گردانتے ہوئے بہترین طور پر گزارنے کی کوشش کریں۔ دنیاوی تعلیم مکمل کرنا چاہیں تو کریں۔ دینی تعلیم سیکھیں۔ اپنی گرومنگ کریں۔ پہننے اوڑھنے میں، بات کرنے میں، چلنے پھرنے، ہر چیز میں اپنی اصلاح۔۔ کیونکہ کل کو دو چھوٹی چھوٹی آنکھیں آپکو اپنا رول ماڈل بنانے والی ہیں۔ اپنے لئے کچھ گولز بنا کر رکھئے، اور انہیں مکمل کیجیے۔ کتابیں پڑھنے کا وقت بعد میں کم کم ملا کرتا ہے، اور جب آپ پڑھتے ہیں تو بچوں کی کتابیں بچوں کو پڑھ پڑھ سناتے ہیں۔ ابھی وقت ہے کہ مطالعہ کا ایک وقت مختص کیجیے۔
مدرز ڈے آپ کے لئے تکلیف لیکر آیا کرتا ہے، میں سمجھ سکتی ہوں۔ تو بجائے کہ بازار جا کر، یا ٹی وی لگا کر ساری سیلیبریشنز دیکھیں، اور آنسو پیتی رہیں، اپنے گھر کوئی چھوٹی سی دعوت رکھ لیں۔ یا دو تین سہیلیوں کیساتھ کہیں نیچر میں نکل جائیں۔ اپنی امی، ساس، نانی دادی، جو بھی موجود ہیں، ان سے بات کریں۔ انہیں بتائیں کہ وہ آپکے لئے کیا ہیں، انکی دعائیں سمیٹیں۔ (میں مدرز ڈے منانے کی ترغیب نہیں دے رہی لیکن ایسی خواتین کو جانتی ہوں جو مدرز ڈے پر بہت اداس ہوا کرتی ہیں۔ اگر آپ ان میں سے ہیں تو خود کو یوں اداسی سے نکالیے)۔
ماں بننا آپ کی کوکھ سے ہوتا ہے، لیکن مامتا کا تعلق روح سے ہے۔ مامتا نچھاور کرنے کے طریقے ڈھونڈتی رہئے، چاہے اپنے بھانجوں بھتیجوں پر، چاہے کوئی جانور پال لیں، چاہیں کسی پاس پڑوس کے بچوں کو تھوڑی دیر لے آئیں کہ انکی مدد ہو جائے اور آپ کے دل کو تسکین مل پائے۔
والنٹیئر کریں۔ یہ بہت اہم ہے۔ کسی کی مدد کرکے نیکی کی خوشی کا احساس ملتا ہے، زندگی کا مقصد ملتا ہے۔ بعض اوقات مالی طور پر خود سے کمتر لوگوں کو دیکھ کر یا انکی نجی زندگی کا احوال سن کر یہ احساس ہوتا ہے کہ اللہ نے ہمیں کتنا فضل اور رحمت میں رکھا ہوا ہے۔ آپ نت نئے لوگوں سے ملتے ہیں۔ تیار ہو کر کہیں جاتے ہیں، مفت کسی کی مدد کرتے ہیں، یہ سب چیزیں ایک طرف آپکا اعتماد بڑھاتی ہیں، دوسری طرف ڈیپریشن کو دور بھگا کر آپ کو خوشی دینے کا سبب بنتی ہیں۔
اس سب کیساتھ ساتھ تنہائی کے وقتوں کی دعائیں۔ مانگیں! شرمائے بغیر مانگیں۔ یہ مت کہیں کہ اگر بہتر ہے تو دے دیں۔ کہیں کہ اللہ! مجھے صحت دیجیے، طاقت دیجیے، اور میری گود ہری کر دیجیے۔ آپ کے کن کے محتاج ہیں بس۔ یاد رہے کہ دعا اللہ سے گزارش ہے، اسکو مشورہ یا حکم نہیں۔ وہ مانگیے جو آپ چاہتے ہیں، لیکن اللہ کی رضا پر پورے دل سے راضی رہئے۔
میری طرف سے دعائیں اور جادو کی جپھی۔۔
آپ معاشرے کی ایک اہم فرد ہیں، اور کسی سے کسی طور کم نہیں۔ سر اٹھا کے جیئیں، مسکرا کے جیئیں۔ محبت!