Achi Guftagu Aik Fan
اچھی گفتگوایک فن
اچھی گفتگو کرنا بھی ایک فن ہے جو کم ہی لوگوں کو آتا ہے۔ ہمارے یہاں گفتگو کا بنیادی کانسیپٹ یہ لیا جاتا ہے کہ بندہ اچھی بات مؤثر انداز سے کہہ سکے حالانکہ اچھی گفتگو میں بولنا اور سننا دونوں ہی شامل ہیں۔ ہوتا کچھ یوں ہے کہ ایک انسان 225 الفاظ فی منٹ بول سکتا ہے، دوسری طرف سننے والا ایک منٹ میں 500 الفاظ سننے پر قدرت رکھتا ہے۔ یوں سننے کے ساتھ ساتھ ڈھیر خیالات بھی اسکے ذہن میں آ رہے ہوتے ہیں اور جلد ہی وہ بولنے والے کی بات بیچ سے اچک کر اپنے خیالات کا اظہار شروع کر دیتا ہے اور یوں کسی ایک کی بھی بات ٹھیک سے مکمل نہیں ہو پاتی۔
ایک دوسری انتہا یہ ہے کہ کہ سننے والا جواب میں بس ہمم، ہاں کرتا ہے۔ بظاہر سامنے والے کو بھرپور موقع دیتا ہے کہ وہی بولے اور بولتا چلا جائے لیکن اتنا پھیکا ریسپانس دیتا ہے کہ بندہ خود ہی چپ ہو جائے۔ یہاں کچھ بنیادی آدابِ گفتگو کا ذکر کروں گی۔ اگر سب پر ایک ساتھ عمل مشکل لگے تو کسی ایک پر عمل شروع کیا جائے۔
سب سے پہلی بات تو وہی کہ جب کوئی بات کر رہا ہو تو فون، چابیاں، ایئر فونز، سائیڈ پر کر دیئے جائیں، ٹی وی سے نگاہ ہٹا کر بات توجہ سے سنی جائے، آئی کانٹیکٹ کا خیال رکھا جائے۔ عقلِ کل نہ بنیں۔ ہر بات میں اپنی ماہرانہ رائے دینی ضروری نہیں ہوتی۔
جو بات نہ پتہ ہو، معذرت کر لیں۔ اور اگر کسی کے پاس کسی بھی فیلڈ میں آپ سے زیادہ علم ہے تو کھلے دل سے اسے مان لیں۔ ہر انسان جس سے زندگی میں آپکا سامنا ہو گا، وہ کچھ نہ کچھ ایسا جانتا ہے جو آپ نہیں جانتے۔ کسی کا مطالعہ وسیع ہو گا تو کسی نے تجربات سے سیکھا ہو گا۔ کسی کی تعلیم زیادہ ہو گی، کسی کا ہنر۔ اگر آپ سنیں گے نہیں، آپ سیکھیں گے نہیں۔
جب بات سن رہے ہوں تو "اچھا؟ واقعی؟ ہمم!" جیسے الفاظ پر اکتفا کرنے کی بجائے "کیا، کب، کیسے" جیسے الفاظ استعمال کریں تا کہ سامنے والا اپنی بات کا اظہار مکمل طور پر کر سکے۔ اتنے سوال بھی نہ کریں کہ اسے لگے انٹرویو ہو رہا ہے۔ ہر بات اعتدال میں ہی اچھی لگتی ہے۔
جب کوئی اپنی بات شیئر کرے تو اسے بات کرنے دیں نہ کہ اس بات سے متعلقہ اپنے تجربات شیئر کرنے لگیں۔ مثال کے طور پر کوئی کہتا ہے کہ میرے چچا کو کینسر ڈائگنوز ہوا ہے۔ اب اسکی بات تو بیچ میں رہ جاتی اور ہمارا ریسپانس کچھ ایسا ہوتا:
"اوہ! بہت دکھ ہوا سن کر۔ بڑی بری بیماری ہے۔ میری فیملی میں بھی فلاں کو ہوا تھا۔ دنوں میں سوکھ کر کانٹا بن گئے۔ فلاں جگہ سے علاج کروایا، فلاں جگہ لے کر گئے لیکن، " یعنی جو بندہ بات کہنا چاہتا تھا، اسکی بات تو وہیں رہ گئی، ہم اپنی بات کرنے لگ گئے۔ کوئی اپنی ساس سے تنگ ہو، کوئی اپنی بیماری کا تذکرہ کرے، کوئی اپنی شادی کی بات کرے، ہر ہر بات سے متعلق ہماری اپنی اتنی کہانیاں ہیں کہ ہم دوسرے کی بات سنتے ہی نہیں۔ ہماری زیادہ تر باتیں "میں نے، مجھے، میرا بھی، ہم نے بھی"سے ہی شروع ہوتی ہے۔ غور تو کیجیے!
گفتگو کے دوران بار بار بات نہ دہرائیں۔ بات کو زیادہ طول نہ دیں۔ عموماً تاریخ، جگہ، نام کے ذکر کے بغیر بات مکمل ہو جاتی ہے اور زیادہ پرلطف بھی ہوتی ہے کیونکہ غیرضروری تفصیل سماعت پر بوجھ نہیں بنتی۔
آخری بات: سنیں! جب آپ دل سے بات سنیں گے، صرف جواب دینے کی نیت سے نہیں بلکہ سننے کی نیت سے، تو گفتگو خود ہی بہتر ہونے لگے گی۔ ایک قول اس حوالے سے مجھے بہت پسند ہے:
Courage is what it takes to stand up and speak; courage is also what it takes to sit down and listen۔