Beti Ke Naam Khat
بیٹی کے نام خط
میری پیاری بیٹی
السلام علیکم
خط کیا بھیجا، ماں کا کلیجہ ہی چیر دیا ہے۔ لیکن اس بات کا مجھے اطمینان ہے کہ تم نے اپنے اندر کھنگالا ہے، کھودا ہے، تم اپنے احساسات نہ صرف جانتی ہو، بلکہ تمہیں ان کا اظہار بھی خوب طریقے سے کرنا آتا ہے۔ یہ ہے میری بہادر بیٹی! یہی چیز تمہیں مختلف اور خوبصورت بناتی ہے۔ مجھ سے پوچھ رہی ہو کہ کیا صبر کے باوجود سسکی جائز ہے؟ ہاں میری جان! یعقوب علیہ السلام نبی ہیں، نبی کے بیٹے ہیں، نبی کے باپ ہیں لیکن بیٹے کی جدائی میں رو رو کے آنکھیں ضائع ہو گئیں۔
اللہ نے اس رونے کو بھی صبرِ جمیل کا تمغہ دے دیا۔ کبھی جذبات سنبھالنا مشکل ہو جائے تو آنسو بہہ جانے پر خود کو بزدل ہر گز نہ سمجھنا۔ اسے ناشکری اور بے صبری بھی نہ گرداننا۔ نرم دل تو اللہ کا انعام ہے۔ بس زبان سے اللہ کا شکوہ نہ نکلے۔ پوچھتی ہو کیا اونچی آوازوں سے بڑے بھی سہم جاتے ہیں؟ ہاں میری بیٹی۔ سہم جاتے ہیں۔ جب ہم باہر جھیل کنارے جاتے تھے تو لہروں، درختوں کے پتوں، پرندوں کی کیسی مدھر آوازیں ہوتی تھیں۔
دھڑکن سے شروع ہوتی اور پوری کائنات تک پھیلتی قدرت کی آوازیں کس قدر خوبصورت ردھم میں ہیں۔ انسان کو اسی پرسکون ماحول کے لئے بنایا گیا ہے۔ شور شرابا اور قدرتی ردھم سے نکل کر چیختی چلاتی کوئی بھی آواز ہو، سماعت اور دل پر بوجھ بنتی ہے۔ اگر اس آواز میں تلخی بھی شامل ہو جائے تو سہم جانا عین فطری ہے۔ کس کی آواز ہے یہ؟ اس کو مدھم کرنے کی اپنی سی کوشش کرنا۔ بہت سے مسائل گفتگو سے حل ہو سکتے ہیں۔ اور سنو! اس شور کی آواز سے آواز ملانے کو خود مت چلانا۔ اپنا وقار قائم رکھنا۔
بڑی سی دنیا میں بڑے بڑے مانسٹرز تو ہیں لیکن اسی دنیا میں کچھ بہت نفیس لوگ بھی ہیں۔ مانسٹرز کے لیول پر کبھی نہ آنا۔ وہ اپنے کام میں بہت مہارت رکھتے ہیں۔ قالو سلاما، اور اپنے راستے پر اپنا مشن جاری رکھو۔ زندگی میں کچھ عظیم مقاصد ہمیشہ شامل رکھنا بیٹی، تا کہ ہر وقت ایسے لوگوں کو نہ سوچو، نہ ہی انہیں مہیا رہو۔ اور میری بات غور سے سنو، ہم شیر کو نہیں کھاتے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ شیر بھی ہمیں کچھ نہ کہے گا۔ خود کو بچا کر رکھنا، اور حسبِ ضرورت حدود بنا کر رکھنا۔
