Wehshat Gah
وحشت گاہ
زندگی کی اصل شے زندگی کا رس ہے اور یہ رس خوابوں سے بنتا ہے۔ خواب نہ ہوں تو زندگی محض پھوک رہ جاتی ہے۔ انسان زندہ ہوتا ہے، چلتا پھرتا ہے مگر اندر سے مرچکا ہوتا ہے۔
ایسے لوگوں کی کثرت آپ کو اس ملک اور معاشرے میں ملے گی۔ خوابوں اور جنون کی یہ قتل گاہ، جہاں لوگ محض زندہ ہیں، سانس لیتے ہیں اور اس کی قیمت ادا کرتے ہیں۔ ایک انبوہ مخلوق تو محض دو وقت کی روٹی کے لیے صبح سے شام تک کولہو کے بیل کی مانند جتی ہوئی۔
جتنے پریشان چہرے اور مردہ آنکھیں، جن کے اندر جھانکیں تو حسرتوں کے قبرستان ہیں، آپ کو اس معاشرے میں ملتی ہیں، دنیا کے کسی ترقی یافتہ معاشرے میں نہیں۔ صرف ملک ہی ترقی یافتہ نہیں ہوتے معاشرے بھی ترقی یافتہ ہوتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ معاشرے کی ترقی کے بغیر ملک ترقی کرتے ہی نہیں۔
اول یہ نظام ہی طاقت کا ہے۔ طبقاتی تفریق اور استحصال پر مبنی۔ جس میں افراد کے لیے ترقی کے برابر مواقع نہیں، نہ ہی بحثیت شہری ان کا معیار برابر ہے۔ تعلیم، صحت، رہائش، معاش تمام پہلو طبقاتی تفریق کے مظاہر ہیں۔ یہاں حقیقت میں کبھی ایسے منصوبے شروع نہیں کیے گئے جو نیچے والوں کو اٹھاکر اوپر والوں کے برابر کرنے کی کوشش کریں۔ حال مزید ابتر یہ ہے کہ اب تو سارا بوجھ نیچے والے اٹھانے پر مجبور ہیں۔ بالادست طبقے کی مراعات مسلسل بڑھ رہی ہیں جب کہ نیچے والوں کی کمر دہری ہوتی جارہی ہے۔
جدید ترین ایٹمی ٹیکنالوجی کا حامل ملک جہاں سے لوگ رزق اور مسقبل کے لیے غیر قانونی ہجرت کرتے سمندروں کی نظر ہوجاتے ہیں۔ سوال، اس اشرافیہ کو خود سے یہی پوچھنا چاہیے کہ لوگ کیوں اپنے دیار اور گھر بار کو چھوڑنے پر تیار ہیں وہ بھی اس طرح کہ موت آئے یا دیار غیر میں مشقت بھری زندگی، ہر سودا منظور ہے۔ کیا علامت نہیں کہ ہم یہاں کے عام آدمی سے امید چھین چکے ہیں؟ اب یہ دیس اس کے لیے خوابوں کا دیس نہیں رہا۔ انسان وہ زمین چاہتا ہے جو اس کے خوابوں کی کاشت کےلیے سازگار رہے۔
اب اس ملک کے حال پر نوحہ گری اور سینہ کوبی بھی کتنی کی جائے۔ انسان ہے، تھک جاتا ہے۔ یہ مایوسی کی سوداگری نہیں، سوداگری کا شرف ان لوگوں کو نصیب ہوا ہے جن کی وجہ سے یہاں سے ہنر مند قانونی طور پر ملک چھوڑ جاتے ہیں اور غیر ہنرمند اسمگلروں کے ذریعے۔
دوم، ہماری پسماندگی کا سبب ہمارے معاشرتی رویے بھی ہیں۔ ہمارا انفراسٹرکچر ہی انیسویں صدی کا نہیں، ہمارے رویے بھی اٹھارویں صدی کے ہیں۔ اس معاشرے کو اذیت کدہ بنانے میں عامیوں نے بھی کم ہاتھ نہیں بٹایا۔ معاشرہ افراد سے بنتا ہے، میں اور آپ سے مل کر۔ یہ معاشرہ جہاں اپنی کامیابی کا تصور دوسروں کی ناکامی ہے۔ جہاں خواب قتل ہوتے ہیں اور جنون کو روند دیا جاتا ہے۔ انفرادیت جہاں ایک داغ کی طرح ماتھے پر چسپاں ہوجاتی ہے۔ اس کے خواص ان ہی عامیوں جیسے ہیں اور عامی، خواص جیسے۔ ایک ایسا معاشرہ جو دو انتہاؤں کے درمیان جھولتا رہتا ہے۔
کبھی ایک عجیب خوفناک خیال آتا ہے کہ اگر اسٹیفن ہاکنگ یہاں پیدا ہوا ہوتا تو؟ آج جو ایک انسپائریشن ہے، توبہ و استغفار اور کہیں ترس کہیں طعنوں کا مرکز ہوتا۔ زندگی پر اس کا حق اتنا ہوتا جتنا والدین کی مالی استطاعت اور شعور ہوتا۔ والدین غریب ہوتے تو کسی گاؤں یا شہر کی چھوٹے سے گھر کے تاریک کمرے میں مختصر عمر پاکر فوت ہوجاتا۔ اگر والدین مالدار ہوتے تو بھی جو زندگی اس نے وہاں جی یہاں جی پاتا؟ کیا علم اور سائینس سے وہ لطف کشید کر پاتا؟ ایسی شناخت اور عزت مل پاتی؟
کہا جاتا ہے کہ اس معاشرے میں لوگوں کو پسندیدہ کھیل دوسروں کی ٹانگیں کھینچنا ہے۔
یہاں خوف ہے، عدم تحفظ ہے، لالچ ہے، حسد ہے۔ ان رویوں کی کڑیاں ملائیں، اوپر سے نیچے تک تمام معاشرے کے رویوں کی پرتیں کھلنا شروع ہوجائیں گی۔ بظاہر معلوم یہ ہوتا ہے کہ ہم ترقی کے خواہاں ہیں مگر تحت الشعور میں بسے عدم تحفظ کے باعث حقیقت میں ہم ترقی سے خوف زدہ ہیں۔ شعبہ سرکاری ہو یا نجی، عزیز ہوں یا غیر ہم کسی کی ترقی سے خوش نہیں ہوسکتے جب تک اس کی ترقی سے ہمارا ذاتی مفاد وابستہ نہ ہو۔
مہذب اور ترقی یافتہ معاشروں کی خاصیت یہ ہے کہ ہر خواب قابل قدر ہے انفرادی ہو یا اجتماعی۔ یہاں خوابوں کی راہ پر چلنے کے بعد سر پر ایک آہنی خول چڑھانے کی ضرورت پڑتی ہے کہ راہ کے پتھروں سے یہ سر سلامت رہے۔ فقط نیک نیتی، نیک کوشش اور خواب تو عبدالستار ایدھی کو بھی یہاں راس نہیں آتے۔ ایک زندگی تج دی تو عزت نصیب ہوئی۔
ایسا جگر، ایسا ظرف کہاں ہر ایک کے پاس ہوتا ہے؟