Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Nayyer Taban
  4. Maaf Kaise Kiya Jaye?

Maaf Kaise Kiya Jaye?

معاف کیسے کیا جائے؟

میں معاف کر دینے کی حامی ہوں۔ اپنے سکون کی خاطر معاف کر دیا جائے۔

کیسے کیا جائے؟ دعا کی مدد سے!

اس انسان کے حق میں دعا اور معاف کرنے کی کوشش میں اللہ کی مدد کے لئے دعا۔ پھر یہ کہ بار بار انہی گزری باتوں کو یاد کرنا، دل میں دہرانا، لوگوں میں اس کا ذکر کرتے رہنا۔ یہ چیز آپ کو موو آن کرنے ہی نہیں دیتی۔ تو خود کو خود بھی اس سے باہر نکالنے کی کوشش کرنی ہے۔

اچھا، ان لوگوں کا کیا جنہیں اپنی غلطی کا احساس تک نہ ہو؟

انہیں بھی!

میں دہراؤں گی، ہمیں ان کے لئے نہیں، خود اپنے دل کے سکون کی خاطر معاف کرنا ہے۔

معاف کرنے کے ضمن میں یہ یاد رہے کہ معاف کرنے کا مطلب reconciliation نہیں۔ معاف کر کے اپنے الگ راستے پر موو آن کریں اور گِلٹ نہ پالیں۔ اور وہی جو مومن کے ایک سوراخ سے دوبارہ نہ ڈسے جانے کی روایت موجود ہے۔ معاف کیجیے اور باؤنڈریز بنائیے۔ یہاں ایک بات اور بھی ہے۔ کئی مقامات زندگی میں ایسے بھی آتے ہیں کہ معاف نہیں کیا جا رہا ہوتا۔

کوئی آپ کی کردار کشی کرے، کوئی دوسرا وہاں اس محفل میں تالیاں بجانے اور ڈھنڈورا پیٹنے کا کام کرے، زندگی کے راستے آپ پر مسدود کر دیے جائیں، روح کا قتل کیا جائے اور اس سے بڑھ کر جسمانی طور پر ظلم ڈھایا جائے تو یاد رکھیے اللہ نے برابر کا بدلہ لینے کی اجازت دے رکھی ہے۔ قصاص کا حکم بھی اسی لئے قرآن میں موجود ہے۔ تو خود کو مسلسل اس تکلیف میں نہ رکھیں کہ معاف نہیں کیا جا رہا۔

اسما حسین کی بات یاد آ گئی۔ ان کے شوہر کو شہید کر دیا جاتا ہے۔ جوان بیوہ ہیں، چھوٹی سی بچی ساتھ ہے۔ یہی لکھتی ہیں کہ میں ان لوگوں کو معاف نہیں کر سکتی۔ اس قدر دیندار ہیں، پوری کتاب اللہ سے جوڑنے والی ہے لیکن یہی کہتی ہیں کہ معاف نہیں کر سکتی۔ قصاص کی آپشن دی ہی نہ گئی ہوتی اگر ہمیشہ ضرور معاف ہی کرنا ہوتا۔ معاف کرنا ایک آپشن ہے، فرض نہیں ہے۔ جتنا بدلہ لیا جا سکتا ہو کہ زیادتی نہ ہو اس کی اجازت خود اللہ دیتا ہے۔ انسان اگر بے بس ہے اور بدلہ نہیں لے پاتا، ایسے میں معاف کیسے کرے پھر؟

اور انسان کو اگر خود سے ہی شکوے ہیں تو خود کو کیسے معاف کریں؟ یہ denial سے acceptance تک کا سفر ہے۔

"اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغِ زندگی"۔

قبول کیجیے کہ جو ہوا سو ہوا۔ خود کو انسان ہو جانے کا مارجن دینا ہی ہو گا۔ بچہ گر گیا، بہت بڑی تکلیف آ گئی لیکن حدیث میں ہے کہ "کاش"نہ کہو بس قدر اللہ کہو۔ آپ سے نہ ہوتا کسی اور طرح ہو جاتا کہ نصیب میں یہی لکھا تھا۔ جس نے اچھے دنوں کی امید میں کچھ کیا لیکن چیزیں اس طرح نہ ہو پائیں جیسا گمان کیا تھا۔ انسان ہی تو ہیں۔ کوشش کی، لیکن فائدہ مند ثابت نہ ہوئی۔ بہت کچھ زندگی میں ہمارے منصوبے کے مطابق نہیں ہوتا۔ المدبر کی تدبیر ہی چلتی ہے۔ آپ کو غیب کا علم تھوڑی تھا۔ اپنی طرف سے بہترین کیا لیکن قدر اللہ!

ہاں جن سے جان بوجھ کر گناہ ہو گیا۔ اب یہاں بھی acceptance، ماضی تھا جسے گھسیٹ کر ساتھ مستقبل میں لے جا رہے ہیں۔ ماضی تو خراب ہوا سو ہوا، حال الگ بے حال ہے اور مستقبل بھی برباد ہو جائے گا۔ اللہ سے توبہ کیجیے اور دوبارہ اس راستے پر قدم نہ رکھیں۔ مایوسی دل میں شیطان ڈالتا ہے، اللہ تو اپنے بندے کا منتظر ہی رہتا ہے۔ بے حد امید افزا آیت ہے:

قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰی اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِ ۭ اِنَّ اللّٰهَ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِيْعًا اِنَّه، هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ۔

(اے نبیؐ) کہہ دو کہ اے میرے بندو، جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو جاؤ، یقیناً اللہ سارے گناہ معاف کر دیتا ہے، وہ تو غفور و رحیم ہے۔

اور حدیث کا وہ حصہ۔

اس کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ﷺ کی جان ہے اگر تم خطائیں کرو ہی نہیں تو اللہ عزوجل تمہیں فنا کرکے ان لوگوں کو لائے گا جو خطا کرکے استغفار کریں اور پھر اللہ انہیں بخشے۔ تو ہم کیوں مایوس ہوں اس سے جس کی رحمت اس کے غضب پر بھاری ہے۔

یہ رحمت، مغفرت، دعاؤں کی قبولیت کا مہینہ ہے۔ اپنی پٹاری اللہ کے حوالے کریں اور خود کو ہلکا پھلکا کریں۔

Check Also

Akbar The Great Mogul

By Rauf Klasra