صبر اور شکر کرنے والا ہونے کا یہ مطلب بالکل نہیں کہ جس کے منہ میں جو آئے، کہہ کر چلتا بنے۔ ہمیں بُلی نہیں کرنا ہوتا، لیکن بُلی ہونا بھی نہیں ہوتا۔ تم بہت قیمتی ہو اور پوری دنیا میں اپنے جیسی ایک ہی ہو۔ تم اللہ کی خوبصورت امانت ہو۔ کسی کو اختیار نہیں کہ آپ کو ضائع کرے۔ عموما" دنیا کو بلیک اینڈ وائٹ دیکھا جاتا ہے، لیکن گرے کے ڈھیروں شیڈز ہیں اس میں۔ محبت اور نفرت کے تمغے بانٹتے وقت بھی لوگوں کو لیبل کر دیا جاتا ہے اور لیبل کے مطابق تمغہ بانٹا جاتا ہے۔
تم بس اللہ سے سچی رہو۔ اور اللہ کی رضا کی خاطر سفر جاری رکھو۔ تمہیں اللہ نے حکمت سے نوازا ہے۔ مناسب موقع پر مناسب لب و لہجے میں اپنی بات سمجھانے میں بھی عار نہیں۔ بعض اوقات لوگ ہمیں ایک زاویے سے دیکھ رہے ہوتے ہیں اور دوسرا زاویہ ان کی نظروں سے یکسر اوجھل ہوتا ہے۔ یہ یاد رہے کہ ضروری نہیں کہ تم کسی کا نکتہ نظر بدل سکو۔ انسان فطرتا" تبدیلی قبول کرنے سے گھبراتا ہے۔ وہ اپنے من پسند ماحول اور سوچوں سے نکل نہیں پاتا۔ بس تم دعا اور کوشش کر لینا۔ مالی دا کم پانی دینا!
بیٹی، میں ماں ہوں۔ چپکے سے دن میں کئی بار تمہارے لئے نیک بخت اولاد کی دعا کر لیتی ہوں لیکن لوگوں کی باتوں پر کان نہ دھرنا۔ ہمارے لئے بہترین اسوہ امہات المومنین کا ہے۔ دیکھو تو، کیسی پروڈکٹو زندگی تھی۔ کتنی ہی احادیث بی بی عائشہؓ سے مروی ہیں لیکن کہیں کوئی ہائے وائے نظر نہیں آتی۔ علاج ضرور کرواؤ لیکن سر پر سوار نہ کرنا۔ اللہ نے کیا خبر کس مصلحت کے تحت تمہیں یہ وقت دے رکھا ہے؟ خوب خوب سیکھو سکھاؤ۔ ایک لمحے کو بھی کبھی شرمندگی میں سر نہ جھکانا۔
دین سیکھو، دنیا سیکھو۔ آگے بڑھو۔ بچہ بھی جب نصیب میں لکھا ہو گا، مل جائے گا۔ اگر کوئی زیادہ سوال کرے تو نپا تلا جواب دے دیا کرو تا کہ خاموش پیغام پہنچ جائے۔ لوگوں کی باتیں ہمیں اس لئے بھی تکلیف دیتی ہیں کہ کہیں نہ کہیں وہ محرومی ہمارے اندر پل رہی ہوتی ہے۔ اس محرومی سے نظریں چرانے کے بجائے اسے مکمل اون کرو گی تو زندگی آسان ہونے لگے گی۔ کبھی اداس ہو جانے، رو لینے میں حرج نہیں۔ یہی شدت تو دعاؤں میں تڑپ لائے گی۔ بس کسی اچھی جگہ سے علاج جاری رکھنا اور ساتھ ہی اللہ پر توکل بھی۔
اس بار تو تم نے بہت باتیں کروا لیں مجھ سے۔ یہ خط کئی قسطوں میں انجام پایا۔ جوڑوں میں درد رہتا ہے تو ایک وقت پر زیادہ نہیں لکھ پاتی۔ تمہارے ابا تم پر واری صدقے جا رہے ہیں۔ کہتے ہیں خود خط لکھیں گے۔ ماسی زینبے بھی سلام کہہ رہی ہے۔ ابھی ہی آئی ہے۔ میں اب ذرا دیر اس کے ساتھ بیٹھوں۔ دنیا کی ہر عافیت، ہر نعمت پاؤ اور ان نعمتوں کا دوام دیکھو۔
دعا گو
تمہاری امی