Afghan Cricket Team Ki Jeet Aur Hamara Media
افغان کرکٹ ٹیم کی جیت اور ہمارا میڈیا
گزشتہ دنوں افغان کرکٹ ٹیم کی پاکستان کے خلاف غیر متوقع جیت پر اکثر پاکستانی شائقین شدید صدمے میں آگئے۔ کیونکہ ان کو یقین ہی نہیں تھا کہ ایک نئی ٹیم سابقہ ورلڈ چمپئن کو مقابلوں سے تقریبا باہر ہی کردے گی۔ ہمارے یہاں ایک عجیب رویہ پایا جاتا ہے جو کہ سپورٹس سپرٹ کے بلکل خلاف ہے۔ ہم ہار جیت کو زندگی کا روگ بنا لیتے ہیں۔ یہ سوچ حاوی رہتی ہے کہ ہم ہاریں ایسا ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ ہم کھیل کے میدان میں اس سج دھج سے اترتے ہیں کہ ہم ہی جیتیں گے ہاریں ہمارے حریف۔
سب کو پتہ ہے کہ ہار جیت کھیل کا حصہ ہے، لیکن روایتی حریفوں سے ہار ہم سے بلکل برداشت نہیں ہوتی۔ اس کو لے کر اگر ٹھنڈے دل سے تجزیہ کیا جائے تو اس سے ہماری سوچ کی انتہا پسندی آشکار ہوگی ہمیں اپنی ذہنیت میں اعتدال لانا چاہیے۔
اس میں شک نہیں کہ ہمارا الیکٹرانک میڈیا دھماکہ خیز نیوز بریک کرنے کے چکر میں ہائپر ہو جاتا ہے۔ وہ اپنی ریٹنگ کے لئے اور ناظرین کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لئے ماحول گرم کر لیتے ہیں۔
افغانستان کی کرکٹ ٹیم کے روح رواں ابراہیم زدران کے ایک بیان کو بیناد بنا کر مین اسٹریم میڈیا کے ایک چینل نے ایک تنازعہ کھڑا کر دیا اور ایک ایسی اسٹوری تخلیق کی جس کی بنیاد پر بیان بازی کا طوفان اٹھا۔ ابراہیم زدران نے مین آف دی میچ ایوارڈ ان افغان پناہ گزینوں کے نام کرنے کا اعلان کیا جنہیں حکومت یہاں سے نکلنے کا الٹی میٹم دے چکی ہے کہ ایک مہینہ کے اندر پاکستان چھوڑ کر ملک سے نکل جائیں۔ مذکورہ چینل کی دیکھا دیکھی دیگر چینلز نے بھی بغیر سوچے سمجھے وہی بیانیہ اپنا لیا۔
اب یہ اتنا بڑا ایشو نہیں تھا۔ آزادی بیان کے تناظر میں آپ اپنا ایوارڈ کسی کے بھی نام کر سکتے ہیں۔ نکالے جانے والے تو پھر بھی اس کے اپنے لوگ ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ غیر قانونی طور پر یہاں رہنے والے پناہ گزینوں کو بالآخر اپنے ملک واپس جانا چاہیے۔ سو وہ جا بھی رہے ہیں۔ لیکن کچھ ایسے بھی ہیں جو سمجھتے ہیں کہ واپسی کے فیصلے کو جلد بازی میں طے کیا گیا۔ اس بارے میں ان کے تحفظات یہ ہیں کہ دیا گیا وقت غیر مناسب اور تھوڑا ہے۔ اس معاملے میں رحم دلی دکھانے کی ضرورت ہے کیونکہ سردیاں آچکی ہیں۔ سخت سردی میں ایک ایسے علاقے کو ہمیشہ کے لئے چھوڑ دینا بہت تکلیف دہ ہوتا ہے۔ جہاں آپ پیدا ہوئے، پلے، بڑھے اور پھر اچانک حکم آ جائے کہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اپنا بوریا بستر باندھ چلے جاؤ۔ حالانکہ اقوام متحدہ کا متعلقہ ادارہ بھی اس نادر شاہی حکم پر نظر ثانی کے لئے کہہ رہا ہے۔ مگر تا حال کوئی نظر ثانی والا معاملہ نہیں ہے۔
افغان بلے باز ابراہیم زدران نے اس خوشی کو ان دکھی لوگوں کے نام کرنے کی بات کی۔ اگر ٹھنڈے دل سے سوچا جائے اس نے کوئی ایسا جرم نہیں کیا جس پر بلاوجہ غصے کا اظہار کرکے مصنوعی طور پر پیدا کی گئی نفرتوں کو بڑھاوا دیا جائے۔ انتہائی افسوس سے کہنا پڑ رہا ہے کہ ہمارا میڈیا اس سلسلہ میں بلکل سنجیدگی اور بلوغت کا مظاہرہ نہیں کر رہا اور کرکٹ کو لے کر بلاوجہ بہانے بازی اور پوائنٹ سکورنگ کر رہا ہے اور غیر ضروری باتوں کو ایشو بنا کر اپنی افلاطونیت چمکا رہا ہے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پاکستانی کرکٹ ٹیم کی کمزوریوں کو زیر بحث لا کر ان غلطیوں کا پتہ چلاتے جن کی وجہ سے ہار گئے۔ کیونکہ اس وقت پاکستان کی کرکٹ کو سنگین مسائل کا سامنا ہے۔ کرکٹ بورڈ پر سلیکشن میں اہلیت کے بجائے اقربا پروری کرنے کے سنگین الزامات ہیں۔ جس کی بنیاد پر کھلاڑیوں کا نہیں، پاکستان کی کرکٹ کا نقصان ہور ہا ہے اور پھر جب مخالف ٹیم کے مقابلہ میں گھٹیا کارکردگی دیکھنے کو ملتی ہے تو میڈیا اصل ایشوز کو کم اور بہانے بازی کو زیادہ ڈسکس کرتا ہے۔ مخالف ٹیم کے کھلاڑیوں کی ذاتیات پر حملے شروع ہوجاتے ہیں۔
طرح طرح کے عجیب سوالات اٹھائے جاتے ہیں کہ عرفان پٹھان نے کیوں راشد خان کے ساتھ ڈانس کرکے اس کی ٹیم کی جیت کی خوشی منائی۔ وہ کون ہوتا ہے ایسا کرنے والا۔ یا اس بات کو لے کر بیٹھ جاتے ہیں۔ کہ راشد خان کون ہوتا ہے۔ بھارت کا جھنڈا لہرانے والا۔ ان سے بندہ پوچھے کہ کیا کسی کی جیت پر خوش ہونا منع ہے؟ اگر منع ہے تو بتا دیں۔ کیا ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں۔ کہ افغان کرکٹ ٹیم کی شاندار کارکردگی پاکستان کے سنجیدہ اور بالغ نظر کرکٹ شائقین خوش نہیں ہوئے ہوں گے۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ آپ اچھا کھیلیں اور کوئی آپ کو داد نہ دے۔ شاہد آفریدی کا بیان آچکا ہے کہ افغانستان کی زبردست کارکردگی سے اس نے بہت لطف اٹھایا۔ جناب کرکٹ کو کرکٹ رہنے دیں۔ سیاست کا میدان نہ بنائیں۔
مین سٹریم میڈیا سے لے کر سوشل میڈیا تک سب سے درخواست ہے کہ خدارا ردعمل دکھاتے ہوئے جلتی پر تیل نہ ڈالا کریں۔ معاملات کو سمجھنے کی کوشش کیا کریں۔ تجزیہ کریں تو ٹھنڈے دماغ سے کریں۔ ہر چیز کی ایک وجہ ہوتی ہے۔ وجوہات کا پتہ لگانے کے لئے کیس سٹڈی کریں اور پوری تیاری کے بعد میڈیا پر آ کر ٹو دی پوائنٹ بات کریں۔ اس طرح اصل خرابیوں کا پتہ لگا کر اصلاح کی تجاویز پیش کریں۔
مگر انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے۔ کہ سوشل میڈیا کے آنے سے ایسے بھی صحافیوں کا ظہور ہوا ہے۔ جو کسی بھی طرح سے صحافی نہیں ہوتے۔ ایسے لوگ مشہور ہونے کے لئے مائک پکڑ کر کیمرے کے سامنے کچھ بھی بول لیتے ہیں اور ڈس انفارمیشن پھیلاتے ہیں۔
معاشرے میں ان کے گھس بیٹھ سے کافی بددلی اور بدمزگی پھیل چکی ہے۔ یہ صحافت کے نام پر ایک ایسی مخلوق ہے جو مائک اور کیمرہ لے کر کہیں بھی پہنچ جاتا ہے۔ یہ صحافت کے ایسے علم بردار ہیں جو سوشل میڈیا پر مجمع لگا کر داد سمیٹنے کے شوقین ہوتے ہیں۔ چاہے انہیں اس معاملے میں کسی کی پگڑی اچھالنا پڑے۔ یا کسی کے چادر اور چار دیواری کے اندر گھسنا پڑے۔ یہ لوگ سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں بھی پہنچ کر خدائی فوجدار بنتے ہوئے لوگوں کے ایمان کی جانچ پڑتال اور خود ساختہ احتساب شروع کر دیتے ہیں۔ اب تو صورتحال اس قدر خراب ہوچکی ہے کہ میڈیا کے نام پر یہ کالی بھیڑیں معاشرے میں جاری دو نمبر کاموں کا پتہ لگا کر مائک اور کیمرے سے لیس ہو کر پہنچ جاتی ہیں اور وہاں دھمکی لگاتی ہیں کہ ہماری منتھلی لگا دو ورنہ ہم بے نقاب اور رسوا کر دیں گے۔
اب تو بہت سے اداروں میں ان کے داخلے پر پابندی ہے۔ خصوصاً سرکاری اداروں میں، کیونکہ ان کی من مانی رپورٹنگ اور زرد صحافت سے کار سرکار میں مداخلت ہوتی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ اس سلسلہ میں واضح احکامات جاری کرے تاکہ ایسی صحافت کا قلع قمع کیا جاسکے یا پھر ان کی نام نہاد صحافت کو محدود کیا جاسکے۔