Tuesday, 26 November 2024
  1.  Home
  2. Blog
  3. Nayyer Taban
  4. Abba Ji Ki Yaad

Abba Ji Ki Yaad

ابا جی کی یاد

یہ موتیوں کی لڑی جیسی لکھائی ابا جی کی ہے۔ وہ ویسے تو امی کے ابا جی تھے لیکن میرے لئے کچھ کچھ امی ہی تھے۔ میں گھوم کر بچپن میں جھانکوں تو ایسا لگتا ہے کہ انہی کے آس پاس ہوا کرتی تھی۔

میری پیدائش سے پہلے ہی ابا جی میرا نام رکھ چکے تھے۔ چہرہ دیکھا اور کہا، یہ نیّر تاباں ہے۔ گھر والے تلملاتے رہ گئے کہ تاباں تو چلیں ٹھیک ہے، نیّر کو ادل بدل کر لیا جائے۔ لیکن ابا جی میرا نام رکھ چکے تھے، تبدیلی کی گنجائش نہ تھی۔ وہ تمام احباب جو پوچھا کرتے ہیں کہ آیا یہ قلمی نام ہے۔ نہیں! میرا نام میرے ابا جی نے نیّر تاباں رکھا ہے۔

محبت کی پہلی پھوار میں نے ابا جی کی کہانیوں میں محسوس کی تھی۔ عجیب بات ہے کہ مجھے کچھ یاد نہیں کہ وہ کون سی کہانیاں تھیں؟ لیکن اتنا ضرور یاد ہے کہ میں دوپہر میں بھی کہانی سننے کی فرمائش کر دیا کرتی تھی۔ ابا جی کہا کرتے، "دوپہر کو کہانی سننے سے مسافر گھر کا رستہ بھول جاتے ہیں۔ " یہ ایمپتھی کا بیج انہی کا بویا ہوا ہے شاید۔ میں مسافروں کو بھٹکنے سے بچانے کی خاطر کہانی کی قربانی دے دیا کرتی۔

شام ڈھلتے ہی کیاریوں کو پانی دیا کرتے اور میں حسبِ عادت ان کے آس پاس منڈلا رہی ہوتی تھی۔ مجھے اندر نمک لانے کو بھیجا جاتا اور پودینے کے کچھ پتے دھو کر مجھے دیے جاتے۔ "نمک چھڑک کر خود بھی کھا لو، مجھے بھی دے دو۔ " وہ پودینے کے کچھ فائدے بتا دیتے۔ میں خوب چبا کر کھا لیتی کہ پودینے کی نرم سی کڑواہٹ سے آنکھوں میں ہلکی سی نمی اتر آتی۔ ابھی اچانک سے گیلی مٹی کی خوشبو محسوس ہوئی ہے اور نمکین پودینے کے پتوں کا ذائقہ منہ میں گھل گیا ہے۔

مسجد کے پاس ایک دوکان تھی۔ وہاں سے ہمارے لئے "اینٹیں " لاتے تھے۔ اگر میری یاداشت کام کر رہی ہے تو اینٹ کی شکل کی یہ گولیاں ایک روپے کی پچیس آتی تھیں۔ مسجد والی دوکان پر اینٹوں والے ڈبے کے ساتھ ایک تکون شکل کی گولیاں بھی ہوا کرتی تھی۔ وہ بھی اسی قیمت میں تھیں اور وہ بھی ابا جی ہمیں دلوایا کرتے تھے۔ ہاں چیونگم کی اجازت نہ تھی۔ ہمیں منع رکھنے کے لئے ابا جی نے بڑی کراہیت آمیز مثال گھڑ رکھی تھی جو میں یہاں لکھوں گی نہیں۔

مسکراہٹ میں غالباً ابا جی کی سب سے سیانی بیٹی تھی اسی لئے تو ناشتے کے ساتھ (یا شاید پہلے) دوا ہمیشہ میں ہی ان کے منہ میں رکھتی تھی۔ پھر پانی پلا کر سکون سے سو جاتی کہ ذمہ داری پوری ہوئی۔ ابا جی کے بستر کے ساتھ ہی الماری تھی جس میں امی جی (میری نانی امی) نظر تیز کرنے کے لئے سونف، الائچی، مصری کا سفوف تیار کر کے رکھتی تھیں۔ وہ بہت مزیدار ہوتا تھا۔ چھوٹی چمچ سے روز کا تھوڑا سا سفوف ابا جی ہماری ہتھیلی پر رکھتے جسے میں زبان کی نوک سے چسکے لے لے کر کھاتی۔

قسمت اچھی ہو تو مصری کی کوئی چھوٹی سی ڈلی پسنے سے رہ جاتی تھی اور چپکے سے مجھے مل جاتی تھی۔ امی کو یہ ناز تھا کہ ابا جی سب سے زیادہ ان سے پیار کرتے ہیں۔ میرا یہ مان کہ مجھ سے زیادہ انہیں کوئی اچھا نہیں لگتا۔ جب انہی سے پوچھا جاتا کہ آپ کی اصلی بیٹی کون سی ہے، تو خجل سی مسکراہٹ کے ساتھ جواب گول کر جاتے۔ ارے! کہہ دیا ہوتا کہ میں ہی ہوں۔ بس یونہی امی کا دل رکھنے کو خاموش ہو رہتے تھے، مسکراہٹ۔

ابا جی بس میٹرک پاس ہیں؟ میں نے پہلی بار سنا تو حیران رہ گئی۔ انگلش کے ٹینسز میں پرو تھے۔ سنا ہے بی اے تک انگلش پڑھا سکتے تھے۔ سکریبل سے ہمارا تعارف شاید ابا جی نے ہی کروایا۔ انگلش کا ایک لمبا سا لفظ لکھ کر دیتے کہ اب اس میں سے کتنے لفظ بنا سکتے ہو۔ ہم چھوٹے بڑے لفظوں کی لائن لگا کر چیک کروایا کرتے اور شاباشی لیتے۔

ابا جی کی ٹانگ ذیابیطس کی وجہ سے کٹ گئی تھی اور وہ نقلی ٹانگ لگایا کرتے تھے۔ میں انہیں گھٹنے سے اوپر تک کٹی ٹانگ کے ساتھ یہ نقلی ٹانگ سٹریپ سے باندھتے بغور دیکھتی تھی۔ کبھی ہلکا سا ڈر محسوس ہو تو سوچتی کہ ابا جی تو بہت ہینڈسم ہیں اور ریٹائرمنٹ کے وقت سوٹ بوٹ میں ملبوس ابا جی کی ایوارڈ لیتے وقت کی تصویر آنکھوں میں بسا لیتی تھی۔

ہائے۔ خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں۔ آج ابا جی کی ملکیت رہی یہ کتاب کھولی تو ڈھیر سارے یاد آ گئے۔ نمکین حلق لئے دعائیں بھیج دی ہیں۔ کچھ چہرے دل کو کتنے عزیز ہوتے ہیں۔

رب ارحمھما کما ربیانی صغیرا۔

Check Also

Quwat e Iradi Mazboot Banaiye

By Rao Manzar Hayat